چترال(آئی این پی )چترال میں کیلاش قبیلے کا تین روزہ قدیم مذہبی اور ثقافتی تہوار چلم جوشی اپنی تمام تر رنگینیوں اور عقیدت کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔چلم جوشی تہوار وادی کالاش کی تہذیب، خوشی، ہم آہنگی اور فطرت سے محبت کی علامت بن چکا ہے، جو ہر سال ہزاروں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔سالانہ چلم جوشی فیسٹول 13 سے 17 مئی 2025 تک وادی کیلاش کی تینوں خوبصورت وادیوں رمبور، بمبوریت اور بریر میں منایا گیا، تہوار کا آغاز رمبور وادی میں رسم ورواج سے ہوا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

کام یاب زندگی

کراچی صرف ایک شہر نہیں بلکہ سمندر جیسی گہری ایک تہذیب ہے، جس کا اندازہ نہ ہی اس کے باسیوں کو ہوتا ہے، اور نہ ہی باہر سے آ کر یہاں بسنے والوں کو اس گہری کا احساس ہوپاتا ہے۔

میری ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کراچی کا اہم کردار رہا ہے۔ گذشتہ 22 سالوں میں یہاں رہنے کے باعث اس کے کئی نشیب و فراز دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ تاہم، پچھلے کچھ برسوں میں مختلف شہروں کے بارہا، دوروں سے یہ احساس ہوا کہ کراچی میں ایک عجیب، انجانی سی بے چینی اور بلاوجہ کا دباؤ (Stress) موجود ہے۔ اسی کیفیت کا مشاہدہ میں نے حال ہی میں ضلع بدین کے ایک گاؤں میں ایک ہفتہ اپنی فیملی کے ساتھ گزارنے کے دوران کیا۔

ان دنوں میں نے خود کو موبائل فون اور دیگر مصروفیات سے مکمل طور پر الگ رکھا اور اپنی زندگی اور کام یابی کے نقطہ نظر اور نظریے کو نئے زاویے سے جانچنے کی کوشش کی، کیوںکہ آج کل کام یابی کی دوڑ میں ہر شخص آگے بڑھنا چاہتا ہے، اور اپنی کام یابی کو مختلف پیمانوں سے ناپتا ہے۔ گاؤں میں قیام کے دوران مجھے نہ صرف وقت میسر آیا بلکہ پرسکون ماحول نے مجھے اپنے خیالات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ازسرنو غور کرنے کا موقع دیا۔

میں ان خیالات کو آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں، تاکہ آپ بھی اپنی زندگی میں کام یابی کے مفہوم کا ازسرنو جائزہ لے سکیں اور حقیقی کام یابی حاصل کر سکیں۔ معروف لیڈرشپ ایکسپرٹ سائمن سینک کا کہنا ہے،’’کام یابی خطرناک ہو سکتی ہے، کیوںکہ اس میں یہ رجحان پایا جاتاہے کہ یہ ہماری آنکھوں کو مواقع دیکھنے سے اور ہمارے کانوں کو دوسروں کے آئیڈیاز سننے سے قاصر رکھ سکتی ہے۔‘‘

ذہنی سکون

بڑے شہروں میں رہنے والے لوگ زندگی کی دوڑ میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ مادی اشیاء کے حصول میں ذہنی سکون کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ جدید تحقیق اور نفسیات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ذہنی طور پر پُرسکون انسان ہی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے۔

بدقسمتی سے، کام یابی کی دوڑ میں ذہنی سکون اور صحت ہماری ترجیحات میں کہیں پیچھے چلے جاتے ہیں۔ اس وقفے کے دوران میں نے اس حقیقت کو بہتر طور پر محسوس کیا کہ کام یاب زندگی کے لیے ذہنی سکون سب سے بنیادی اور اہم عنصر ہے۔ اگر آپ کام یابی چاہتے ہیں تو ذہنی صحت کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، اور اگر آپ دیرپا اور حقیقی کام یابی کے متلاشی ہیں تو ذہنی سکون کو اپنی زندگی میں جگہ ضرور دیں۔

آج کے دُور میں ذہنی صحت کسی بھی نعمت سے کم نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرے کو ذہنی صحت کے حوالے سے مختلف اور ٹھوس اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم یہ ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری اور کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنی ذہنی صحت وسکون کے لیے خود عملی اقدام کرے۔

وقت کی آزادی

دُنیا میں بے شمار لوگ آزاد تو ہیں، مگر وقت کی قید سے آزاد نہیں ہوپاتے ہیں۔ قدرت نے سب انسانوں کو یکساں وقت عطا کیا ہے، لیکن بہت سے لوگ اپنی ذاتی، معاشی اور پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے باعث اپنی ذات کی بہتری اور زندگی کے لطف کے لیے وقت ہی نہیں نکال پاتے۔ بڑے شہروں میں اکثر وقت کی قلت اور دیگر ذمے داریوں کی وجہ سے کہیں اور جانا بھی ممکن نہیں ہوتا ہے۔ اگر آپ حقیقی کام یابی کے خواہاں ہیں تو وقت کی آزادی کو حاصل کریں۔

اپنی ذات کی تلاش، قدرت کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے اور دُنیا گھومنے کے لیے وقت ضرور نکالیں۔ وقت کا مناسب اور درست استعمال ہمیں زندگی اور کائنات کی بے شمار خوب صورت اشیاء کو دیکھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیتا ہے۔ اکثر لوگ وقت کی سرمایہ کاری سے ناواقف ہوتے ہیں اس لئے وہ اہم لمحوں میں وقت کا درست انتخاب نہیں کرپاتے اور ساری زندگی وقت کی قید میں رہتے ہیں، وقت کی آزادی دُنیا کی سب سے بڑی عیاشی ہے۔

صحت کی نعمت

ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ’’تن درستی ہزار نعمت ہے‘‘ اور یہ بات بالکل درست ہے۔ کام یاب زندگی کے لیے صحت مند ہونا اور صحت سے لطف اندوز ہونا نہایت ضروری ہے۔ پاکستان میں موجودہ معاشی، سماجی اور سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ خاندانی دباؤ کے پیش نظر، ہمارا اپنے طرزِزندگی کو تبدیل کرنا اور قدرت کے قریب آنا ازحد ضروری ہوچکا ہے۔

اپنی صحت کا خیال رکھنا اور خود کو تن درست، چاق و چوبند رکھنے کے لیے جسمانی سرگرمیوں کو اپنانا، متوازن غذا لینا اور فطری ماحول سے قربت حاصل کرنا نہایت اہم اقدامات ہیں۔ اپنی صحت کا خیال رکھنا، قدرت کی نعمت کا شکریہ ادا کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ ہمارا لائف اسٹائل اور عادات ہماری صحت کی خرابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہم نے قدرتی اور خالص اشیاء سے دُوری اختیار کرکے اپنے آپ کو خود تباہ کیا ہے۔

اپنی پسند کا کام

ہم جس معاشرتی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں، وہاں اپنی پسند کا کام کرنا ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ اکثر لوگ گھریلو اور معاشی ذمے داریوں کے سبب اپنی دل چسپیوں اور شوق کو نظرانداز کرتے ہیں۔ میری ذاتی زندگی کا تجربہ ہے کہ بے شمار لوگ اس لیے مایوسی، نااُمیدی اور پریشانی کا شکار ہوتے ہیں کیوںکہ وہ ایسے کام میں مصروف ہوتے ہیں جس سے انہیں دل چسپی نہیں ہوتی ہے۔ دل چسپی نہ ہونے کے باعث وہ ترقی نہیں کرپاتے، اور یوں زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اپنی پسند کا کام کرنا ایک نعمت ہے۔

جب آپ کا شوق اور پیشہ ایک ہوجائے تو زندگی میں بیزاری نہیں آتی، اور ہر لمحہ لطف اندوزی کا باعث بنتا ہے۔ میرے نزدیک کام یابی یہ نہیں ہے کہ آپ کہاں رہتے ہیں، کیا کماتے اور کیا بناتے ہیں! بلکہ یہ ہے کہ آپ جو کام کرتے ہیں، اُس سے آپ خود کتنے خوش ہیں، دوسرے آپ کے کام سے کتنے خوش ہیں اور آپ کے کام سے انسانیت کو کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی بچوں کو اپنی پسند اور مرضی کا کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی جس کی وجہ سے وہ ساری زندگی کام سے بیزاری اور اکتاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔

معاشی خوش حالی

یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسان معاشی خوش حالی کے بغیر زندگی میں ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ کام یاب زندگی کے لیے معاشی استحکام کو ترجیح دینا اور اس کے لیے عملی منصوبہ بندی کرنا ناگزیر ہے۔ ضروری ہے کہ بچوں کو شروع ہی سے خودانحصاری اور مالی منصوبہ بندی کی تربیت دی جائے تاکہ وہ عملی زندگی میں بہتر فیصلے کرسکیں۔

معاشی خوش حالی انسان کو بہت سی مشکلات سے بچاتی ہے، جب کہ غربت بے شمار برائیوں کی جڑ ہے۔ اس لیے ہمیں معاشی استحکام کے لیے بھرپور محنت کرنی پڑے گی۔ یاد رہے یہ دُنیا معاشی اُصولوں پر چلتی ہے میری اور آپ کی خواہشوں کے مطابق نہیں، اس لیے معاشی خوشحالی ہمیں ہماری مرضی کی زندگی بسر کرنے میں معاونت کرتی ہے۔

خاندانی اور پیشہ ورانہ زندگی میں توازن

آج کے دور میں کارپوریٹ اداروں میں کام کرنے والے افراد کے لیے ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں توازن ایک بڑا چیلینج ہے۔ تحقیق اور کام یاب افراد کی زندگیوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر آپ پیشہ ورانہ کام یابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو خاندانی معاونت لازمی ہے۔

بدقسمتی سے، ہم اکثر اپنے خاندان کو ترجیحات میں شامل نہیں کرتے ہیں، اور یوں پیشہ ورانہ زندگی میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ خاندانی اقدار، روایات اور رشتے پس پشت چلے جاتے ہیں۔

اگر آپ کام یاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنی خاندانی اور پیشہ ورانہ زندگی میں توازن قائم رکھیں، کیوںکہ زندگی کی ہر آزمائش میں خاندان ہی ہمارا اصل سہارا ہوتا ہے۔ معروف مصنف عرفان جاوید اپنی کتاب ’’عجائب خانہ‘‘ میں لکھتے ہیں،’’مستنصر حسین تارڑ صاحب نے کہا ’یہ شہرت، مقبولیت، نام، مقام سب نظر کا دھوکا ہے۔ جو چیز حقیقی ہے وہ انسان کا خاندان اور دو چار ہم درد سچے دوست ہیں۔ پس باقی سب فریب نظر ہے۔‘‘

اصل کام یابی

زندگی میں حقیقتاً وہی لوگ کام یاب ہوتے ہیں جو صرف اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف خود کام یاب ہوتے ہیں بلکہ اپنے آس پاس کے لوگوں اور معاشرے پر بھی مثبت اثرات ڈالتے ہیں۔ یاد رکھیں، کام یابی سے کہیں زیادہ اہم ’’اطمینان‘‘ہے۔ کام یابی کا کوئی مذہب، رنگ، نسل، زبان، علاقہ اور ملک نہیں ہوتا ہے، یہ یونیورسل ہوتی ہے، یہ حدود وقید سے بالا تر ہے۔

یہ جس انسان کو مل جاتی ہے، وہ اپنی محدود کمیونٹی سے نکل کر ساری انسانیت کے لیے قابلِ قبول ہوجاتا ہے۔ کام یابی آپ کا Canvas  تبدیل کردیتی ہے، آپ کے متعلق لوگوں کی رائے کو بدل دیتی ہے۔ آپ کی کام یابی کائنات کے ہر فرد کے لیے کام یابی کی تحریک بن جاتی ہے، اس لیے آپ مقامی سے عالمی انسان بن جاتے ہیں۔

سفر وسیلۂ ظفر

کام یابی کے سفر میں مشکلات اور رکاوٹوں کے پہاڑ کو سر کرنے کے لیے پہاڑ جیسا حوصلہ چاہے ہوتا ہے۔ میں نے جس راستے اور سفر کا انتخاب کیا تھا، وہ بہت مختلف، منفرد اور مشکل تھا، جہاں وسائل محدود اور مسائل لاتعداد تھے، حوصلہ افزائی کم اور حوصلہ شکنی بہت زیادہ تھی۔ سفر کی تھکن اور راہ کی رکاوٹیں بے شمار تھیں، اپنے تو کیا دوسرے بھی ہاتھ، ساتھ اور بات کرنا چھوڑ گئے، کبھی کبھی اپنی ہمت اور حوصلہ بھی جواب دے گیا، اپنوں کی اتنی بے رخی اور لاتعلُّقی کہ دل خون کے آنسو روئے، کچھ اپنے، کچھ انجانے ساتھ نبھانے آئے، کچھ روٹھے، کچھ بچھڑے اور کچھ پار لگانے آئے.

 یہ اپنی ضد تھی یا اندر کی آگ، جس نے خود کو حالات کے آگے جھکنے نہیں دیا، مسلسل سفر سے تھکنے نہیں دیا، اپنی ناکامی سے روکنے نہیں دیا، اب مجھے احساس ہوتا ہے، میں نے ابھی تو اپنے سفر کا آغاز کیا ہے، اس لیے اگر کہیں سفر کے دوران تھکا ہارا آپ کے ملک، شہر، گاؤں اور ادارے میں آؤں تو ہمت کا ایک گلاس پلادینا یا کندھے پر تھپکی دے دینا۔ کیوںکہ میر ی زندگی کے سفر نے کئی موڑ لیے، مگر میں نے اپنے کیریئر کے لیے ایک مقرر، مصنف اور مشیر ہونے کا راستہ چنا، جہاں الفاظ راہ دکھاتے ہیں اور مشورے زندگی بدلتے ہیں۔

ع:

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل

کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

(احمد فراز)

میری نظر میںسفر ایک ایسی یونیورسٹی ہے جو وہ سکھاتی ہے جو واقعی زندگی میں درکار ہوتا ہے، جو شاید یونیورسٹیاں سکھانے سے قاصر رہتی ہیں۔ اس لیے یاد رکھیں، سفر کی تکلیفوں سے ناآشنا لوگ، منزل پر پہنچے کے لطف سے محروم رہتے ہیں! اور بڑی منزل کے مسافروں کو سفر اور صبر بھی ’بڑا‘ کرنا پڑتا ہے...‘‘!

متعلقہ مضامین

  • وادی کشمیر میں ایک روزہ مفت "میگا ہیلتھ کیمپ" کا انعقاد
  • عنوان: پاکستان میں اقلیتی برادریوں کا کردار اور درپیش چیلنجز
  • پہلگام حملہ، کشمیر کی سیاحت پر کاری ضرب، معیشت بحران کا شکار
  • کیا لوگ آپ سے کَترا رہے ہیں؟
  • شادی یا کیریئر؟
  • کام یاب زندگی
  • پاکستان کی 2اعشاریہ4ٹریلین روپے کے گردشی خسارے کو مالی سال 2025 کے اختتام تک ختم کرنے کی یقین دہانی
  • کیلاش قبیلے کا مذہبی اور ثقافتی تہوار ’’چلم جوشی‘‘ اختتام پذیر
  • کیلاش میں غیر ملکی سیاح ٹریفک میں پھنس گئے