’اسرائیل امریکا کی پہلی ترجیح نہیں رہا‘ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے دورے میں سائیڈ لائن کردیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
اسرائیلی عہدیداروں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے پر جانے پر بے خوفی کا اظہار کیا ہے، لیکن ان کا یہ فیصلہ اسرائیل میں واشنگٹن کی ترجیحات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والی تازہ ترین پیش رفت ہے۔
نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اتوار کو غزہ میں فوجی کارروائیوں کو تیز کرنے کے منصوبوں کا اعلان کرنے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ اسے امریکا کی طرف سے ایک امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کی رہائی کی اطلاع دی گئی ہے، یہ بات چیت براہ راست واشنگٹن اور حماس کے درمیان ہوئی تھی، جس میں اسرائیل شامل نہیں تھا۔
امریکا کی جانب سے سعودی عرب پر اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرنے کا مطاالبہ واپس لینے کا فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ مسئلہ عالمی طور پر اسرائیل کے لیے کتنا نقصان دہ رہا ہے، کیوں کہ سعودی عرب اس بات پر اصرار کر رہا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ تصفیے کے اقدامات پر رضا مندی دے۔
سعودی عرب کو ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرح ابراہام ایگریمنٹ کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا کہا جانا تھا، جو نیتن یاہو کا بڑا ہدف رہا ہے، لیکن اب مقصد میں لامحدود تاخیر ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
صدر ٹرمپ (جو سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر پہنچنے والے ہیں) نے پچھلے ہفتے اچانک یہ اعلان کرکے اسرائیل میں اضطراب پیدا کردیا تھا کہ امریکا یمن میں حوثیوں پر بمباری بند کر دے گا، چند دن بعد ایک حوثی میزائل نے اسرائیل کے مرکزی ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا، یہ خطے کے لیے واضح پیغام تھا۔
اسرائیلی نیوز آؤٹ لیٹ ’وائی نیٹ‘ کے مطابق اسرائیل اب امریکا کی پہلی ترجیح نہیں ہے، اور یہ بات وائی نیٹ کے سفارتی نمائندے ایتامار آئچنر (جو سیاسی نظریے کی بنیاد پر میڈیا کے تبصرہ نگاروں میں شامل ہیں) نے لکھی ہے۔
اسرائیل نے مستقبل کے غزہ کے بارے میں امریکا کے ساتھ بات چیت کی ہے، اور اہلکار کہتے ہیں کہ سرکاری سطح پر تعلقات مضبوط ہیں، لیکن کچھ اہلکار تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ٹرمپ کے فیصلہ سازی سے حیران رہ گئے۔
حوثیوں کے بارے میں فیصلے (جس پر پہلے اسرائیل کے ساتھ گفتگو نہیں کی گئی) نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر امریکا کے مذاکرات میں اسرائیلی بے چینی کو مزید بڑھا دیا، جو تہران کے خلاف کسی بھی اسرائیلی فوجی کارروائی کی دھمکی کو کمزور کر سکتا ہے۔
اسرائیل کو اس وقت مزید تشویش کا سامنا کرنا پڑا، جب یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ امریکا اب سعودی عرب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا مطالبہ نہیں کر رہا، جو کہ سول نیوکلیئر تعاون کے مذاکرات میں ترقی کے لیے شرط تھی۔
مارچ کے مہینے میں ٹرمپ کے خصوصی ایلچی، ایڈم بوہلر نے ایسی ملاقاتیں کیں، جن کو حماس نے بہت مددگار قرار دیا، جو اسرائیل کو نظرانداز کرتے ہوئے اور فلسطینی گروپ کے ذریعے ایڈن الیگزینڈر کی رہائی پر مرکوز تھیں، پچھلے ہفتے امریکی سفیر مائیک ہکابی نے انکار کیا کہ ٹرمپ نے اسرائیل سے خود کو فاصلے پر کر لیا ہے۔
مختلف ترجیحات
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کی حکومت کو پیر کے روز تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب اسرائیلی اہلکار امریکی نژاد ایدن الیگزینڈر کی رہائی کا انتظار کیا جارہا تھا، عوام میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ واشنگٹن اور تل ابیب کی ترجیحات مختلف ہیں۔
تل ابیب کے پنشنر جیک گٹلیب نے کہا کہ اب کوئی قیادت نہیں ہے، یہ کوئی سوال نہیں ہے کہ یہ معاہدہ نیتن یاہو کی پیٹھ کے پیچھے ہوا، یا یہ کہ امریکی اور اسرائیلی ایجنڈے فی الحال مختلف ہیں، اس وقت، ہر کوئی اپنے لیے سوچ رہا ہے۔
نیتن یاہو کے پاس حوثیوں کے فیصلے کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، جنہوں نے اشارہ دیا کہ وہ اسرائیل پر مزید میزائل داغتے رہیں گے۔
ٹرمپ کے پیشرو جو بائیڈن کو بھی اسرائیلی قدامت پسندوں کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب انہوں نے غزہ میں استعمال ہونے والے بھاری ہتھیاروں کی برآمدات روک دی تھیں، اور مقبوضہ مغربی کنارے میں تشدد کرنے والے یہودی آبادکاروں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسرائیل کے ساتھ نیتن یاہو امریکا کی ٹرمپ کے
پڑھیں:
غزہ پر قبضہ کے اسرائیلی منصوبے پر یو این چیف کو تشویش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 09 اگست 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اسرائیل کی جانب سے غزہ شہر کو قبضے میں لینے کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سیکرٹری جنرل کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے اس اقدام سے غزہ میں لاکھوں فلسطینیوں کو درپیش تباہ کن حالات مزید شدت اختیار کرنے کا خدشہ ہے۔
اگر اسرائیل نے اس منصوبے پر عمل کیا تو علاقے میں باقیماندہ یرغمالیوں سمیت بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔ Tweet URLانہوں نے کہا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کو ہولناک درجے کی انسانی تباہی کا سامنا ہے۔
(جاری ہے)
کشیدگی میں مزید اضافے کا نتیجہ جبری نقل مکانی، بڑے پیمانے پر تباہی اور ہلاکتوں اور شہری آبادی کی ناقابل تصور تکالیف میں مزید اضافے کی صورت میں برآمد ہو گا۔اسرائیلی کابینہ نے گزشتہ روز غزہ پر عسکری قبضے کی منظوری دی ہے جس کے مطابق ابتدائی مرحلے میں غزہ شہر پر قبضہ کیا جائے گا۔
اسرائیل سے مطالباتسیکرٹری جنرل نے غزہ میں مستقل جنگ بندی، بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی بلارکاوٹ رسائی اور تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیرمشروط رہائی کے مطالبے کو دہرایا ہے۔
انہوں نے اسرائیل کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے شہریوں کو تحفظ دے اور انہیں حسب ضرورت امداد کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے۔
سیکرٹری جنرل نے گزشتہ ماہ عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کی جانب سے دی گئی مشاورتی قانونی رائے کا تذکرہ بھی کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں آبادکاری کی نئی سرگرمیاں فوری طور پر روک دے، تمام آبادکاروں کو علاقے سے نکالے اور وہاں اپنی غیرقانونی موجودگی کو جلد از جلد ختم کرے۔
انہوں نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کے خاتمے اور قابل عمل دو ریاستی حل کے بغیر یہ تنازع ختم کرنے کا کوئی پائیدار طریقہ نہیں۔ غزہ فلسطینی ریاست کا اٹوٹ انگ ہے اور رہے گا۔
سلامتی کونسل کا اجلاساسرائیلی کابینہ کے اس فیصلے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر اقوام متحدہ میں فلسطینی مبصر ریاست کے مستقل مشاہدہ کار ریاض منصور نے سلامتی کونسل کے صدر سے بات چیت کی ہے۔
اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ غزہ پر قبضے کے لیے اسرائیلی حکومت کا فیصلہ عالمی برادری کی خواہش، بین الاقوامی قانون اور فہم عامہ سے یکسر متضاد ہے۔ رائے عامہ سے متعلق جائزوں سے ظاہر ہوتا ہےکہ اسرائیل کے عوام کی اکثریت بھی ایسا نہیں چاہتی۔
غزہ کے بحران پر بات چیت کے لیے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس کل طلب کر لیا گیا ہے۔
خوراک اور پانی کی قلتامدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ غزہ میں شہریوں کے ہلاک و زخمی ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ علاقے میں بڑے پیمانے پر شدید بھوک پھیلی ہے۔ اگرچہ گزشتہ چند روز کے دوران تجارتی سامان کے ٹرک غزہ میں آنے سے اشیائے صرف کی قیمتوں میں معمولی سی کمی بھی واقع ہوئی ہے لیکن کھانے پینے کی بیشتر اشیا کی قلت برقرار ہے۔
غزہ کے مختلف علاقوں میں فضا سے گرائی جانے والی امداد کے حصول کی کوشش میں بھی درجنوں لوگ ہلاک و زخمی ہو رہے ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہر ذریعے سے امداد کی فراہمی اہمیت رکھتی ہے لیکن غزہ میں بڑے پیمانے پر لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زمینی راستوں سے مدد بھیجنا ضروری ہے۔
اوچا نے بتایا ہے کہ خطہ شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے اور ایسے حالات میں غزہ کے لوگوں کو پانی تک رسائی میں کڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ امدادی شراکت داروں کے مطابق، گزشتہ روز جنوبی غزہ میں پانی صاف کرنے کا پلانٹ بجلی منقطع ہو جانے کے باعث بند ہو گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ صاف پانی سے محروم ہو گئے ہیں۔