ہسپانوی پارلیمنٹ میں اسرائیل سے اسلحہ کی تجارت روکنے کی قرارداد منظور
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
اسپین کی پارلیمان نے ایک اہم پیش رفت کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اسلحے کی تجارت پر پابندی عائد کرنے کی قرارداد کی منظوری دے دی ہے۔
یہ اقدام یورپ میں بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ اور اسرائیل سے غزہ میں قحط اور نسل کشی کا سلسلہ روکنے کے مطالبے کے تناظر میں سامنے آیا ہے، جو گزشتہ 18 ماہ سے جاری ہے۔
منگل کی شب ہسپانوی پارلیمنٹ میں بائیں بازو اور قوم پرست جماعتوں کی جانب سے پیش کردہ ایک قرار داد منظور کی گئی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ان ممالک کو اسلحے کی فروخت بند کی جائے جو نسل کشی میں ملوث ہوں اور اس میں اسرائیل کا نام واضح طور پر شامل ہے۔
ہسپانوی پارلیمنٹ میں بائیں بازو اور قوم پرست جماعتوں کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کو 176 میں سے 171 ووٹ ملے۔ کنزرویٹو پیپلز پارٹی اور انتہائی دائیں بازو کی ووکس پارٹی نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔
قرارداد کے متن کے مطابق اسرائیل کو اس طرح کے کسی بھی مواد کی فروخت نہ کی جائے جو اسرائیلی فوج کو مضبوط کرسکے۔ قرارداد میں اسپین کے غیر ملکی تجارت کے قانون میں اصلاحات کی سفارش بھی کی گئی
خبر رساں اداروں کے مطابق ہسپانوی قانون سازوں نے بھی اس قرارداد کو سراہا۔
یہ پارلیمانی اقدام ہسپانوی وزیراعظم پیدرو سانچیز کی پیر کے روز کی گئی اپیل کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے اسرائیل کو بین الاقوامی ثقافتی تقریبات، جیسے یورو ویژن گیتوں کے مقابلے، سے باہر رکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے روس کی مثال دی جسے یوکرین پر حملے کے بعد ایسی تقریبات سے باہر کردیا گیا تھا۔
میڈرڈ میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سانچیز، جو خود ایک سوشلسٹ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی پالیسیوں کے دیرینہ ناقد ہیں، نے کہا: ’’ہم ثقافت میں بھی دہرے معیار کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘‘
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ’’جب تین سال قبل روس کو بین الاقوامی مقابلوں سے باہر نکالا گیا تو کسی کو حیرت نہیں ہوئی۔ اسی اصول پر اسرائیل کو بھی شامل نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
اس سے قبل، اپریل 2024 کے اواخر میں، ہسپانوی حکومت نے اسرائیلی کمپنی سے گولہ بارود خریدنے کا معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا تھا۔ حکومت نے اس فیصلے کی وجہ ’’عوامی مفاد سے متعلق عوامل‘‘ قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ وہ اسرائیلی اسلحہ کی درآمد کےلیے کسی لائسنس کی منظوری نہیں دے گی۔
ہسپانوی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ فوجی تعاون کا دائرہ وسیع پیمانے پر جائزے کے تحت رکھے ہوئے ہے۔ اس نے یہ بھی تصدیق کی کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد اسپین نے اسرائیل سے کوئی اسلحہ خریدا یا بیچا نہیں ہے، اور یہ پالیسی آئندہ بھی جاری رہے گی۔ مزید برآں، 7 اکتوبر سے قبل اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدے بھی غیر مؤثر تصور کیے جائیں گے، جس سے غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم کے خلاف اسپین کی سخت پالیسی واضح ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم سانچیز نے گزشتہ برس ہی عالمی برادری سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی بند کرے۔
اس کے جواب میں، اسرائیلی وزارت خارجہ نے یروشلم میں قائم ہسپانوی قونصل خانے پر پابندی عائد کردی، جس کے تحت اب وہ فلسطینیوں کو قونصلر خدمات فراہم نہیں کر سکتا۔
اسپین نے یورپی یونین کے رکن ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے کو معطل کریں، اسرائیل کے غزہ اور لبنان میں اقدامات کی روشنی میں۔
نومبر 2024 میں، اسپینی حکومت نے دو ایسے بحری جہازوں کو بھی اپنی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے سے روک دیا، جن کے متعلق شبہ تھا کہ وہ اسرائیل کے لیے اسلحہ اور فوجی سامان لے کر جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی حمایت سے اسرائیل غزہ میں نسل کشی پر مبنی اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، جس کے نتیجے میں اب تک 1,75,000 سے زائد افراد ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جب کہ 11 ہزار سے زائد افراد تاحال لاپتا ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کہ وہ اسرائیل اسرائیل کے اسرائیل کو حکومت نے کے ساتھ کی گئی
پڑھیں:
رکن ممالک اسرائیل کیساتھ تجارت معطل اور صیہونی وزرا پر پابندی عائد کریں، یورپی کمیشن
یورپی کمیشن کے مطابق اسرائیلی جارحیت یورپی یونین اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے کے انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کے احترام کو لازمی قرار دینے والے آرٹیکل 2 کی خلاف ورزی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ یورپی کمیشن نے اپنے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ غزہ جنگ کے باعث اسرائیل کے ساتھ تجارتی مراعات معطل کردی جائیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یورپی یونین کی خارجہ پالیسی سربراہ کاجا کالاس نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ بعض اسرائیلی مصنوعات پر اضافی محصولات لگائیں۔ انھوں نے اپیل کی کہ اسرائیلی آبادکاروں اور انتہاپسند اسرائیلی وزراء ایتمار بن گویر اور بیتزالیل سموتریچ پر پابندیاں عائد کرنے کی اپیل کی۔ یورپی کمیشن کے مطابق اسرائیلی جارحیت یورپی یونین اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے کے انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کے احترام کو لازمی قرار دینے والے آرٹیکل 2 کی خلاف ورزی ہیں۔ انھوں نے غزہ میں بگڑتی انسانی المیے، امداد کی ناکہ بندی، فوجی کارروائیوں میں شدت اور مغربی کنارے میں E1 بستی منصوبے کی منظوری کو خلاف ورزی کی وجوہات بتایا۔
یورپی کمیشن کی صدر اورسلا فان ڈیر لاین نے فوری جنگ بندی، انسانی امداد کے لیے کھلی رسائی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ تعاون روک دیا جائے گا۔ تاہم یورپی یونین کے 27 رکن ممالک میں اس تجویز پر مکمل اتفاق نہیں ہے۔ اسپین اور آئرلینڈ معاشی پابندیوں اور اسلحہ پابندی کے حق میں ہیں جبکہ جرمنی اور ہنگری ان اقدامات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یورپی کمیشن کی یہ تجویز اس وقت سامنے آئی ہے جب یورپ بھر میں ہزاروں افراد اسرائیل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور منگل کو اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیا گیا۔