پاکستان میں ٹرانسفر پر جج کی رضا مندی آئینی تقاضا ہے: آئینی بنچ
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
پاکستان میں ٹرانسفر پر جج کی رضا مندی آئینی تقاضا ہے: آئینی بنچ WhatsAppFacebookTwitter 0 20 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس)سپریم کورٹ میں ججز تبادلہ اورسنیارٹی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں ٹرانسفر پر جج کی رضا مندی آئینی تقاضا ہے، بھارت میں ٹرانسفر پر جج کی رضامندی نہیں لی جاتی۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بنچ نے ججز تبادلہ کیس کی سماعت کی۔
وکیل حامد خان نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹس سے ججز کے ٹرانسفر پر بہت سارے نکات پر غور ہونا چاہیے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے میں غیر معمولی جلد بازی دکھائی گئی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ انڈیا میں ججز کے ٹرانسفر میں جج کی رضا مندی نہیں لی جاتی بلکہ وہاں ججز ٹرانسفر میں چیف جسٹس کی مشاورت ہے، ہمارے ہاں جج ٹرانسفر پر رضامندی آئینی تقاضا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ انڈیا میں ہائیکورٹس ججز کا یونیفائیڈ کیڈر ہے، پاکستان میں ہائیکورٹس ججز کی سنیارٹی کا یونیفائیڈ کیڈر نہیں ہے۔
جسٹس شکیل احمد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انڈیا میں ہائیکورٹس ججز کی سنیارٹی لسٹ ایک ہی ہے، ججز کے ٹرانسفر پر کسی جج کی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی۔
وکیل حامد خان نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ ججز ٹرانسفر کے عمل میں چیف جسٹس آف پاکستان نے بامعنی مشاورت ہی نہیں کی، جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ججز ٹرانسفر کے عمل میں مشاورت نہیں بلکہ رضا مندی لینے کی بات کی گئی ہے۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ اصل مقصد جسٹس سرفراز ڈوگر کو لانا تھا، باقی 2 ججز کا ٹرانسفر تو محض دکھاوے کیلئے کیا گیا، آرٹیکل 200 کا استعمال اختیارات کے غلط استعمال کیلئے کیا گیا۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل ادریس اشرف نے اس موقع پر کہا کہ ججز ٹرانسفر کی میعاد کا نوٹیفکیشن میں ذکر نہیں ہے، ججز کو ٹرانسفر کر کے پہلے سے موجود ہائیکورٹ میں ججز کے مابین تفریق پیدا نہیں کی جا سکتی، ججز کے مابین الگ الگ برتاؤ نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ججز ٹرانسفر کے عمل میں آرٹیکل 25 کو سامنے رکھا جائے؟ اگر ججز کا ٹرانسفر دو سال کیلئے ہوتا تو کیا آپ اس پر مطمئن ہوتے؟ اصل سوال سنیارٹی کا ہے۔
بعد ازاں کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی گئی، جس میں بانی پی ٹی آئی کے وکیل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچینی صدر کا صوبہ حہ نان کی اعلیٰ معیار کی ترقی کو فروغ دینے پر زور ’چین پاکستان کا آئرن برادر‘: اسحاق ڈار سے ملاقات میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے وزیر کا عزم فرانس نے اسمگل کیے گئے متعدد تاریخی نوادرات پاکستان کو واپس کردیئے اگر بھارت نے پانی روکا تو چینی ٹیکنالوجی سے بھارتی ڈیم تباہ کریں گے، محمد عارف پاکستان میں عیدالاضحیٰ کب ہوگی؟ ماہرین فلکیات نے متوقع تاریخ بتادی نو مئی ایف آئی آرز کا معاملہ: سپریم کورٹ نے فواد چودھری کا کیس دوبارہ ہائیکورٹ بھجوا دیا بھارت میں پاکستان کیلئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار یوٹیوبر کا تعلق بی جے پی سے نکلاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: میں ٹرانسفر پر جج کی رضا مندی ا ئینی تقاضا ہے جج کی رضا مندی پاکستان میں
پڑھیں:
مخصوص نشستیں کیس؛ کیا دو ججوں کو واپس لانے کیلیے کوئی دعوت نامہ بھیجیں، آئین بینچ
اسلام آباد:مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا دو ججوں کو واپس لانے کے لیے کوئی دعوت نامہ بھیجیں، ان دو ججوں میں سے ایک جج ملک میں نہیں ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت، سربراہ آئینی بینچ نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں آپ ہی ان دو ججوں کو دعوت نامہ بجھوا دیں۔
سماعت شروع ہوئی تو جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ 6 مئی کی عدالتی کارروائی کا حکمنامہ پڑھیں، اس حکمنامے پر تمام 13 ججز کے دستخط موجود ہیں، حکمنامے میں کہا گیا کہ ججز نے اختلاف کرتے ہوئے درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیکر خارج کیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پھر بینچ کی دوبارہ تشکیل کے لیے معاملہ ججز آئینی کمیٹی کو بجھوایا گیا، بینچ کی دوبارہ تشکیل کے لیے کمیٹی کو بجھوانے پر بھی اختلاف کرنے والے دو ججز نے دستخط کیے، اگر چلتے ہوئے کیس میں کوئی وجوہات بیان کرکے بینچ سے الگ ہو تو معاملہ الگ ہوتا ہے، بینچ کی دوبارہ تشکیل پر دو ججز نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ وہ متفق نہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ کل بھی بتایا تھا ان دو ججز کی اپنی خواہش تھی کہ وہ بینچ میں نہیں بیٹھیں گے۔
جسٹس مسرت ہلانی نے کہا کہ اختلافی نوٹ لکھنے والے ججز نے تو میرٹس پر بھی بات کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پنجاب الیکشن کیس میں چار ججز اور تین ججز والی بحث کافی چلی تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ پنجاب الیکشن کیس کا آرڈر آف دی کورٹ آج تک نہیں آیا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل ریکارڈ ابھی آپ کے سامنے نہیں ہے، اس مقدمے میں کیا ہوتا رہا سب کچھ against the clock ہوا، چلیں چھوڑیں آپ کو اندرونی باتیں نہیں معلوم آپ دلائل دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا جج کھلی عدالت میں کیس سننے سے معذرت کر سکتا ہے یا چیمبر سے بھی ایسا کہا جا سکتا ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ کیس سننے والا جج کھلی عدالت میں آکر ہی معذرت کرتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ایسی مثالیں ہیں جہاں ججز نے چیمبرز میں بیٹھ کر بھی کیسز سننے سے معذرت کی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ تو اصرار کر رہے ہیں کہ ہم آپ کی دلیل سے متفق ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم جوڈیشل آرڈر جاری کریں کہ فلاں جج کو بینچ میں لایا جائے۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ چھ مئی کے حکمنامے کے خلاف کسی نے نظرثانی بھی دائر نہیں کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا دو ججوں کو واپس لانے کے لیے کوئی دعوت نامہ بھیجیں، ان دو ججوں میں سے ایک جج ملک میں نہیں ہے۔
میرے خیال میں آپ ہی ان دو ججوں کو دعوت نامہ بجھوا دیں، جسٹس امین کا وکیل سے مکالمہ
جسٹس امین الدین خان نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں آپ ہی ان دو ججوں کو دعوت نامہ بجھوا دیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ مجھے امریکا کا ٹکٹ لیکر دیں میں اس جج کو امریکا سے جاکر لے آتی ہوں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ویسے بھی 10، 10 سال سے سزائے موت کی اپیلیں زیر التوا ہیں، مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلوں بھی زیر التوا کر دیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ فوجداری کیسز روزانہ کی بنیاد پر سنے جا رہے ہیں، میں نے سب سے پہلے آواز اٹھائی فوجداری کیسز پر سماعت کی جائے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے کے کیس میں فیصلہ لکھنے والے جج خود نہیں بیٹھے تھے۔
پانامہ کیس کا حوالہ
بینچ تشکیل سے متعلق سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے پانامہ کیس کا حوالہ دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان کا ایک فیصلہ تھا جبکہ ایک فیصلہ میں نے تحریر کیا تھا، میرے فیصلے پر تو نظر ثانی نہیں آئی تو کیا میں بیٹھوں یا اٹھ جاؤں۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے دلائل میں کہا کہ اگر آئینی بینچ کے رولز نہیں بنے تو آئینی بینچ پر پہلے والے رولز کا اطلاق ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین اور قانون میں ترمیم کے بعد مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہوئے۔ جسٹس جمال نے کہا کہ کیا رولز کا اطلاق جوڈیشل کمیشن پر بھی ہوتا ہے۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ لوگوں میں عام تاثر ہے کہ 26ویں ترمیم کے بعد ایک نئی سپریم کورٹ بن گئی اور یہ تاثر درست نہیں ہے، ہمارے لیے کچھ نہیں بدلا۔ سپریم کورٹ میں 26ویں ترمیم کے بعد کوئی تبدیلی نہیں، اس ترمیم کے ذریعے بس ایک نیا اختیار سماعت تشکیل دیا گیا ہے۔ آئینی بینچ بھی وہی اختیار سماعت اختیار کرے گا جو سپریم کورٹ کے اختیار سماعت ہیں
جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس میں کہا کہ آپ یہ دلائل 26ویں آئینی ترمیم کے کیس میں دیجیے گا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں دلائل ختم کرتے ہوئے کہوں گا کہ 185/3 کی نظر ثانی ریگولر بینچ ہی سنے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ ممانعت نہیں ہے کہ فلاں جج آئینی بینچ کے لیے نامزد ہوگا اور فلاں نہیں ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آئینی بینچز کے لیے نئے ججز نامزد کرنے پر پابندی نہیں ہے، جتنے مرضی ججز نامزد کریں، نہ کسی کو اعتراض ہے یا ہمارا کنٹرول ہے، نئے ججز کی نامزدگی کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو حاصل ہے، نئے ججز کی آئینی بنچز کے لیے نامزدگی کا معاملہ ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔
مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہوگئے۔
آئینی بینچ نے حکم دیا کہ کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے ہوگی۔ سنی اتحاد کونسل کے دوسرے وکیل حامد خان کل سے دلائل شروع کریں گے، حامد خان کی طرف سے دو درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
عدالتی حکمنامے کے مطابق پہلی درخواست 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلے تک کارروائی روکنے سے متعلق ہے اور دوسری درخواست عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات دکھانے سے متعلق ہے، دونوں درخواستوں پر سماعت کل کریں گے۔