بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے یوم تکبیر کے موقع پر اپنے ایک خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے 28 مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کا توازن برابر ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد جموں و کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے ہی جنوبی ایشیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے یوم تکبیر کے موقع پر اپنے ایک خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے 28 مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کا توازن برابر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس سے قبل بھی مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں ہو چکی ہیں جو غیر روایتی تھیں لیکن اگر خدانخواستہ اب جنگ ہوتی ہے تو یہ ایک ایٹمی جنگ ہو گی جو نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہے۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس وقت کے وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا جبکہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے میزائل ٹیکنالوجی لائی جس کی بدولت آج پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور دونوں کے درمیان کوئی بھی چھوٹا یا بڑا حادثہ ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا جو پوری دنیا کے امن کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ لہذا عالمی برادری کو پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرینہ حل طلب مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے جامع اور پائیدار حل کے لئے ضروری ہے کہ کشمیری عوام کو مذاکرات میں شامل کیا جائے کیونکہ مسئلہ کشمیر کے اصل اور اہم فریق کشمیری عوام ہی ہیں۔انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت دلوائے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے کہ پاکستان نے کہا کہ انہوں نے

پڑھیں:

بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش

پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے کہا ہے کہ پاکستانی پروازوں پر بھارتی فضائی حدود کی پابندی سے پاکستان بنگلہ دیش کے درمیان براہ راست فضائی رابطوں میں تاخیر کا سامنا ہے، کراچی اور چٹا گانگ کے درمیان براہ راست بحری رابطوں سے تجارتی سامان کی ترسیل کا دورانیہ بیس روز سے کم ہوکر پانچ چھ دن تک مختصر کیا جاسکتا ہے جس سے تجارتی سرگرمیوں میں تیزی لائی جاسکے گی اور دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔

یہ بات انہوں نے *ڈاکٹر اے ایس ایم انیس الزمان چوہدری، چیف ایڈوائزر حکومتِ بنگلہ دیش کے خصوصی معاون کے اعزاز میں منعقدہ خیرمقدمی تقریب میں کہی، جس کا اہتمام **بورڈ آف مینجمنٹ، قائداعظم ہاؤس میوزیم – انسٹیٹیوٹ آف نیشن بلڈنگ* نے کراچی میں کیا۔

اقبال حسین خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے اور مثبت دور میں داخل ہو رہے ہیں۔بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعاون، دوستی اور عوامی رابطوں کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

اپنے خطاب میں ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے دونوں ممالک کے تاریخی روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ماضی میں سیاسی جدائی واقع ہوئی، مگر بنگلہ دیش اور پاکستان کے عوام آج بھی باہمی محبت اور بھائی چارے کے جذبات رکھتے ہیں۔

انہوں نے حالیہ برسوں میں ویزا پالیسی میں مثبت تبدیلیوں کو سراہتے ہوئے بتایا کہ اب بنگلہ دیشی شہری صرف 24 گھنٹوں میں پاکستانی ویزا حاصل کر سکتے ہیں اور پاسپورٹ جمع کرانے کی ضرورت نہیں رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں قائم بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمیشن کو اب مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ ویزا براہِ راست جاری کرے، جس سے سابقہ رکاوٹیں ختم ہو گئی ہیں۔

ہائی کمشنر نے *ڈھاکا اور پاکستان کے بڑے شہروں کے درمیان براہِ راست پروازوں * کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی حدود کی پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ فی الحال تاخیر کا شکار ہے، تاہم دونوں ممالک کے متعلقہ ادارے اس مسئلے کے حل کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے *چٹاگانگ اور کراچی کے درمیان براہِ راست بحری رابطے* کی تجویز بھی پیش کی، جس سے مال برداری کا وقت بیس دن سے کم ہو کر صرف پانچ یا چھ دن رہ جائے گا۔ ان کے مطابق یہ اقدام تجارتی سرگرمیوں میں تیزی اور دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔

اقبال حسین خان نے تعلیم، سیاحت، صحت اور ثقافتی تبادلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی وفود اور جامعاتی سطح پر کھیلوں کے تبادلے شروع ہو چکے ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور تعاون میں اضافہ ہوگا۔

قائد اعظم ہاؤس میوزیم اور انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل بلڈنگ کے وائس چیئرمین اکرام سہگل نے اپنے خطاب میں دونوں ممالک کے تاریخی و ثقافتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاکستان اور بنگلہ دیش آج دو علیحدہ ممالک ہیں، مگر وہ مشترکہ تاریخ، ثقافت اور اقدار کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم دو ممالک ضرور ہیں، لیکن ایک قوم ہیں۔''

انہوں نے زور دیا کہ اگر دونوں ممالک ویزا کی پابندیوں کو ختم کر دیں، باہمی تجارت پر محصولات عائد نہ کریں اور ایک دوسرے کی کرنسی کو قابلِ تبادلہ قرار دیں تو خطے میں خیرسگالی، اعتماد اور معاشی ترقی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ اقدامات پیچیدہ معاہدوں کے بغیر ایک ہی صفحے کے فیصلے سے ممکن ہیں۔

اکرام سہگل نے دونوں ممالک کے درمیان *براہِ راست پروازوں اور بحری رابطوں * کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ کراچی اور چٹاگانگ سمیت دیگر بندرگاہوں سے تجارت تیز رفتار اور مؤثر ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر برآمدات بالخصوص *بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری* براہِ راست یورپ تک پہنچنے لگے تو دونوں ممالک کی معیشت کو بے پناہ فائدہ ہوگا۔

اپنے خطاب میں انہوں نے 1971 کے واقعات سے متعلق ذاتی مشاہدات کا بھی ذکر کیا اور زور دیا کہ دونوں ممالک کو ''حقیقت پسندی، مفاہمت اور سچائی'' کی بنیاد پر تعلقات کو آگے بڑھانا چاہیے۔

اکرام سہگل نے آخر میں کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش اگر باہمی اعتماد، سچائی اور نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھیں تو دونوں ممالک مشترکہ اقدار اور مقصد کے تحت خوشحالی کے ایک نئے دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔

تقریب سے خطاب میں ڈاکٹر اے ایس ایم انیس الزمان چوہدری مشیر خزانہ بنگلہ دیش نے کہا کہ دونوں ملکوں کو حقیقت تسلیم کرنی ہوگی، دونوں ملکوں کے درمیان بدگمانیاں پھیلائی گئیں ہمیں اپنے دشمن پر نظر رکھنا ہوگی جو اس وقت بھی بدگمانیاں پھیلا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد میں کمی اور غلط معلومات نے فاصلے پیدا کیے اسلام آباد میں دو اہم سڑکیں تحریک پاکستان کی سرکردہ بنگالی شخصیات کے نام سے موسوم ہیں اور بنگلہ دیش میں بھی محمد علی جناح اور دیگر سرکردہ شخصیات کے نام پر ادارے آج بھی قائم ہیں ہمیں یہ معلومات اور اعتماد نئی نسل کو منتقل کرنا ہوگی۔

انہوں نے پاکستان کی معاشی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکسان نے ساٹھ کی دہائی مں تیزی سے ترقی کی جب کوریا انتہائی غربت کا شکار تھا اور پاکستان سے مددکا خواہش مند تھا۔ انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں کے فنڈز کے بجائے خود انحصاری کو پائیدار ترقی کا راستہ قرار دیا۔

متعلقہ مضامین

  • آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل
  • آزاد کشمیر ہمیں جہاد سے ملا اور باقی کشمیر کی آزادی کا بھی یہ ہی راستہ ہے، شاداب نقشبندی
  • بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب
  • امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
  • کشمیر کا مسئلہ پیپلز پارٹی کے دل کے قریب ہے، شازیہ مری
  • ٹی ٹوئنٹی سیریز: پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان تیسرا اور فیصلہ کن میچ آج کھیلا جائے گا۔
  • پاکستان اور جنوبی افریقا کے درمیان فیصلہ کن ٹی ٹوئنٹی میچ آج ہوگا
  • پی پی آزاد کشمیر کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بے نتیجہ ختم
  • امریکہ، بھارت میں 10 سالہ دفاعی معاہدہ: اثرات دیکھ رہے ہیں، انڈین مشقوں پر بھی نظر، پاکستان