مخصوص نشستوں کا کیس: کیا 2 ججوں کو واپس لانے کے لیے کوئی دعوت نامہ بھیجیں؟ جسٹس محمد علی مظہر
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی، کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی بینچ کررہا ہے۔
اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آج میرے دلائل دوسرے نکتے پر ہوں گے، اس کیس میں 13 رکنی سے کم بینچ نظر ثانی نہیں سن سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کی پہلی سماعت کے حکمنامہ پر سب ججز نے دستخط کیے، واضح ہے کہ حتمی فیصلہ میں جسٹس عائشہ اور جسٹس عقیل کا فیصلہ گنا جائے گا، 13 رکنی بینچ میں سے 2 نے پہلے دن فیصلہ کردیا، اب فیصلہ دینے کے بعد 2 جج صاحبان بینچ میں بیٹھ کر کیا کریں گے۔
جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس اندرونی معلومات نہیں، 13 سے 11 بینچ دونوں ججز کی خواہش پر کیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ دونوں ججز نے قانون اور میرٹ پر اپنا فیصلہ دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کل پھر ججز کو شامل کریں وہ بھی فیصلہ کردیں تو کیا ہوگا، ایسے تو ہر روز ججز فیصلہ کرتے جائیں اور نکلتے جائیں، آرڈر آف کورٹ میں ہمیشہ بینچ میں شامل تمام ججز کا فیصلہ دیکھا جاتا ہے۔
اس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ان 2 ججز نے فیصلہ کیا ہی نہیں، 13 رکنی فیصلے پر 11 ججز نظر ثانی نہیں سن سکتے جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ دونوں جج صاحبان نے پہلے دن ہی اپنے ذہن سے فیصلہ کردیا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس مقدمے میں کیا ہوتا رہا سب کچھ against the clock ہوا، چلیں چھوڑیں آپ کو اندرونی باتیں نہیں معلوم آپ دلائل دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا جج کھلی عدالت میں کیس سننے سے معذرت کرسکتا ہے، یا چیمبر سے بھی ایسا کہا جاسکتا ہے؟ جس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ کیس سننے والا جج کھلی عدالت میں آکر ہی معذرت کرتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ایسی مثالیں ہیں جہاں ججز نے چیمبرز میں بیٹھ کر بھی کیسز سننے سے معذرت کی۔
جسٹس صلاح الدین پہنوار کا کہنا تھا کہ 6 مئی کے حکمنامے کے خلاف کسی نے نظرثانی بھی دائر نہیں کی جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا 2 ججوں کو واپس لانے کیلئے کوئی دعوت نامہ بھیجیں، ان 2 ججوں میں سے ایک جج ملک میں نہیں ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ آپ مجھے امریکہ کا ٹکٹ لیکر دیں میں اس جج کو امریکا سے جاکر لے آتی ہوں۔
فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ویسے بھی 10، 10 سال سے سزائے موت کی اپیلیں زیر التوا ہیں، مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلوں بھی زیر التوا کردیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ فوجداری کیسز روزانہ کی بنیاد پر سنے جا رہے ہیں، میں نے سب سے پہلے آواز اٹھائی فوجداری کیسز پر سماعت کی جائے۔
جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے کہا کہ بہت ساری باتوں کا آپکو علم نہیں ہے۔
بعدازاں کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس امین الدین خان جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ فیصل صدیقی نے کہا کہ
پڑھیں:
مخصوص نشستیں، نظرثانی کیس چھوٹا بینچ بھی سن سکتا ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس امین الدین نے کہا کہ نظرثانی کیس چھوٹا بنچ بھی سن سکتا ہے۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی بینچ نے اس اہم آئینی معاملے کی سماعت کی، سماعت کے دوران سینئر وکلاء حامد خان اور فیصل صدیقی عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر حامد خان نے کہا کہ انہوں نے متفرق درخواستیں دائر کی ہیں، جس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست ہمیں ابھی نہیں ملی اور انہیں ایڈووکیٹ آن ریکارڈ سے پتہ کرنے کا مشورہ دیا۔اس موقع پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ان کی تین متفرق درخواستیں بینچ کے سامنے موجود ہیں،فیصل صدیقی نے کہا کہ انہوں نے اس بنچ کی تشکیل پر آئینی بنیادوں پر اعتراض اٹھایا ہے، ان کا کہنا تھا کہ نظرثانی سے متعلق ایک آئینی اصول طے شدہ ہے کہ جتنے رکنی بنچ نے فیصلہ دیا ہو، اتنے ہی ارکان پر مشتمل بنچ کو نظرثانی کیس سننا چاہیے۔جسٹس امین الدین نے اس موقع پر کہا کہ یہاں دو ارکان نے درخواستیں خارج کہہ کر خود بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا۔ فیصل صدیقی نے جواب میں کہا کہ ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے اور وہ عدالت کی معاونت کریں گے۔اس موقع پر فیصل صدیقی نے واضح کیا کہ ان کا اعتراض کسی جج کی ذات پر نہیں بلکہ یہ ایک خالصتاً آئینی اعتراض ہے۔جسٹس امین الدین نے مزید کہا کہ تیرہ رکنی بینچ میں سے دو ججز نے خود کو علیحدہ کر لیا، جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ دونوں ججوں نے نوٹس نہ دینے کا خود فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ججز کے اپنے اعتراض کے بعد کیا باقی رہ جاتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ وہ دونوں جج اپنا فیصلہ دے چکے ہیں، اب بیٹھ کر کیا کریں گے؟فیصل صدیقی نے کہا کہ نظرثانی ہمیشہ مرکزی کیس سننے والا بینچ ہی سنتا ہے اور چونکہ مرکزی کیس تیرہ رکنی بینچ نے سنا تھا، لہٰذا نظرثانی بھی اسی بینچ کو سننا چاہیے۔جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد نظرثانی کیس اب چھوٹا بنچ بھی سن سکتا ہے،ترمیم کے بعد 13 رکنی بنچ کا فیصلہ اب 8 یا 9 رکنی آئینی بنچ بھی سن سکتا ہے۔سماعت کے دوران آئینی نکات پر تفصیلی بحث ہوئی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر آئینی بینچ کی تشکیل سے متعلق آرٹیکل 3 پڑھا جائے تو سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئینی بینچ کا دائرہ اختیار کیسز کی حد تک طے شدہ ہے۔جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ مزید کتنا وقت لیں گے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اعتراضات پر تفصیل سے دلائل دوں گا،کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر میں ایک سماعت اور لے لوں گا،میں کل بھی یہاں ہوں گا، کل دلائل دے دوں گا۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ اعتراضات پر اتنے لمبے دلائل دے رہے ہیں، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میرے لیے یہ کیس ضروری نہیں اور میرا موکل بھی ضروری نہیں ہے، میرے لیے عدالت کا نظرثانی دائرہ سماعت ضروری ہے، ایک بار طے ہو جانا چاہیے کہ نظرثانی کون سا بینچ سنے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آئینی بینچ میں جو ججز میسر تھے سب اس بینچ میں شامل تھے،2ججز نے مرضی سے خود کو بینچ سے الگ کر لیا،اس کے بعد جو ججز میسرتھے وہ سب اب اس بینچ میں شامل ہیں،
پریکٹس اینڈ پروسیجر جب چیلنج ہوا تھا اس میں فل کورٹ بیٹھی تھی، اس وقت سوال تھا کہ اگر یہ سب ججز سن رہے ہیں تو ان کیخلاف اپیل کون سنے گا،تو اس سے متعلق سب ججز نے اپنی اپنی رائے دی تھی،فرض کریں اگر آئینی بینچ میں 2 ججز مزید شامل ہو جائیں تو ٹوٹل آئینی بینچ ججز 15 اور اس بینچ میں 13 ججز ہو جائیں گےاگر دوبارہ ان 13 میں سے 2 ججز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا تو پھر باقی 11 ججز بچ جائیں گے پھر کیا کریں گے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ 11رکنی بینچ ان2 الگ ہونے والے ججز کی مرضی سے بنایا گیا ہے، آپ ہمیں صرف اعتراض نہیں اس کا حل بھی بتائیں۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کیس سماعت ملتوی کر کے کیس کو دوبارہ سے جوڈیشل کمیشن کو بھیج دیں،جوڈیشل کمیشن 2 ججز کو مزید آئینی بینچ میں شامل کر دے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جو 2ججز اس درخواست کو ڈس مس کر چکے ہیں ان کا کیاا سٹیٹس ہوگا، کیا وہ ججز دوبارہ سے پھر بیٹھیں گے،اگر وہ2 ججز بیٹھیں گے تو کیا وہ اپنے فیصلے پر دوبارہ نظرثانی کرسکیں گے۔ وکیل نے جواب دیا کہ جی بالکل، اگر وہ 2 ججز دوبارہ سے بیٹھیں گے تو وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرسکیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔