اب بھارت سے صرف دہشتگردی اور مقبوضہ کشمیر پر ہی بات ہونی چاہیئے
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ہندوستان و پاکستان دونوں طرف کے عوام اور عالمی برادری کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا مطلب صرف زمین کی آزادی نہیں، بلکہ کشمیر میں بسنے والے انسانوں کی عزت، آبرو اور زندگیوں کا بھارتی فورسز کی دہشتگردی سے تحفظ ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد صرف کشمیر کی جغرافیائی خود مختاری کیلئے نہیں، بلکہ انسانی حقوق اور کرامت کے تحفظ کیلئے ہے۔ بھارت سے بات چیت اب صرف دہشت گردی کے موضوع پر ہونی چاہیئے، تاکہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ظلم کا خاتمہ ہو اور کشمیریوں کو انکے بنیادی حقوق مل سکیں۔ عالمی برادری کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیئے، تاکہ مقبوضہ کشمیر میں مظلوم انسانیت کیخلاف بھارتی دہشتگردی کو روکا جا سکے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم
بھارت سے بڑا دہشت گرد کون ہے؟ 5 اگست 2019ء کو بھارتی حکومت (بی جے پی) نے پارلیمنٹ میں آرٹیکل 370 اور 35A کو یک طرفہ طور پر منسوخ کر دیا۔ اس سے مقبوضہ کشمیر کا الگ آئین، جھنڈا اور قانون سازی کا اختیار سلب کر لیا گیا۔ بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے کی اجازت مل گئی اور بھارتی قوانین براہِ راست مقبوضہ کشمیر میں نافذ کر دیئے گئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بھارتی حکومت مذکورہ آرٹیکلز کو منسوخ نہ کرتی تو کیا اس سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کچھ کم تھے۔؟ سچ تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کئی سالوں سے بھارت کا اخلاقی دیوالیہ پن سب کے سامنے عیاں ہے۔ اس سے پہلے بھی مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں فوجی تعینات تھے، آئے روز فوجی لاک ڈاؤن اور کرفیو کا دور دورہ تھا۔ مواصلاتی بلیک آؤٹ تو اُس سے بھی پہلے کا ہے۔ انٹرنیٹ، موبائل نیٹ ورکس، حتیٰ کہ لینڈ لائن سروسز بھی مہینوں بند رہتی ہیں۔
سیاسی قیادت اور دیگر سینیئر رہنماؤں کو حراست میں لینا، میڈیا پر قدغن، مقامی صحافیوں کو ہراساں کرنا اور سینسرشپ کا عائد ہونا کبھی رُکا نہیں۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کی سرزمین پر بھارتی افواج کا قبضہ، غیر کشمیریوں کو زمین خریدنے کی اجازت اور ڈیموگرافک تبدیلی کو یقینی بنانا، یہ ہر دور کی بھارتی حکومت کا وطیرہ رہا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی اور مقبوضہ کشمیر کے آبی ذخائر پر ناجائز قبضہ کرکے پاکستان کا پانی بند کرنا، یہ بھی کوئی آج کی دہشت گردی نہیں۔ اقوام متحدہ نے بھارتی دہشت گردی کے خلاف کبھی تشویش کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی محدود پیمانے پر جو رپورٹس جاری کیں، وہ بھی بھارت جیسے دہشت گرد نے نظر انداز کر دیں۔ دوسری طرف پاکستان نے بھی ہمیشہ ایسے اقدامات کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دینے تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھا۔
خیر پاکستان و بھارت کو ایک طرف رہنے دیجئے۔ مقبوضہ کشمیر میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) 1990ء اور دیگر کالے قوانین مودی سے بہت پہلے کے زمانے سے مقبوضہ کشمیر میں رائج ہیں۔ ان قوانین کے باعث بغیر وارنٹ گرفتاری، اچانک فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ کی اجازت، عدالتی کارروائی سے استثنائی قتل و اغوا کا ایک لامتناہی سلسلہ مقبوضہ کشمیر میں جاری ہے۔ بھارت کی دہشت گرد قابض فورسز کے ہاتھوں پیلٹ گنز (چھرے والی بندوقیں) کے استعمال سے سینکڑوں کشمیری اندھے ہوچکے ہیں اور ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور بے شمار خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف بڑے پیمانے پر سیاسی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، بلکہ حالیہ مہینوں میں ایک نہایت تکلیف دہ مسئلہ سامنے آیا ہے، جس کی طرف عالمی میڈیا نے توجہ نہیں دی۔ مودی حکومت نے کشمیر کی تاریخ میں سفاکیت کے ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ آزاد کشمیر کی جن خواتین کی مقبوضہ کشمیر میں شادیاں ہوئی تھیں، مودی سرکار نے اُن شادی شدہ کشمیری خواتین کو مقبوضہ کشمیر سے بے دخل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ بارڈر کے دونوں طرف کشمیری آپس میں رشتہ داریاں رکھتے ہیں اور ان کی آپس میں شادیاں ریاستی قانون کے مطابق ہوتی رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے مردوں سے شادیاں کرنے والی خواتین کو جبری طور پر اپنے بچوں اور شوہروں سے الگ کرنے کی اجازت نہ تو کوئی قانون دیتا ہے اور نہ ہی مذہب۔ کثیر تعداد میں ایسی خواتین کو بھارت نے واپس آزاد کشمیر جانے کی اجازت بھی نہیں دی۔ کئی خواتین اس وقت بھارت کی جیلوں میں بند ہیں یا انہیں ڈی پورٹیشن مراکز میں رکھا گیا ہے یا پھر وہ لاپتہ کر دی گئی ہیں۔ بعض کیسز میں مقامی انتہاء پسند ہندو گروپوں نے خواتین کو زبردستی گھروں سے نکالا اور آرمڈ فورسز کی آشیرباد سے انہیں نامعلوم مقام پر لے گئے۔ کچھ خواتین نے عدالتوں سے رجوع کیا، مگر قومی سلامتی کے نام پر ان کی فریاد سنی نہیں گئی۔ یہی بھارت اور مودی کا اصلی چہرہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے محدود سطح پر آواز اٹھائی، مگر بھارت نے اسے ’’داخلی مسئلہ‘‘ قرار دے کر نظرانداز کر دیا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستانی عوام اس دُکھ سے بالکل الگ تھلگ ہے، لوگ اسی میں خوش ہیں کہ پاکستان نے بھارت کے پچیس اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا اور سات جہازوں کو تباہ کر دیا۔ گویا جنگیں صرف فوجی میدانوں میں جیتی جاتی ہیں۔ ہماری توجہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی پر ہے ہی نہیں۔ بھارت کی جانب سے کشمیری خواتین کے حقوق کی پامالی صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے، جو انسانی وقار اور آزادی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ لہٰذا، اگر بھارت ماتا کو ان خواتین کا وجود اتنا ناگوار گزرتا ہے، تو انہیں ایک موقع فراہم کیا جائے کہ وہ باعزت طریقے سے اپنے وطن (آزاد کشمیر) واپس لوٹ سکیں۔ اگر انہیں واپسی کا موقع نہیں دیا جاتا تو ہم انسانی بنیادوں پر مطالبہ کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی خواتین کو وہاں مستقل رہائش، شہریت یا خصوصی قانونی تحفظ دیا جائے، کیونکہ ان کے حقوق کو نظر انداز کرنا صرف ظلم نہیں، بلکہ ایک عسکری، اخلاقی اور قانونی دہشت گردی ہے۔
ہندوستان و پاکستان دونوں طرف کے عوام اور عالمی برادری کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا مطلب صرف زمین کی آزادی نہیں، بلکہ کشمیر میں بسنے والے انسانوں کی عزت، آبرو اور زندگیوں کا بھارتی فورسز کی دہشت گردی سے تحفظ ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد صرف کشمیر کی جغرافیائی خود مختاری کے لیے نہیں، بلکہ انسانی حقوق اور کرامت کے تحفظ کے لیے ہے۔ بھارت سے بات چیت اب صرف دہشت گردی کے موضوع پر ہونی چاہیئے، تاکہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ظلم کا خاتمہ ہو اور کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق مل سکیں۔ عالمی برادری کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیئے، تاکہ مقبوضہ کشمیر میں مظلوم انسانیت کے خلاف بھارتی دہشت گردی کو روکا جا سکے۔ میرا تمام منصف مزاج ہندوستانیوں سے بھی یہ خصوصی طور پر مطالبہ ہے کہ بھارت ماتا کے نام پر سیاست نہیں انسانیت بچائیں۔ اب بھارت سے بھارت کے اندر اور باہر ہر فورم پر بات صرف اور صرف دہشت گردی کے موضوع پر ہی ہونی چاہیئے، جی ہاں! بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی دہشت گردی۔۔۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہ مقبوضہ کشمیر مقبوضہ کشمیر کی عالمی برادری کو انسانی حقوق کی بھارتی فورسز دہشت گردی کے ہونی چاہیئے خواتین کو کی اجازت فورسز کی کی آزادی بھارت سے کی دہشت کی خلاف
پڑھیں:
جھانوی کپور کو کیسا شوہر چاہیئے؟ شیکھر پہاڑیا سے تعلقات کی چہ مگوئیاں جاری
بالی ووڈ کی خوبرو آنجہانی اداکارہ سری دیوی کی بیٹی اداکارہ جھانوی کپور نے شوہر کی خوبیوں پر اظہارِ خیال کیا ہے۔
حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’سنی سنسکاری کی تلسی کماری‘ کے ٹریلر کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر جھانوی نے شوہر کی خوبیوں پر دلچسپ خیالات کا اظہار کیا۔ جھانوی سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے جیون ساتھی میں کون سی خصوصیات چاہتی ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ مہذب، خوش مزاج اور کھانے کا شوقین ہونا چاہیے۔
جب جھانوی کپور سے شوہر کی آمدنی سے متعلق سوال کیا گیا تو اداکارہ نے ہنستے ہوئے کہا کہ آمدنی زیادہ ضروری نہیں، کچھ بھی چلے گا۔ شادی کب کریں گی؟ اس سوال کے جواب میں جھانوی نے کہا کہ اس وقت ان کی ساری توجہ فلمی کیریئر پر ہے اور شادی کے بارے میں سوچنے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں۔
اس دوران ایک رپورٹر نے مذاقاً کہا کہ جھانوی کو پرپوز کون کرے گا؟ اس پر ان کے ساتھی اداکار ورون دھون نے فلم کے دوسرے اداکار روہت سراف کا نام تجویز کیا، جس پر روہت نے مسکراتے ہوئے کہا، ’میں شیکھر سے مار نہیں کھانا چاہتا۔‘
یہ جملہ اس لیے دلچسپی کا باعث بنا کیونکہ جھانوی کپور شیکھر پہاڑیا کیساتھ قریبی تعلقات میں ہیں تاہم دونوں نے تاحال اپنے تعلق کی باضابطہ تصدیق نہیں کی۔
یاد رہے کہ جھانوی کپور روہت سراف اور ورون دھون کی فلم ’سنی سنسکاری کی تلسی کماری‘ 2 اکتوبر 2025 کو سنیما گھروں کی زینت بنے گی۔
Post Views: 8