Islam Times:
2025-09-18@15:58:19 GMT

اوہام میں گرفتار حکمران

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

اوہام میں گرفتار حکمران

اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ اگر واقعی ایران سے جوہری معاہدہ کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے رویے اور موقف دونوں میں اصلاح کرنی پڑے گی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے واضح اور دوٹوک موقف کے بارے میں امریکی حکام کا پہلا ردعمل انتہائی کمزور اور غیر معیاری تھا۔ انہوں نے ہمیشہ والا کھیل دوبارہ کھیلا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو زمینی حقائق اچھی طرح دیکھنے پڑیں گے۔ اسے اس حقیقت کا ادراک کرنا پڑے گا کہ ایران این پی ٹی معاہدے کا رکن ہے اور اس معاہدے میں رکن ممالک کو پرامن مقاصد کے لیے یورینیم افزودگی کا پورا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس کے پاس ایران کے مسلمہ حقوق ضائع کرنے کا کوئی ہتھکنڈہ موجود نہیں ہے۔ نہ فوجی دھمکی اور نہ ہی مذاکرات ناکام ہو جانے کی دھمکی ایران کے خلاف موثر واقع نہیں ہو سکتی۔ گیند ٹرمپ کے گراونڈ میں ہے۔ اسے ایران سے معاہدے کے لیے حقیقی ارادہ ظاہر کرنا پڑے گا۔ تحریر: محمد صدرا مرادی
 
ایران کے شہید صدر ابراہیم رئیسی کی پہلی برسی کے موقع پر رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک اہم تقریر کی جس میں دو ٹوک انداز میں یورینیم افزودگی کے حق پر زور دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد امریکہ کے کچھ مرکزی ذرائع ابلاغ نے ایران کے خلاف شدید میڈیا جنگ کا آغاز کر دیا۔ سی این این نے اس جنگ کا آغاز کرتے ہوئے وائٹ ہاوس کے بعض حکام کے بقول اعلان کیا کہ ٹرمپ حکومت کو ایسی دستاویزات موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ سی این این نے آگاہ ذرائع کے بقول دعوی کیا کہ حاصل ہونے والی نئی معلومات سے یوں محسوس ہوتا ہے گویا اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس چینل نے مزید کہا کہ فی الحال واضح نہیں ہے کہ اسرائیلی حکام نے اس بارے میں حتمی فیصلہ کر لیا ہے یا نہیں۔
 
سی این این نے آگاہ ذرائع کے بقول یہ دعوی بھی کیا کہ اگر امریکہ اور ایران کے درمیان کوئی ایسا جوہری معاہدہ طے پا جاتا ہے جس میں ایران کے پاس موجود افزودہ یورینیم کے ذخائر کے مکمل خاتمے کی ضمانت فراہم نہ کی گئی ہو تو اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کا امکان مزید بڑھ سکتا ہے۔ اس امریکی چینل نے دعوی کیا کہ اسرائیل کے اعلی سطحی حکام کی باہمی بات چیت  اور اسرائیل کی فوجی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے حاصل ہونے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حملہ عنقریب انجام پانے والا ہے۔ سی این این نے دو ذرائع کے بقول یہ دعوی کیا ہے۔ اس خبر کا رہبر معظم انقلاب کی اہم تقریر کے چند گھنٹے بعد شائع ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکی حکمرانوں نے ایران کے خلاف ہمیشہ کا کھیل ایک بار پھر شروع کر دیا ہے۔
 
وہ اس میڈیا جنگ کے ذریعے ایران کو یہ پیغام منتقل کرنا چاہتے ہیں کہ یورینیم افزودگی مکمل طور پر نہ روکنے کی صورت میں اس کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل حملے کا امکان بڑھ جائے گا۔ یہ دھمکی ایران اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان موجود زمینی حقائق سے بالکل تناسب نہیں رکھتی۔ صیہونی رژیم اس وقت طوفان الاقصی آپریشن سے پہلے کی نسبت بہت زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس کے خلاف دو بڑے فوجی آپریشن "وعدہ صادق 1 اور 2" انجام دیے ہیں جن کے ذریعے نہ صرف مغربی ایشیا بلکہ پوری دنیا کے لیے ثابت ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایران کے مقابلے میں مکمل طور پر بے دفاع ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں امریکی حکمران اب تک یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کی جانب سے فوجی حملے کی دھمکیاں دے کر ایران کو خوفزدہ کر سکتے ہیں؟
 
اس سوال کا جواب مزید کئی ایسے سوالات کا جواب بھی فراہم کر دے گا جو ایران سے جوہری مذاکرات میں امریکی حکمرانوں کے ہر لمحہ بدلتے موقف کی وجوہات کے بارے میں پیش آتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایران کی طاقت نیز ایران کے جوہری پروگرام سے متعلقہ زمینی حقائق کے بارے میں شدید اوہام کا شکار ہے۔ اگرچہ ایران سے مذاکرات کے آغاز میں امریکی حکمرانوں نے کچھ حد تک معقول رویہ اختیار کیا تھا لیکن اس کے بعد ٹرمپ حکومت کے پاس ان مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی واضح روڈ میپ موجود نہیں تھا۔ خاص طور پر گذشتہ تین ہفتوں کے دوران امریکی حکمرانوں نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ ایران کو یورینیم افزودگی مکمل طور پر ختم کر دینی چاہیے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کے چوتھے مرحلے میں امریکہ کے نمائندے ویٹکوف نے یہ موقف بیان بھی کیا لیکن اسے ایران کی جانب سے دو ٹوک موقف کا سامنا کرنا پڑا۔
 
امریکی حکمرانوں کی جانب سے بدلتے موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایران اور ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں خود ساختہ اوہام میں گرفتار ہیں۔ ان اوہام کی بنیادی وجہ ان کا یہ خیال باطل ہے کہ ایران اس وقت کمزور پوزیشن میں ہے لہذا وہ فوجی حملے کی دھمکی دے کر اس سے ہر قسم کا مطالبہ منوا سکتے ہیں۔ یہ خیال باطل سب سے پہلے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے پیش کیا تھا۔ اگرچہ ان دنوں امریکی ذرائع ابلاغ ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کے بارے میں امریکی حکمرانوں کی ذہنیت بہت حد تک نیتن یاہو کے افکار و تصورات سے متاثر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ، ویٹکوف اور روبیو اس وقت یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ ایران پر دباو ڈال کر اس سے مزید مراعات حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف ٹرمپ کا تصور ہے کہ ایران ہر قیمت پر امریکہ سے معاہدہ کرنے کا خواہاں ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ اگر واقعی ایران سے جوہری معاہدہ کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے رویے اور موقف دونوں میں اصلاح کرنی پڑے گی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے واضح اور دوٹوک موقف کے بارے میں امریکی حکام کا پہلا ردعمل انتہائی کمزور اور غیر معیاری تھا۔ انہوں نے ہمیشہ والا کھیل دوبارہ کھیلا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو زمینی حقائق اچھی طرح دیکھنے پڑیں گے۔ اسے اس حقیقت کا ادراک کرنا پڑے گا کہ ایران این پی ٹی معاہدے کا رکن ہے اور اس معاہدے میں رکن ممالک کو پرامن مقاصد کے لیے یورینیم افزودگی کا پورا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس کے پاس ایران کے مسلمہ حقوق ضائع کرنے کا کوئی ہتھکنڈہ موجود نہیں ہے۔ نہ فوجی دھمکی اور نہ ہی مذاکرات ناکام ہو جانے کی دھمکی ایران کے خلاف موثر واقع نہیں ہو سکتی۔ گیند ٹرمپ کے گراونڈ میں ہے۔ اسے ایران سے معاہدے کے لیے حقیقی ارادہ ظاہر کرنا پڑے گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رہبر معظم انقلاب یورینیم افزودگی امریکی حکمرانوں ایران کے خلاف سی این این نے کے بارے میں کرنا پڑے گا ہے کہ ایران میں امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ہوتا ہے کہ کے درمیان کی دھمکی ایران سے سے ایران ایران کی کے بقول ٹرمپ کو کیا کہ کے پاس کے لیے پڑے گی

پڑھیں:

امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران

امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ 

ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!

تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!

متعلقہ مضامین

  • امریکا اور برطانیہ کے ’جوہری معاہدے‘ میں کیا کچھ شامل ہے؟
  • غیر قانونی طور پر ایران جانے کی کوشش میں 5 افغان شہریوں سمیت 12 ملزمان گرفتار
  • امریکا کا بڑا اقدام: ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • امریکا کی  ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں ، افراد اور کمپنیوں کی فہرست جاری
  • ایران جانے والے زائرین کو اغواء کرنے والے نیٹ ورک کا کارندہ گرفتار
  • ایران میں زائرین کو اغوا کرکے تاوان وصول کرنے والے نیٹ ورک کا اہم ملزم گرفتار
  • جیوانی : سمندر کے راستے غیرقانونی طور پر ایران جانے کی کوشش پر 13 ملزمان گرفتار
  • ایران میں جوہری معائنہ کاروں کی واپسی مفاہمت کی جیت، رافائل گروسی
  • قطر امریکا کا بہترین اتحادی، اسرائیل کو محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگا، ٹرمپ