چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست پہلے ہی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کر چکی ہے۔ انکے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، ای ڈی غیر ضروری طور پر کیوں تحقیقات کرے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے کہا کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) ملک کے وفاقی ڈھانچے کی پوری طرح خلاف ورزی کر رہا ہے، مرکزی ایجنسی تمام حدیں پار کر رہی ہے۔ عدالت نے تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن (TASMAC) کے خلاف ای ڈی کی تحقیقات اور چھاپوں پر بھی روک لگا دی۔ یہ معاملہ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل بنچ کے سامنے آیا۔ تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن کی نمائندگی کرنے والے سینیئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ یہ ایک کارپوریشن ہے جو شراب کی دکانیں دے رہی ہے۔ معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو دکانیں دی گئی ہیں ان میں سے کچھ نقدی لے رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے خود 2014ء-2021ء کے درمیان 41 ایف آئی آر درج کیں۔ کپل سبل نے کہا کہ ای ڈی 2025ء میں آتا ہے اور کارپوریشن ہیڈکوارٹر پر چھاپہ مارتا ہے، اس دوران تمام فونز لے کر کلون کئے جاتے ہیں۔

چیف جسٹس آف انڈیا نے ای ڈی کے وکیل سے پوچھا کہ یہ کارپوریشن کے خلاف کیسے جرم ہے، ای ڈی افراد کے خلاف شکایت درج کر سکتا ہے اور کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمہ کیوں، ای ڈی تمام حدیں پار کر رہی ہے۔ بنچ نے تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن کی طرف سے دائر عرضی پر نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا اور ای ڈی کو اس معاملے میں اپنا جواب داخل کرنے کو کہا۔ نیز کیس کی سماعت تعطیلات کے بعد مقرر کی گئی۔ کپل سبل نے دلیل دی کہ تمام ہارڈ ڈرائیوز قبضے میں لی گئی ہیں۔ بنچ نے کہا کہ اس دوران مزید کارروائی روک دی جائے گی۔ سینیئر وکیل مکل روہتگی، تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن کی طرف سے پیش ہوئے۔ انہوں نے دلیل دی کہ ای ڈی نے تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن حکام کے فون کی کلون کاپیاں لے لی ہیں اور یہ ان کی رازداری کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ ریاست پہلے ہی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کر چکی ہے۔ ان کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ سی جے آئی نے کہا کہ ای ڈی غیر ضروری طور پر کیوں تحقیقات کرے، بنیادی جرم کہاں ہے۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے کہا کہ ہم نے کچھ غلط نہیں کیا ہے۔ ہزاروں کروڑ کی دھوکہ دہی کی گئی ہے اور نقد رقم جمع کی گئی ہے۔ راجو نے عدالت سے یہ تمام معلومات حلف نامہ میں شامل کرنے اور سپریم کورٹ میں پیش کرنے کی اجازت مانگی۔ بنچ نے کہا کہ ای ڈی اسے حلف نامہ پر رکھ سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نے کہا کہ چیف جسٹس کہ ای ڈی کے خلاف رہی ہے

پڑھیں:

جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔

سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپےٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکنڈ شیڈول میں  پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس ہر چھوٹ ہوتی ہے۔

جسٹس جمال خان نے ایڈیشنل اٹارنی جزل سے مکالمہ کیا کہ  یہ تو آپ  محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں، عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکھٹا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکھٹا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں۔

عاصمہ حامد  نے دلیل دی کہ جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی  نے ریمارکس دیے کہ آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے۔

عاصمہ حامد نے کہا کہ مالی سال کا پروفیٹ موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پیٹرول پمپ سیل کرنے کے الزام میں میئر کے خلاف مقدمہ درج کرلیاگیا
  • سپریم کورٹ نے عمر قید کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کا جوڈیشل ورک سے روکنے کا آرڈر چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کیخلاف اپیل خارج کردی
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • مدعی سچ بولے تو فوجداری مقدمات میں کوئی ملزم بھی بری نہ ہو؛سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے!
  • جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ نے قتل کے مجرم سجاد کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی