پہلگام حملہ، کشمیر کی سیاحت پر کاری ضرب، معیشت بحران کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: گذشتہ چند برسوں کے دوران وادی کشمیر میں عسکریت پسندی میں کمی اور سرحد پر جنگ بندی نے سیاحت کو ایک بار پھر زندگی بخشی تھی۔ صرف 2023ء میں ہی 30 لاکھ سیاحوں نے وادی کشمیر کا رخ کیا۔ بھارتی حکومت نے اس رجحان کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد "نارمل حالات" کی علامت قرار دیا تھا، لیکن پہلگام حملے نے اس دعوے پر گہرا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی
وادی کشمیر کے پُرامن سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملے کے بعد کشمیر میں سیاحت کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ حملے کے نتیجے میں تمام پیشگی بکنگز منسوخ ہو چکی ہیں اور ہوٹل، ہاؤس بوٹس، ٹیکسیاں ویران پڑی ہیں۔ مقامی معیشت، جو بڑی حد تک سیاحت پر انحصار کرتی ہے، بے یقینی اور مایوسی کے بادلوں تلے دب چکی ہے۔ پہلگام حملے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے فوری طور پر الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے سفارتی اور معاشی اقدامات کا اعلان کیا، جب کہ پاکستان نے کسی بھی مداخلت سے انکار کرتے ہوئے جوابی ردِعمل ظاہر کیا۔ اس کشیدگی نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کو ایٹمی صلاحیت رکھنے والے دونوں ممالک کے درمیان ایک ممکنہ جنگی میدان میں تبدیل کر دیا ہے۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران وادی کشمیر میں عسکریت پسندی میں کمی اور سرحد پر جنگ بندی نے سیاحت کو ایک بار پھر زندگی بخشی تھی۔ صرف 2023ء میں ہی 30 لاکھ سیاحوں نے وادی کشمیر کا رخ کیا۔ بھارتی حکومت نے اس رجحان کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد "نارمل حالات" کی علامت قرار دیا تھا، لیکن پہلگام حملے نے اس دعوے پر گہرا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کا کہنا تھا کہ سیاحت میں اضافہ وادی کے معمول پر آنے کی نشانی ہے، مگر سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اس مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے کہا "سیاحت نارمل ہونے کی ضمانت نہیں بلکہ صرف ایک معاشی اشاریہ ہے۔"
پہلگام، سونہ مرگ اور گلمرگ جیسے مقبول سیاحتی مقامات اس وقت ویرانی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ صرف پہلگام میں 5 سے 6 ہزار گھوڑے بان اور تقریباً 7 ہزار ٹیکسی مالکان بے روزگار ہو چکے ہیں۔ سرینگر کی مشہور ڈل جھیل سنسان ہے، شکارے کنارے بندھے کھڑے ہیں اور سیاحوں کی چہل پہل مکمل طور پر غائب ہو چکی ہے۔ سرینگر کے ٹیکسی ڈرائیور تنویر احمد نے کہا کہ پہلے شہر میں گاڑی چلانے کی جگہ نہیں ملتی تھی، اب دن بھر مسافر کا انتظار کرتا ہوں۔ ٹریول ایجنٹ یاسین تومان جو سو سال پرانی ٹریول کمپنی چلاتے ہیں، بتاتے ہیں کہ ان کے تمام ہاؤس بوٹس خالی ہیں اور تمام بکنگز منسوخ ہو چکی ہیں۔
مقامی یونینز اور سیاحتی تنظیموں کے مطابق ہوٹل اسٹاف، فوٹوگرافر، دکاندار، دستکار، گائیڈز اور یہاں تک کہ کافی و چائے بیچنے والے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ جموں میں ہوٹل اینڈ ریسٹورینٹ ایسوسی ایشن کے مطابق ہوائی کرایے غیر معمولی حد تک گر چکے ہیں، لیکن پھر بھی مسافر دستیاب نہیں۔ ایک معروف ہوٹل کے جنرل منیجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پہلگام حملے کی رات سے صرف بکنگ کینسلیشن کی کالز آ رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے سارا سیزن اب ختم ہوگیا۔ پہلگام میں ہونے والے کینڈل مارچ میں مقامی افراد "سیاح ہماری جان ہے" کے نعرے لگاتے دکھائی دیے۔ مقامی ٹرانسپورٹرز نے سیاحوں کو محفوظ واپسی کے لئے مفت سواریوں کی پیشکش کی۔ مقامی لوگوں نے دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر اعتماد سازی کے اقدامات کئے جائیں تاکہ سیاحتی بحالی ممکن ہوسکے لیکن فی الحال سے بے سود نظر آرہا ہے۔
جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبداللہ نے تسلیم کیا کہ وادی میں سیاحتی صنعت شدید متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال حکومت کی اولین ترجیح سالانہ "امرناتھ یاترا" کا پُرامن اور محفوظ انعقاد ہے، جس کے بعد سیاحت کی بحالی کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ متاثرین کا سروے جاری ہے اور معاوضے کا اعلان جلد کیا جائے گا۔ مختصر یہ کہ پہلگام کا یہ سانحہ صرف انسانی المیہ نہیں بلکہ معاشی تباہی کا پیش خیمہ بن چکا ہے۔ جس پہلگام ویلی کو "منی سوئٹزرلینڈ" کہا جاتا تھا، وہ اس وقت سناٹے، بے روزگاری اور عدم تحفظ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ کشمیر میں سیاحت جو کبھی امن کی علامت تھی، آج عدمِ تحفظ کا سب سے بڑی نشانی بن چکی ہے۔ کشمیر کی سیاحت کو بچانے کے لئے صرف سکیورٹی نہیں بلکہ اعتماد، امن، اور پالیسی میں تسلسل کی ضرورت ہے۔ مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ پہلگام حملے کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان کشمیر اور اہلیان کشمیر کو ہوا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پہلگام حملے وادی کشمیر کرتے ہوئے کے بعد
پڑھیں:
پاکستان میں میڈیکل ٹورازم کانفرنس کا انعقاد کررہے ہیں ، اسلامک چیمبر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی ( کامر س رپورٹر)فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور اسلامک چیمبر آف کامرس اینڈ ڈیولپمنٹ (ICCD) مشترکہ طور پر ایک اہم میڈیکل ٹورازم کانفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں؛ جس کا مقصد پاکستان کو میڈیکل ٹوارزم کابین الاقوامی مرکز بنانا اور مریضوں کو اعلیٰ ترین معیار کی خدمات کی فراہمی ہو گا۔یہ کانفرنس 15 جولائی 2025 کو کراچی میں ICCD کے مرکزی دفتر میں منعقد ہوگی اور یہ ”ٹی فار ٹوارزم سیریز” کا حصہ ہوگی ۔اس سیریز کا مقصدپاکستان کو صحت و سیاحت کے میدان میں عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہے۔مزید برآں، اس کانفرنس میں پاکستان اور بیرونِ ملک سے اعلیٰ سطح کے ماہرین؛ ڈاکٹر؛ اسپتال منتظمین؛ دواساز و بایومیڈیکل کمپنیاں؛ سپلائی چین ماہرین اور حکومتی نمائندے شرکت کریں گے۔میڈیکل ٹورازم کے شعبے میں جدید رجحانات؛ چیلنجز اور مواقع پر تبادلہ خیال؛صحت کی خدمات کی بہتری کے لیے قابلِ عمل حکمت عملیاں وضع کرنا؛پاکستان اور او آئی سی ممالک کو عالمی طبی سیاحت کے نقشے پر لانا کانفرنس کا ایجنڈا ہو گا۔ کانفرنس کے ساتھ ایک خصوصی ہیلتھ کیئر ایکسپو بھی منعقد ہوگی؛ جہاں مقامی و بین الاقوامی ادارے اپنی طبی مصنوعات اور خدمات پیش کریں گے۔یہ کانفرنس ICCD اور FPCCI کے گزشتہ کامیاب سسٹین ایبل ٹورازم فورم کے تسلسل میں ایک اہم قدم ہے؛ جس میں بین الاقوامی وفود نے بھرپور شرکت کی تھی۔ FPCCI اور ICCD کی قیادت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ صحت اور سیاحت کو آپس میں جوڑ کر پاکستان نئی معاشی راہیں کھول سکتا ہے۔ دنیا بھر میں معیاری مگر کم خرچ علاج کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستان اس حوالے سے ایک نمایاں بین الاقوامی مقام حاصل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔اسلامک چیمبر آف کامرس اینڈ ڈیولپمنٹ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے؛ جو کہ، او آئی سی کے57 مسلم ممالک کے نجی شعبے کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کا ہیڈکوارٹر کراچی پاکستان میں واقع ہے۔ کے نامور ایگزیکٹو ایجوکیشن پلیٹ فارمز میں سے ایک ہارورڈ بزنس اسکول کے ایڈوانسڈ مینجمنٹ پروگرام کے فارغ التحصیل ہیں۔