ایامِ حج سے قبل غلافِ کعبہ زمین سے 3 میٹر بلند کردیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
حرمین شریفین کی انتظامیہ نے حسبِ روایت ایامِ حج سے قبل غلافِ کعبہ کو زمین سے 3 میٹر بلند کر دیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد غلافِ کعبہ کو ایامِ حج کے دوران ممکنہ نقصان سے محفوظ رکھنا اور اس کی صفائی و حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔
العربیہ کے مطابق، غلافِ کعبہ کو 15 ذی الحج تک بلند رکھا جائے گا، جبکہ بلند کیے گئے حصے کو چاروں جانب سے سفید سوتی کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ انتظامیہ کے مطابق، اس عمل میں غلاف کعبہ فیکٹری کے ماہرین کا ایک خصوصی گروپ شریک ہوتا ہے، اور کارروائی اعلیٰ حکام کی نگرانی میں مکمل کی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب میں غلاف کعبہ کی تیاری کی تاریخ
حرمین شریفین انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایامِ حج میں لاکھوں عازمین بیت اللہ کا رخ کرتے ہیں، جن میں بعض افراد غلافِ کعبہ سے لپٹنے یا اسے چومنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بعض اوقات عازمین جذبات میں آکر غلاف کا کوئی حصہ بطور تبرک کاٹنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، جس سے اسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان وجوہات کے پیش نظر ہر سال حج سیزن میں غلافِ کعبہ کو بلند کردیا جاتا ہے۔
انتظامیہ کے مطابق یہ اقدام نہ صرف غلافِ کعبہ کی حفاظت بلکہ اس کی حرمت و تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایام حج بیت اللہ حرمین شریفین سعودی عرب غلاف کعبہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایام حج بیت اللہ حرمین شریفین غلاف کعبہ کعبہ کو
پڑھیں:
ہماری کائنات اور اس کے راز
ہماری زمین کی عمر 4.5بلین سال ہے ۔ جب کہ ہماری کائنات تقریباً 14بلین سال پہلے معرض وجود میں آئی، سوال یہ ہے کہ سائنسدانوں نے کیسے اندازہ لگایا کائنات کی عمر کا۔ بائبل ،تورات اوردوسری مذہبی کتابوں کے مطابق زمین 6000سال قبل وجود میں آئی زمین شروع میں بہت گرم تھی ۔ جیمز اوشر نے اس سلسلے میں بہت سے مختلف تجربات کیے ۔لیکن معاملہ صرف زمین کی عمر معلوم کرنے تک محدود نہیں ہے ۔
ایک وقت تھا کہ ہم کسی درخت کی عمر بھی معلوم نہیں کر سکتے تھے جب کہ درخت کی عمر کا پتہ ہمیں اس کے تنے پر واقع رنگ سے چلتا ہے انھی رنگز کے ذریعے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کس دور میں زیادہ بارشیں ہوئیں اور درخت کو کونسی بیماری لگی تھی۔ ماضی میں مختلف سائنسدان زمین کی عمر کا اندازہ لگاتے رہے یعنی زمین کی تہوں کا مشاہدہ کرکے اس کی عمر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ایک سائنسدان کے اندازے کے مطابق زمین کی عمر 75ہزار سال ہے ۔ جب کہ ولیم تھامسن نے اس کی عمر 20سے 40ملین سال بتائی جب کہ ڈارون کے مطابق زمین تین سو ملین سال پہلے وجود میں آئی ۔ آئن سٹائن نے بھی زمین کی عمر کا اندازہ لگانے کی کوشش کی لیکن ان کا یہ اندازہ صحیح نہیں تھا۔ لیکن اس میں سب سے قابل ذکر خاتون مادام میری کیوری ہیں انھوں نے 1867میں ریڈیو ایکٹیویٹی دریافت کی۔ سائنسدانوں کے مطابق ہماری زندگی کا آغاز کاربن سے ہوا ہے انسانی جسم میں کاربن کی مقدار 18 فیصد ہے ۔ کاربن کی ایک قسم 14ہے جو ہماری کائنات میں بہت کم پائی جاتی ہے ۔
ہماری کائنات میں 99.9فیصد کاربن 13اور12 کے عنصر پائے جاتے ہیں ۔ نائٹروجن سے ایک پروٹون نکلتا ہے تو وہ کاربن 14بن جاتا ہے ۔ ہمارے جسم میں کاربن 14بہت کم مقدار میں پایا جاتا ہے ۔ اس سے ہی ہم پروٹون کی عمر کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ چنانچہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم زمین کی عمر کا اندازہ لگاتے ہیں۔ چٹانوں میں پائے جانے والے زرقون کے ذریعے جو آسٹریلیا میں دریافت ہوئے ان کی عمر کا اندازہ 4.4بلین سال لگایا گیا ہے ۔ اس کا اندازہ یورنیم آئسو ٹوپ سے لگایا گیا ہے ۔ چاند بھی ایک وقت میں زمین کا حصہ رہا ہے ۔ جب چاند سے لائی گئی مٹی کی کاربن ڈیٹنگ کی گئی تو پتہ چلا۔
بگ بینگ سے زمین کیسے وجود میں آئی 1929 میں ہبل نامی سائنسدان اپنی لیب میں بیٹھے ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کائنات کی دور دراز گلیکسیز کا مشاہدہ کررہے تھے تو وہ ان کو لال رنگ کی نظر آرہی تھیں۔ انھوںنے سوچا کہ آخر ایسا کیوں ہے ۔ الیکٹرو میگنیٹنگ ویو کے ذریعے انھوں نے اندازہ لگایا کہ ان کے دور ہونے کی وجہ سے اس کا رنگ لال نظر آتا ہے ۔
انھوں نے دیکھا کہ ہماری گلیکسیز بہت زیادہ تیزی سے دور جارہی ہیں یعنی ہماری کائنات میں توسیع ہو رہی ہے ۔ بگ بینگ کے بعد وقت نے جنم لیا اور ہماری کائنات وجود میں آئی ، 1927میں جارج لے مائیرز نامی سائنسدان نے بگ بینگ دریافت کیا اور بتایا کہ ہماری کائنات 13.7بلین سال پہلے وجود میں آئی تھی ۔سرن لیبارٹری میں 40ملکوں کے 1000سے زیادہ سائنسدان اپنے تجربات سے کام کر رہے ہیں اور اس میں خوشی کی بات یہ ہے کہ یہاں پر پاکستانی سائنسدان بھی ہیں ۔
خلاء میں فاصلے ماپنے کے لیے AUکا استعمال کیاجاتا ہے ۔ خلائی فاصلے کو زمینی کلومیٹر کے ذریعے نہیں ماپا جا سکتا ۔ زمین سے سورج کا فاصلہ ایکAUہے ۔ یعنی 150ملین کلو میٹر ہے۔ نظام شمسی کیسے پیدا ہوا ہمارا سورج کیسے بنا اور ہمارے PLANET کیسے معرض وجود میں آئے ۔ سائنسدان ایمونل کینٹ نے 1917میں ایک بہت مشہور تھیوری دی اس کے مطابق ہمارا سولر سسٹم بڑے بڑے بادلوں سے وجود میں آیا۔
ان بادلوں کو نیبولا کہا جاتا ہے ۔ ان میں سے سورج اور ستارے نکلتے ہیں ۔ اس کو آپ اس طرح سے سمجھ لیں کہ یہ بادل سورج اور ستارے بنانے کی نرسریاں ہیں ۔ہمارا پورا سولر سسٹم ایک ایسے بادل سے بنا ہے جو ملکی وے کا صرف ایک فیصد ہے ۔
انفرا ریڈ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو سولر سسٹم کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے ۔ بگ بینگ جس سے ہماری یونیورس کا آغاز ہوا لیکن اس کے بہت عرصے بعد آہستہ آہستہ ایلمینٹس نے جنم لینا شروع کردیا ۔ ایک سپر نواز پھٹا تو اس سے ہمارے سورج نے جنم لیا۔ بڑے ستاروں کی موت سے بلیک ہول بنتے ہیں ۔ایک سے زیادہ کائنات کا ہونا ۔
ابھی تک تو ہمیں یہ پتہ تھا کہ کائنات ایک ہے ۔ دنیا کے بیشتر سائنسدان جو کسی خدا پر یقین نہیں رکھتے اب کائنات کی بے پناہ پیچیدگی کے باعث انھوں نے غور شروع کردیا ہے کہ کوئی ہے جو اس کائنات کو چلا رہا ہے لیکن وہ اس کو اس طرح نہیں دیکھتے جس طرح مذاہب بتاتے ہیں ۔ سوال یہ بھی سب سے بڑا ہے کہ کائناتوں کے وجود میں آنے سے پہلے کیا تھا؟
ایک عالمی سطح کے ماہر سرجن جو دہریے ہیں اپنا ذاتی تجربہ بتاتے ہیں کہ آپریشن تھیٹر میں انھوں نے ایک مریضہ کے دماغ کو دو حصوں میں کاٹ ڈالا اور اس میں سے سارا خون بھی نکال لیا ۔ خاتون کا آپریشن مکمل ہونے کے بعد اس کے دماغ کو دوبارہ سے جوڑ دیا اس خاتون نے جو حیرت انگیز ناقابل یقین بات بتائی کہ دوران آپریشن سرجن اور اس کے ساتھی جو موسیقی سن رہے تھے اس کے بارے میں بالکل صحیح بتایا ۔ نہ صرف بلکہ سرجن اپنے ساتھیوں سے جو گفتگو کر رہے تھے اس کے بارے میں پوری تفصیل بتائی۔ اس کے بعد اس سرجن نے بھی ایک ایسی طاقت کا یقین کر لیا جو نظر نہ آنے والی ہے ۔