چین کا پاکستان سے غیر متزلزل اتحاد، بھارت کے خلاف عسکری کشیدگی پر واضح پیغام
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
پاکستان کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں، حالیہ پاک بھارت عسکری جھڑپوں کے بعد چین نے پاکستان کے ساتھ اپنے غیر متزلزل اتحاد کا بھرپور اعادہ کرتے ہوئے اسے آہنی دوست قرار دیا اور اس کی خودمختاری و علاقائی سالمیت کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔بیجنگ نے عالمی طاقتوں کو خبردار کرتے ہوئے دوٹوک پیغام دیا کہ چین سے نہ الجھیں۔چین اور پاکستان کے درمیان عسکری اشتراکِ عمل، بالخصوص جدید چینی دفاعی ٹیکنالوجی کے استعمال نے عالمی طاقتوں کو حیران کر دیا ہے۔مقامی انگریزی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق چینی خارجہ پالیسی کے ممتاز ماہر اور سینٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن کے نائب صدر وِکٹر ژیکائی گائو نے اس جھڑپ کو چین پاکستان دفاعی تعاون کی گہرائی کا ثبوت قرار دیا اور کہا کہ یہ واقعہ چین کی عالمی سطح پر ابھرتی عسکری برتری کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان ایئر فورس نے اس کارروائی میں جو ہتھیار استعمال کیے، وہ بڑی حد تک چین میں تیار شدہ یا چین اور پاکستان کے اشتراک سے بنائے گئے تھے، جو دونوں ممالک کے درمیان آپریشنل اتحاد کی نئی بلندیوں کو ظاہر کرتا ہے۔وکٹر گائو نے چین کے تیار کردہ جے-10 سی طیاروں کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ جنگی جہاز یورپی اور روسی طیاروں سے کہیں بہتر ثابت ہوئے۔ ان کے بقول یہ صرف ایک تکنیکی کامیابی نہیں بلکہ عالمی طاقتوں خصوصا امریکہ اور اس کے اتحادیوں ے لیے ایک واضح تذکیر ہے کہ اب چین کی عسکری صلاحیت دنیا کی بہترین طاقتوں میں شامل ہو چکی ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ چین کے خلاف کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی یا مداخلت کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔وِکٹر گا نے زور دے کر کہا کہ چین پاکستان تعلقات اب صرف نظریاتی یا سفارتی حد تک محدود نہیں رہے بلکہ ایک مکمل عملی عسکری اتحاد میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چین کبھی بھی کسی ملک کو پاکستان کی سرحدوں یا خودمختاری کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ شراکت داری نہ صرف جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن قائم رکھے گی بلکہ خطے میں امن و استحکام کی ضمانت بھی بنے گی۔عالمی سطح پر وِکٹر گائو نے امریکی قیادت میں قائم کواڈ اتحاد اور صدر بائیڈن کی سرد جنگ جیسی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ پالیسیاں دنیا میں پراکسی جنگوں اور عدم استحکام کو ہوا دیتی ہیں۔ انہوں نے موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوطرفہ اور نسبتا غیر مداخلتی حکمتِ عملی کو کم نقصان دہ قرار دیا۔وِکٹر گائو نے غزہ میں اسرائیلی حملوں پر امریکہ کی خاموشی اور شراکت داری کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ انسانیت پر ایک شرمناک داغ ہے۔ انہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ انصاف، امن اور رحم دلی کی پالیسی اپنائے، نہ کہ دنیا بھر میں جنگ و جدل کو فروغ دے۔اپنے بیان کے اختتام پر وکٹر گا نے کہا کہ یہ پورا واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ چین اب صرف ایک علاقائی طاقت نہیں بلکہ ایک ابھرتی ہوئی عالمی قوت ہے۔ اس کی پاکستان کے ساتھ شراکت داری محض علامتی نہیں بلکہ ایک مضبوط حکمتِ عملی ہے جو کسی بھی بیرونی دبا سے مرعوب نہیں ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ہماری ٹیکنالوجی جنگ میں آزمودہ ہے، ہمارے اتحاد پائیدار ہیں، اور اشتعال انگیزی کے لیے ہماری برداشت محدود ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن
DUBAI:’’ یہ انڈینز تو بڑا ایٹیٹیوڈ دکھا رہے ہیں، ہم کیوں ہاتھ ملانے کیلیے کھڑے رہیں‘‘
جب میدان میں پاکستانی کرکٹرز ایک دوسرے سے یہ بات کر رہے تھے تو ٹیم مینجمنٹ نے انھیں وہیں رکنے کا کہا، اس پر وہ تلملا گئے لیکن عدم عدولی نہیں کی، بعد میں جب مائیک ہیسن اور سلمان علی آغا بھارتی ڈریسنگ روم کی طرف گئے تو انھیں دیکھ کر ایک سپورٹ اسٹاف رکن نے دروازہ ایسے بند کیا جیسے کوئی ناراض پڑوسن کرتی ہے۔
تقریب تقسیم انعامات میں پاکستانی کپتان احتجاجاً نہیں گئے جبکہ انفرادی ایوارڈز لینے کیلیے ڈائریکٹر انٹرنیشنل پی سی بی عثمان واہلہ اور ٹیم منیجر نوید اکرم چیمہ نے شاہین آفریدی کوجانے کا کہہ دیا، انھیں زیادہ چھکوں کا ایوارڈ دیا گیا۔
بھارتی رویے کو اپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا تو وہ آئندہ بھی کسی انڈین پریزینٹر کو انٹرویو دیں گے نہ ایوارڈ لینے جائیں گے، اتنا بڑا واقعہ ہو گیا لیکن کافی دیر تک پی سی بی کا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔
چیئرمین محسن نقوی نے جب استفسار کیا تو انھیں مناسب جواب نہ ملا، انھوں نے فوری طور پر ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو ایشیا کپ سے ہٹانے کیلیے آئی سی سی کو خط لکھنے کی ہدایت دی، بعد ازاں سستی برتنے پر عثمان واہلہ کو معطل کر دیا گیا۔
اب یہ نہیں پتا کہ معطلی پکی یا کسی ایس ایچ او کی طرح دکھاوے کی ہے، اس تمام واقعے میں بھارت کا کردار بے حد منفی رہا،بھارتی حکومت پاکستان سے جنگ ہارنے اور6 جہاز تباہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہے۔
اس نے کرکٹ کی آڑ لے کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی، نفرت کے عالمی چیمپئن بھارتیوں کی سوچ دیکھیں کہ ایک کھیل میں جیت پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں ، جنگ میں ہار اور مسلسل جھوٹی باتیں کرنے پر اپنی حکومت سے استفسار نہیں کیا جا رہا، یہ معاملہ اب جلد ختم ہونے والا نہیں لگ رہا۔
پی سی بی نے سوچ لیا ہے کہ اگر پائی کرافٹ کو نہ ہٹایا گیا تو ٹیم ایشیا کپ کے بقیہ میچز سے دستبردار ہو جائے گی، میچ ریفری کا کام ڈسپلن کی پابندی کروانا ہوتا ہے ، وہ اکثر کھلاڑیوں کو غلطیوں پر سزائیں دیتا ہے، اب خود غلط کیا تو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔
پائی کرافٹ کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ سلمان علی آغا سے کہتے کہ سوریا کمار یادیو سے ہاتھ نہ ملانا، شاید انھیں اس کی ہدایت ملی ہو گی، بطور ریفری یہ ان کا کام تھا کہ کرکٹ کی روایات پر عمل یقینی بناتے ، الٹا وہ خود پارٹی بن گئے۔
شاید آئی پی ایل میں کام ملنے کی لالچ یا کوئی اور وجہ ہو، میچ کے بعد بھی بھارتی کرکٹرز نے جب مصافحے سے گریز کیا تو ریفری خاموش تماشائی بنے رہے،پاکستان کو اب سخت اسٹینڈ لینا ہی ہوگا، البتہ آئی سی سی کے سربراہ جے شاہ ہیں، کیا وہ اپنے ملک بھارت کی سہولت کاری کرنے والے ریفری کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں گے؟
کھیل اقوام کو قریب لاتے ہیں لیکن موجودہ بھارتی حکومت ایسا چاہتی ہی نہیں ہے، اس لیے نفرت کے بیج مسلسل بوئے جارہے ہیں، کپتانوں کی میڈیا کانفرنس میں محسن نقوی اور سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے پر سوریا کمار کو غدار تک کا لقب مل گیا تھا۔
ایسے میں کھلاڑیوں نے آئندہ دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی انھیں بھی اپنے بورڈ اور اسے حکومت سے ایسا کرنے کی ہدایت ملی ہوگی، جس ٹیم کا کوچ گوتم گمبھیر جیسا متعصب شخص ہو اس سے آپ خیر کی کیا امید رکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بھارتی کپتان نے پہلگام واقعے کا میچ کے بعد تقریب تقسیم انعامات میں ذکر کرتے ہوئے اپنی افواج کو خراج تحسین پیش کیا اسی پر ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، آئی سی سی نے سیاست کو کھیل میں لانے پر ماضی میں عثمان خواجہ کو نہیں چھوڑا تو اب اسے سوریا کیخلاف بھی ایکشن لینا ہوگا، پی سی بی کی دھمکی سیریس ہے۔
ریفری کو نہ ہٹایا گیا تو ایشیا کپ پاکستان کی عدم موجودگی میں دلچسپی سے محروم ہو جائے گا، اس کا منفی اثر آگے آنے والی کرکٹ پر بھی پڑے گا، بھارت کو ورلڈکپ کی میزبانی بھی کرناہے تب بھی اسے مسائل ہوں گے۔
اب یہ جے شاہ کیلیے ٹیسٹ کیس ہے دیکھنا ہوگا وہ کرتے کیا ہیں،البتہ ان سے کسی سخت فیصلے کی امید کم ہی ہے،ویسے ہمیں خود کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی ہوتی تو کیا بھارت ایسی حرکت کر سکتا تھا؟
ہمارے کھلاڑی خود مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں، پی سی بی کو اس واقعے کے ساتھ ٹیم کی شرمناک کارکردگی بھی ذہن میں رکھنی چاہیے، پلیئرز کوئی فائٹ تو کرتے ، کسی کلب لیول کی ٹیم جیسی کارکردگی دکھائی، کیا پاکستان اب صرف عمان اور یو اے ای جیسے حریفوں کو ہرانے والی سائیڈ بن گئی ہے؟
آئی پی ایل سے بھارت کو جو ٹیلنٹ ملا وہ اس کے لیے انٹرنیشنل سطح پر پرفارم بھی کر رہا ہے،پی ایس ایل کا ٹیلنٹ کیوں عالمی سطح پر اچھا کھیل پیش نہیں کر پاتا؟ ہم نے معمولی کھلاڑیوں کو سپراسٹار بنا دیا۔
فہیم اشرف جیسوں کو ہم آل راؤنڈر کہتے ہیں، اسی لیے یہ حال ہے، بابر اور رضوان کو اسٹرائیک ریٹ کا کہہ کر ڈراپ کیا گیا،صرف بھارت سے میچ میں ڈاٹ بالز دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی فرق نہیں پڑا۔
بنیادی مسائل برقرار ہیں، اب ٹیمیں 300 رنز ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنا رہی ہیں، ہم 100 رنز بھی بمشکل بنا پاتے ہیں، ہمارا اوپنر صفر پر متواتر آؤٹ ہو کر وکٹیں لینے میں کامیاب رہتا ہے اور سب سے اہم فاسٹ بولر کوئی وکٹ نہ لیتے ہوئے دوسرا بڑا اسکورر بن جاتا ہے۔
یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیا واقعی ملک میں ٹیلنٹ ختم ہو گیا یا باصلاحیت کرکٹرز کو مواقع نہیں مل رہے، بورڈ کو اس کا جائزہ لینا چاہیے، کہاں گئے وہ مینٹورز جو 50 لاکھ روپے ماہانہ لے کر ملک کو نیا ٹیلنٹ دینے کے دعوے کر رہے تھے، بھارت نے یقینی طور پر غلط کیا لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کرکٹ میں ہم کہاں جا رہے ہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)