والد نے ہمیں خاموش رہنے کو کہا لیکن اب ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں، عمران خان کے بیٹوں کا پہلا انٹرویو
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
لندن ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 13 مئی 2025ء ) پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے بیٹوں قاسم اور سلیمان کا پہلا انٹرویو منظرعام پر آگیا۔ اپنے پہلے انٹرویو میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے والد عمران خان کو دو سال سے قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے، کاش ہم اپنے والد سے فون پر گفتگو کر پاتے، ہماری اپنے والد سے فون پر گفتگو نہیں کرائی جاتی، عدالت نے ہر ہفتے بات کروانے کا حکم دیا ہے لیکن دو دو مہینوں تک ہمارے بات نہیں کروائی جاتی، ہماری جب والد سے بات کرائی بھی جاتی تھی تو لائن 20 منٹ پر کٹ جاتی تھی، آدھا وقت وہ ہمیں نصیحتیں کرتے، باقی ہماری زندگیوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
قاسم اور سلیمان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے والد عمران خان کو آخری بار دیکھا جب انہیں 3 گولیاں لگی ہوئی تھیں، وہ مضبوط تھے، استقامت سے کھڑے تھے اور مسکرا رہے تھے، وہ اُنہیں توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ ڈیل نہیں کریں گے، مییرے والد بہت اصول پسند ہیں، وہ کبھی بھی ڈیل نہیں کریں گے اور نہ دوسرے لوگوں کی طرح کوئی ڈیل قبول کریں گے۔(جاری ہے)
انہوں نے الزام عائد کیا کہ جمہوریت پر دباؤ اور الیکشن میں دھاندلی کے خلاف بڑا احتجاج ریکارڈ کروانے کے بعد جیل میں عمران خان پر مزید سختیاں بڑھا دی گئیں، والد نے ہمیں خاموش رہنے کو کہا لیکن اب ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں، ہم نے سوچا تھا کہ یہ سب چند ہفتوں کے لیے ہوگا لیکن اب تو 2 سال ہو گئے، اُنہوں نے عمران خان کو دھندلانے کی کوشش کی، یہاں تک کہ 1992ء کے ورلڈکپ کی تصاویر کو بھی مٹا دیا۔
انٹرویو کے دوران عمران خان کے بیٹوں نے کہا کہ ہمارے والد کو پچھلے دو سال سے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے، یہاں تک کمرے میں بھی بجلی بھی نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر کو ملنے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہیں، والد سے ہماری فون پر بات بند کر دی گئی، ڈاکٹر کو ملنے کی اجازت نہیں، بجلی بھی بند کردی جاتی ہے، یہ سارے حربے میرے والد کو توڑنے کے لیے کر رہے ہیں لیکن وہ بہت مظبوط انسان ہیں انہیں توڑنا آسان نہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے والد سے
پڑھیں:
عثمان خواجہ کا آسٹریلوی ریڈیو اسٹیشن کو انٹرویو دینے سے انکار
آسٹریلیا کے اوپننگ بیٹر عثمان خواجہ نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ کے پہلے دن کے بعد آسٹریلوی اسپورٹس ریڈیو اسٹیشن SEN کو انٹرویو دینے سے انکار کر دیا۔
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب 4 ماہ قبل اسی ادارے نے سینئر کرکٹ صحافی پیٹر لیلور کو غزہ سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹس کے باعث برطرف کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:’تمام زندگیاں برابر نہیں ہیں‘، عثمان خواجہ فلسطین میں شہادتوں پر بول اٹھے
عثمان خواجہ خود بھی غزہ میں شہری ہلاکتوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں، جہاں اسرائیلی حملوں میں اب تک دسیوں ہزار فلسطینی شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔
یہ حملے اکتوبر 2023 میں حماس کے زیر قیادت اسرائیل پر ہونے والے حملے کے بعد شروع ہوئے تھے جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 250 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
2023 کے آخر میں خواجہ نے ایک ٹیسٹ میچ کے دوران اپنے کھیلے کے سامان پر امن سے متعلق پیغام درج کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی، لیکن کرکٹ کی بین الاقوامی تنظیم آئی سی سی نے اسے ’سیاسی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی اجازت نہیں دی، حالانکہ یہ پیغامات عمومی اور غیر متعین نوعیت کے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:پابندی کے بعد عثمان خواجہ کے جوتے کہاں پہنچ گئے؟
پیٹر لیلور کئی برسوں تک SEN کی کمنٹری ٹیم کا حصہ رہے تھے۔ ان کی خدمات فروری میں سری لنکا کے دورے کے دوران ختم کر دی گئی تھیں، اسی میچ میں خواجہ نے اپنے کیریئر کا سب سے بڑا اسکور (232 رنز) بنایا تھا۔
SEN کے سربراہ کریگ ہچیسن نے دعویٰ کیا تھا کہ لیلور کی فلسطین کے حق میں سوشل میڈیا سرگرمیاں یہودی آسٹریلوی شہریوں کو تکلیف دے رہی تھیں۔
لیلور نے جواب میں کہا، ’میرے دوست خوفزدہ ہیں، ان کی آواز میں خوف سنا ہے۔ یہ واقعی ایک افسوسناک صورتحال ہے، لیکن غزہ کی صورتحال بھی کچھ کم نہیں‘۔
اس وقت خواجہ نے اسٹیشن کے اس فیصلے پر تنقید کی تھی اور ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ’غزہ کے لوگوں کے لیے آواز اٹھانا یہود مخالف نہیں ہے اور نہ ہی اس کا میری آسٹریلوی یہودی بھائیوں اور بہنوں سے تعلق ہے۔ یہ صرف اور صرف اسرائیلی حکومت کے مظالم، انصاف اور انسانی حقوق کی بات ہے‘۔
عام طور پر دن کے بہترین کھلاڑی کو میچ کے بعد انٹرویو کے لیے نامزد کیا جاتا ہے، لیکن خواجہ حالیہ میچوں میں اس فہرست میں شامل نہیں تھے۔
تاہم، کیریبین میں جاری سیریز کے دوران SEN واحد آسٹریلوی براہِ راست نشریاتی ادارہ ہے، جب کہ ABC ریڈیو گھریلو اسٹوڈیوز سے صرف اسکرین دیکھ کر تبصرہ کر رہا ہے، اور فاکس اسپورٹس مقامی ٹی وی فیڈ استعمال کر رہا ہے۔
یہ پہلا موقع تھا جب عثمان خواجہ کو SEN سے گفتگو کے لیے مدعو کیا گیا۔ انہوں نے میچ میں 47 رنز کی اہم اننگز کھیلی تھی۔
ٹیم کے میڈیا منیجر کے کہنے پر خواجہ میدان میں نشریاتی نمائندوں بھارت سندریسن اور ایڈم کولنز کے قریب گئے، لیکن مائیکروفون پر SEN کا لوگو دیکھتے ہی رک گئے، ہاتھ کے اشارے سے معذرت کی اور واپس لوٹ گئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آسٹریلیا ایس ای این عثمان خواجہ فلسطین کرکٹر