Juraat:
2025-09-27@19:15:10 GMT

حالیہ کشیدگی میں پاکستان کو بنگلہ دیشی حمایت

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

حالیہ کشیدگی میں پاکستان کو بنگلہ دیشی حمایت

ریاض احمدچودھری

پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات جوحسینہ واجد دور میں ختم ہو چکے تھے دوبارہ بحال ہو رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کے مشیر اور سابق ریٹائرڈ فوجی جنرل فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ بھارت اگر پاکستان پر حملہ کرے تو بنگلہ دیش کو فوری طور پربھارت کی سات شمال مشرقی ریاستوں پر قبضہ کرلینا چاہیے۔سابق بنگالی فوجی افسر کا کہنا تھا کہ بھارت کی سات ہی شمال مشرقی ریاستیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اور اس ضمن میں بنگلہ دیش کو ابھی سے ہی چین کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔ پاکـبھارت کشیدگی اور ممکنہ طور پر بھارت کے پاکستان پر حملے کے تناظر میں بنگلہ دیش کو چین سے بات چیت کرکے فوجی مشقیں شروع کرلینی چاہیے۔خیال رہے کہ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں ارونا چل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، مزورام، تری پورا اور ناگالینڈ کی سرحدیں بنگلہ دیش کے ساتھ 1600 کلو میٹر رقبے تک لگتی ہیں۔بھارت کی ان ہی ریاستوں کی سرحدیں چین، میانمار، نیپال اور بھوٹان سے بھی لگتی ہیں، مذکورہ علاقے کی متعدد ریاستوں کے کئی علاقوں پر نیپال، بھوٹان، چین اور میانمار اپنا دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں۔بنگلہ دیش کی چار عشروں پر مشتمل سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ نوے فی صد مسلم اکثریت اور عوامی سطح پر ٹھوس اسلامی روایات رکھنے والے اس ملک کا قیام تو سیکولر عنوان سے عمل میں آیا تھا لیکن اس کا سیکولر تعارف بنگلہ دیش کے عوام کو ہضم نہیں ہوا۔ چنانچہ خلافت اسلامیہ کے قیام کے علمبردار حافظ جی حضور نے جو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے خلفاء میں سے تھے جب خلافت کے عنوان سے بنگلہ دیش کے صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو اسلامی نظام اور خلافت کے لیے بنگلہ دیشی عوام کے جذبات دیدنی تھے اور بہت سے سیاسی ذرائع اب تک یہ بات دہرا رہے ہیں کہ اگر مبینہ طور پر دھاندلی نہ ہوتی تو حافظ جی حضور صدارتی الیکشن کی دوڑ میں دوسرے امیدواروں سے آگے تھے۔
جماعت اسلامی نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر گیارہ بارہ سال تک جمہوریت کے لئے زبردست جدوجہد کی تھی۔ اب وقت تھا کہ وہ عوام کے دوش بدش کھڑی ہو جاتی اور یحییٰ خانی ٹولے پر واضح کرتی کہ تم غلط راستہ اختیار کر رہے ہو، جتنی جلدی ممکن ہو اقتدار عوامی نمائندوں کے حوالے کر دو، لیکن افسوس جب ملٹری ایکشن شروع ہوا تو جماعت کے رہنما مشرقی پاکستان میں تعینات ہونے والے نئے مارشل لائ ایڈمنسٹریٹر جنرل ٹکا خان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر امن کمیٹیاں بنانے پر تیار ہو گئے۔پھر 1988 میں بنگلہ دیش کی منتخب پارلیمنٹ نے اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب بھی دستوری طور پر قرار دے دیا تھا جو بنگلہ دیش کے عوام کے دینی جذبات کا مظہر تھا، لیکن عوامی لیگ نے ملک کے سیکولر تشخص کے نام پر اپنے دورِ حکومت میں اسے ”ریورس گیئر” لگا دیا اور اب بھی وہ اسی سیکولر تشخص کے تحفظ کے لیے ہر طرف ہاتھ پاؤں ما رہی ہے۔
بنگلہ دیش میں طلبا تحریک کے نتیجے میں وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا تختہ الٹنے کے بعد جہاں ایک طرف سابق وزرا کی پکڑدھکڑ جاری ہوئی وہیں دوسری طرف برسوں سے جیلوں میں قید اپوزیشن رہنماؤں کی رہائی کا عمل شروع ہوگیا۔ ڈھاکہ کی ایک عدالت نے کوٹہ اصلاحات کی تحریک کے دوران گرفتار بی این پی کی قائمہ کمیٹی کے رکن امیر خسرو محمود چوہدری اور جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل میاں غلام پرور سمیت بی این پی اور جماعت اسلامی کے ایک ہزار سے زائد رہنماؤں اور کارکنوں کی ضمانت منظور کرکے رہائی کا حکم دے دیا۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن مرحوم میر قاسم علی کے لاپتہ بیٹے بیرسٹر میر احمد بن قاسم ارمان بھی 8 سال بعد گھر واپس آگئے۔ ڈیلی بنگلہ دیش کے مطابق ان کے اہل خانہ نے فیس بک پر ارمان کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا الحمدللہ ارمان اب آزاد ہے۔10 اگست 2016 کو رات نامعلوم افراد بیرسٹر میر احمد کو زبردستی اٹھا کر لے گئے جس کے بعد سے وہ لاپتہ تھے اور ان کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق امیر غلام اعظم مرحوم کے لاپتہ بیٹے سابق بریگیڈیئر جنرل عبداللہ الامان اعظمی بھی گھر واپس آگئے۔عوامی لیگ کی حکومت آنے کے بعد عبداللہ اعظمی کو فوج سے نکال دیا گیا تھا۔ جماعت اسلامی نے بارہا ان کی رہائی کے مطالبات کیے لیکن حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کی گرفتاری سے انکار کیا تھا۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد سکیورٹی فورسز نے تقریباً 600 سے زائد افراد کو اغوا اور غائب کیا جن میں سے متعدد لوگوں کا تعلق حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت کالعدم جماعت اسلامی سے تھا۔
جماعت اسلامی نے ڈھاکہ میں اپنا پارٹی دفتر ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک بند رہنے کے بعد کھول دیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ جماعت کے طلبہ ونگ اسلامی چھاترا شبر کا ہیڈ آفس بھی دوبارہ کھول دیا گیا۔ موگ بازار محلے میں پارٹی کا ہیڈ آفس 2011 میں زبردستی بند کر دیا گیا تھا، اور عدالتی حکم کے باوجود اسے دوبارہ کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔بنگلہ دیش جب دستوری طور پر مشرقی پاکستان تھا اور پاکستان کا آئینی حصہ تھا یہ تب کی بات ہے کہ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے لیے آزادی کے نام پر تحریک چلائی گئی تھی جو صرف سیاسی نہیں بلکہ عسکری بھی تھی، اس عسکری اور سیاسی تحریک کو بھارت کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی اور اس کی حمایت میں بھارت نے وسیع پیمانے پر فوجی مداخلت کی تھی۔ اس وقت مشرقی پاکستان کی جماعت اسلامی نے سیاسی اور عسکری دونوں محاذوں پر پاکستان کی حکومت اور فوج کا ساتھ دیا تھا اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک کے عسکری ونگ ”مکتی باھنی” کا ”البدر” اور ”الشمس” کے نام سے عسکری ونگ بنا کر مقابلہ کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش بنگلہ دیش کے بھارت کی کے ساتھ کے بعد

پڑھیں:

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب تفہیم القرآن، بانی جماعت اسلامی!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مولانا مودودیؒ ایک نا بغہ روزگار شخصیت تھے جن کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔مولانا سید مودودی ؒ نے اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا اورقرآن و سنت کی روشنی میں جدید مسائل کے حل پیش کیے۔ ان کی تصانیف نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا با لخصوص مصر، ترکی، تیونس، الجزائر، اور دیگر ممالک میں اسلامی تحریکوں کو متاثر کیا۔ ‘’’الجہاد فی الاسلام‘‘، ’’اسلامی ریاست‘‘،’’سیرت رسول ﷺ‘‘، ’’سود‘‘، ’’پردہ ‘‘، اور’’رسائل و مسائل‘‘ جیسی مشہور و معروف تصانیف ان کے قلم کا شاہکار ہیں۔’’الجہاد فی الاسلام‘‘ ان کی پہلی بڑی تصنیف تھی، جسے 24 سال کی عمر میں لکھا۔ علامہ محمد اقبال نے اس کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ’’اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانون صلح و جنگ پر ایک بہترین تصنیف ہے‘‘۔سید مودودیؒ سے راقم کو کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ ان سے میرا پہلا تعارف بھی ان کی کتب کے ذریعے ہوا۔

مولانا مودودیؒ کے نزدیک اسلام محض چند عبادات کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک کامل تہذیب اور نظام زندگی ہے۔ انہوں نے مغربی تہذیب کے ’’دین و سیاست کی جدائی‘‘ کے نظریے کی مخالفت کی اور کہا کہ اسلام میں دین اور سیاست ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں علامہ اقبال شعر لکھاکہ: ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی پیدائش: 25 ستمبر 1903ء، وفات: 22 ستمبر 1979ء کو ہوئی۔وہ بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر، مفسر قرآن، مصنف، صحافی، اور سیاسی رہنما تھے۔ آپ کا شمار دنیا کے مؤثر ترین مسلم علماء میں ہوتا ہے۔ آپ کی فکر اور تحریک نے نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ مولانا مودودیؒ کی 46ویں برسی 22 ستمبر کو منائی جا رہی ہے، جو ان کی گراں قدر خدمات کو یاد کرنے کا ایک موقع ہے۔

مولانا مودودی ؒ نے جماعت اسلامی کی شکل میں ایسی تحریک اٹھائی جو خالصتا ً حکومت الٰہیہ کے قیام کی تحریک تھی۔اسلام کے نام پر مسلم معاشروں میں بہت سی جماعتیں پہلے سے کام کررہی تھیں مگر وہ سب اسلام کو ایک مذہب اور عبادت و ریاضت سے آگے بڑھ کر دیکھنے کو بھی تیار نہیں تھیں،جبکہ سید مودودیؒ نے اسلام کو ایک دین اور نظام زندگی کے طور پر پیش کیا۔بلا شبہ یہ ان کا بڑا کارنامہ اور امت مسلمہ پر عظیم احسان ہے۔

1933ء میں مولانا مودودیؒ نے ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کا اجراء کیا، جو ان کے افکار و خیالات کے اظہار کا اہم ذریعہ بنا۔ اس رسالے کے ذریعے انہوں نے براہ راست مسلمانوں سے خطاب کیا اور اسلام کے بنیادی اصولوں کو واضح کیا۔مولانا مودودیؒ کی سب سے عظیم دینی خدمت ’’تفہیم القرآن‘‘ ہے، جو چھ جلدوں پر مشتمل قرآن مجید کی تفسیر اور ترجمہ ہے۔ اس کی تدوین میں انہوں نے 30 سال (1942ء تا 1972ء) صرف کیے۔ یہ تفسیر روایتی تفسیر سے ہٹ کر لکھی گئی، جس میں معاشیات، سماجیات، تاریخ، اور سیاسیات جیسے موضوعات پر قرآن کے نقطہ نظر کو واضح کیا گیا۔جدید مسائل کے حوالے سے قرآن کریم کی رہنمائی۔قرآن کے فلسفہ اور مقاصد کی گہری شرح۔سیرت نبوی ﷺ اور تاریخی واقعات کی روشنی میں آیات کی تشریح۔ اس تفسیر کا ترجمہ انگریزی، عربی، ہندی، بنگالی، ملیالم، ماراٹھی، پشتو، اور دیگر کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور انسانیت کی ہدایت کے لیے وقف کی۔ انہوں نے نہ صرف علمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں، بلکہ جماعت اسلامی کی شکل میں ایک تحریک بھی چلائی، جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ ان کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ اور دیگر تصانیف آج بھی اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے اور اسلامی تعلیمات کو واضح کرنے کا ذریعہ ہیں۔

مولانا مودودیؒ نے صرف علمی و فکری میدان میں ہی خدمات انجام نہیں دیں، بلکہ انہوں نے معاشرتی اصلاح اور انسانیت کی بہبود کے لیے بھی کام کیا۔ انہوں نے ’’خدمت خلق‘‘کو اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ قرار دیا اور اس پر عمل بھی کیا۔ ان کی قیادت میں جماعت اسلامی نے سماجی خدمات کے متعدد منصوبے شروع کیے، جن میں غریبوں کی مدد، تعلیمی اداروں کا قیام، اور مفت طبی امداد شامل تھے۔مولانا مودودیؒ کی 46ویں برسی پر ہمیں ان کے افکار و نظریات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ان کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ’’توحید‘‘کا حقیقی شعور دیا اور اسلام کو ایک کامل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا۔ آج کے دور میں جب اسلام کو غلط تشریحات کے ذریعے پیش کیا جا رہا ہے، مولانا مودودیؒ کی فکر ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
مولانا مودودیؒ نے 26 اگست 1941ء کو جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی، جو ایک اسلامی تحریک اور سیاسی جماعت تھی۔ اس کا مقصد اسلام کے نفاذ اور اسلامی نظام حیات کی بحالی تھا۔ ابتداء میں مولانا مودودیؒ ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے، لیکن بعد میں پاکستان کے اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے کوشاں رہے۔

مولانا مودودیؒ کی فکر اور تحریروں نے عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں کو متاثر کیا۔ اخوان المسلمون مصر،فلسطین میں حماس اور شمالی امریکہ میں اسلامک سرکل جیسی تنظیموں نے ان کے افکار سے استفادہ کیا۔ ترکی، تیونس، الجزائر، اور مصر میں اسلامی جماعتوں کی کامیابی میں مولانا مودودیؒ کے لٹریچر نے کلیدی کردار ادا کیا۔1979ء میں مولانا مودودیؒ کو سعودی عرب کے شاہ فیصل انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا، جو ان کی اسلامی خدمات کا اعتراف تھا۔ انہوں نے مدینہ اسلامی یونیورسٹی کے قیام اور انتظام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
1953ء میں تحریک ختم نبوت کے دوران مولانا مودودیؒ کو گرفتار کیا گیا اور ایک فوجی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی۔ تاہم، بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے یہ سزا تبدیل کر دی گئی۔ مولانا نے سزا کے خلاف اپیل کرنے سے انکار کر دیا اور کہا: ’’زندگی و موت کے فیصلے زمینوں پر نہیں آسمانوں پر ہوتے ہیں ‘‘۔اگر اللہ کے ہاں میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو مجھے کوئی بچا نہیں سکتا اور اگر وہاں ابھی میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو یہ سارے الٹے بھی لٹک جائیں تب بھی میرا بال بیکا نہیں کرسکتے۔

مولانا مودودیؒ نے ہمیشہ اسلامی اصولوں کی تشریح میں ’’توحید‘‘اور ’’حاکمیت الہی‘‘ کو مرکزی حیثیت دی، اور ان کی کوشش تھی کہ اسلام کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا جائے۔
مولانا مودودیؒ 22 ستمبر 1979ء کو لاہور میں وفات پا گئے۔ ان کی نماز جنازہ قذافی سٹیڈیم لاہور میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ انہیں 75 سال کی عمر پائی، لیکن ان کا علمی و فکری ورثہ آج بھی زندہ ہے۔مولانا مودودیؒ نے اپنی زندگی میں 120 سے زیادہ کتابیں لکھیں، جو دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ ان کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی، اور یہ جدید دور کی سب سے مقبول تفسیروں میں سے ایک ہے۔

حافظ نعیم الرحمٰن گلزار

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل بدمست ہاتھی اسے روکنا ہوگا، پاکستان میں حماس کا دفتر ہونا چاہیے، حافظ نعیم الرحمن
  • ایشیا کپ، بنگلہ دیشی شائقین بھارت کے خلاف پاکستان کی حمایت میں سامنے آگئے
  • سیلاب کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ‘ کاشف شیخ
  • ایشیا کپ: بنگلہ دیشی ٹیم پاکستان سے میچ کیوں ہاری، کوچ کا اہم انکشاف
  • ’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے
  •  سماجی عدل صرف اسلامی نظام ہی فراہم کرسکتا ہے‘ڈاکٹر مشتاق
  • مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اورجماعت اسلامی!
  • سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب تفہیم القرآن، بانی جماعت اسلامی!
  • ایشیا کپ: بنگلہ دیشی کپتان نے ٹاس کے وقت بھارتی کپتان سے مصافحہ نہ کیا، ویڈیو وائرل
  • گرین شرٹس بنگلا دیشی دیوار گرانے کے لیے بے تاب