اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ اگر واقعی ایران سے جوہری معاہدہ کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے رویے اور موقف دونوں میں اصلاح کرنی پڑے گی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے واضح اور دوٹوک موقف کے بارے میں امریکی حکام کا پہلا ردعمل انتہائی کمزور اور غیر معیاری تھا۔ انہوں نے ہمیشہ والا کھیل دوبارہ کھیلا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو زمینی حقائق اچھی طرح دیکھنے پڑیں گے۔ اسے اس حقیقت کا ادراک کرنا پڑے گا کہ ایران این پی ٹی معاہدے کا رکن ہے اور اس معاہدے میں رکن ممالک کو پرامن مقاصد کے لیے یورینیم افزودگی کا پورا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس کے پاس ایران کے مسلمہ حقوق ضائع کرنے کا کوئی ہتھکنڈہ موجود نہیں ہے۔ نہ فوجی دھمکی اور نہ ہی مذاکرات ناکام ہو جانے کی دھمکی ایران کے خلاف موثر واقع نہیں ہو سکتی۔ گیند ٹرمپ کے گراونڈ میں ہے۔ اسے ایران سے معاہدے کے لیے حقیقی ارادہ ظاہر کرنا پڑے گا۔ تحریر: محمد صدرا مرادی
ایران کے شہید صدر ابراہیم رئیسی کی پہلی برسی کے موقع پر رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک اہم تقریر کی جس میں دو ٹوک انداز میں یورینیم افزودگی کے حق پر زور دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد امریکہ کے کچھ مرکزی ذرائع ابلاغ نے ایران کے خلاف شدید میڈیا جنگ کا آغاز کر دیا۔ سی این این نے اس جنگ کا آغاز کرتے ہوئے وائٹ ہاوس کے بعض حکام کے بقول اعلان کیا کہ ٹرمپ حکومت کو ایسی دستاویزات موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ سی این این نے آگاہ ذرائع کے بقول دعوی کیا کہ حاصل ہونے والی نئی معلومات سے یوں محسوس ہوتا ہے گویا اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس چینل نے مزید کہا کہ فی الحال واضح نہیں ہے کہ اسرائیلی حکام نے اس بارے میں حتمی فیصلہ کر لیا ہے یا نہیں۔
سی این این نے آگاہ ذرائع کے بقول یہ دعوی بھی کیا کہ اگر امریکہ اور ایران کے درمیان کوئی ایسا جوہری معاہدہ طے پا جاتا ہے جس میں ایران کے پاس موجود افزودہ یورینیم کے ذخائر کے مکمل خاتمے کی ضمانت فراہم نہ کی گئی ہو تو اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کا امکان مزید بڑھ سکتا ہے۔ اس امریکی چینل نے دعوی کیا کہ اسرائیل کے اعلی سطحی حکام کی باہمی بات چیت اور اسرائیل کی فوجی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے حاصل ہونے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حملہ عنقریب انجام پانے والا ہے۔ سی این این نے دو ذرائع کے بقول یہ دعوی کیا ہے۔ اس خبر کا رہبر معظم انقلاب کی اہم تقریر کے چند گھنٹے بعد شائع ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکی حکمرانوں نے ایران کے خلاف ہمیشہ کا کھیل ایک بار پھر شروع کر دیا ہے۔
وہ اس میڈیا جنگ کے ذریعے ایران کو یہ پیغام منتقل کرنا چاہتے ہیں کہ یورینیم افزودگی مکمل طور پر نہ روکنے کی صورت میں اس کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل حملے کا امکان بڑھ جائے گا۔ یہ دھمکی ایران اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان موجود زمینی حقائق سے بالکل تناسب نہیں رکھتی۔ صیہونی رژیم اس وقت طوفان الاقصی آپریشن سے پہلے کی نسبت بہت زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس کے خلاف دو بڑے فوجی آپریشن "وعدہ صادق 1 اور 2" انجام دیے ہیں جن کے ذریعے نہ صرف مغربی ایشیا بلکہ پوری دنیا کے لیے ثابت ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایران کے مقابلے میں مکمل طور پر بے دفاع ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں امریکی حکمران اب تک یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کی جانب سے فوجی حملے کی دھمکیاں دے کر ایران کو خوفزدہ کر سکتے ہیں؟
اس سوال کا جواب مزید کئی ایسے سوالات کا جواب بھی فراہم کر دے گا جو ایران سے جوہری مذاکرات میں امریکی حکمرانوں کے ہر لمحہ بدلتے موقف کی وجوہات کے بارے میں پیش آتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایران کی طاقت نیز ایران کے جوہری پروگرام سے متعلقہ زمینی حقائق کے بارے میں شدید اوہام کا شکار ہے۔ اگرچہ ایران سے مذاکرات کے آغاز میں امریکی حکمرانوں نے کچھ حد تک معقول رویہ اختیار کیا تھا لیکن اس کے بعد ٹرمپ حکومت کے پاس ان مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی واضح روڈ میپ موجود نہیں تھا۔ خاص طور پر گذشتہ تین ہفتوں کے دوران امریکی حکمرانوں نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ ایران کو یورینیم افزودگی مکمل طور پر ختم کر دینی چاہیے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کے چوتھے مرحلے میں امریکہ کے نمائندے ویٹکوف نے یہ موقف بیان بھی کیا لیکن اسے ایران کی جانب سے دو ٹوک موقف کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکی حکمرانوں کی جانب سے بدلتے موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایران اور ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں خود ساختہ اوہام میں گرفتار ہیں۔ ان اوہام کی بنیادی وجہ ان کا یہ خیال باطل ہے کہ ایران اس وقت کمزور پوزیشن میں ہے لہذا وہ فوجی حملے کی دھمکی دے کر اس سے ہر قسم کا مطالبہ منوا سکتے ہیں۔ یہ خیال باطل سب سے پہلے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے پیش کیا تھا۔ اگرچہ ان دنوں امریکی ذرائع ابلاغ ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کے بارے میں امریکی حکمرانوں کی ذہنیت بہت حد تک نیتن یاہو کے افکار و تصورات سے متاثر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ، ویٹکوف اور روبیو اس وقت یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ ایران پر دباو ڈال کر اس سے مزید مراعات حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف ٹرمپ کا تصور ہے کہ ایران ہر قیمت پر امریکہ سے معاہدہ کرنے کا خواہاں ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اگر واقعی ایران سے جوہری معاہدہ کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے رویے اور موقف دونوں میں اصلاح کرنی پڑے گی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے واضح اور دوٹوک موقف کے بارے میں امریکی حکام کا پہلا ردعمل انتہائی کمزور اور غیر معیاری تھا۔ انہوں نے ہمیشہ والا کھیل دوبارہ کھیلا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو زمینی حقائق اچھی طرح دیکھنے پڑیں گے۔ اسے اس حقیقت کا ادراک کرنا پڑے گا کہ ایران این پی ٹی معاہدے کا رکن ہے اور اس معاہدے میں رکن ممالک کو پرامن مقاصد کے لیے یورینیم افزودگی کا پورا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس کے پاس ایران کے مسلمہ حقوق ضائع کرنے کا کوئی ہتھکنڈہ موجود نہیں ہے۔ نہ فوجی دھمکی اور نہ ہی مذاکرات ناکام ہو جانے کی دھمکی ایران کے خلاف موثر واقع نہیں ہو سکتی۔ گیند ٹرمپ کے گراونڈ میں ہے۔ اسے ایران سے معاہدے کے لیے حقیقی ارادہ ظاہر کرنا پڑے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: رہبر معظم انقلاب یورینیم افزودگی امریکی حکمرانوں ایران کے خلاف سی این این نے کے بارے میں کرنا پڑے گا ہے کہ ایران میں امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ہوتا ہے کہ کے درمیان کی دھمکی ایران سے سے ایران ایران کی کے بقول ٹرمپ کو کیا کہ کے پاس کے لیے پڑے گی
پڑھیں:
جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں‘ایران
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-20
تہران( مانیٹرنگ ڈیسک) ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ تہران کو جوہری پروگرام پرامریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے‘نہ ہم جوہری پروگرام پر پابندی کو قبول کریں گے ۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ایران نے امریکا کے ساتھ ممکنہ مذاکرات اور جوہری پروگرام سے متعلق واضح پالیسی بیان جاری کر دیا۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں تاہم بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ ہم ایک منصفانہ معاہدے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن امریکا نے ایسی شرائط پیش کی ہیں جو ناقابل قبول اور ناممکن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں کریں گے۔ اور کوئی بھی سمجھدار ملک اپنی دفاعی صلاحیت ختم نہیں کرتا۔ عباس عراقچی نے کہا کہ جو کام جنگ کے ذریعے ممکن نہیں وہ سیاست کے ذریعے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مخالفین کے خدشات دور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن یورینیم افزودگی نہیں روکیں گے۔انہوں نے کہا کہ جون میں اسرائیل اور امریکا کے حملوں کے باوجود جوہری تنصیبات میں موجود مواد تباہ نہیں ہوا۔ اور ٹیکنالوجی اب بھی برقرار ہے۔ جوہری مواد ملبے کے نیچے ہی موجود ہے اور اسے کہیں دوسری جگہ منتقل نہیں کیا گیا۔ اسرائیل کے کسی بھی جارحانہ اقدام کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔