جو کل تک چائے بیچتے تھے وہ آج سندور بیچ رہے ہیں، ادین گوہا
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
بی جے پی لیڈر نے کہا کہ جسطرح کا بیان اور تبصرہ ادین گوہا نے کیا ہے اس نے نہ صرف ہندوستان کے فوجیوں کی توہین کی ہے بلکہ ہندوستانی عوام کی بھی توہین کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی ریاست مغربی بنگال کے دورے پر جارہے ہیں۔ اس سے پہلے مغربی بنگال کے ایک وزیر ادین گوہا نے نریندر مودی کا نام لئے بغیر تنقید کی ہے۔ ترنمول کانگریس کے لیڈر نے کہا کہ پہلے کوئی "چائے" کا کاروبار کرتا تھا، اب وہ "سندور" کا کاروبار کر رہے ہیں، ان کے اس بیان نے اب سیاسی ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ بی جے پی کے لیڈر شہزاد پونا والا نے وزیر پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ آج ترنمول کانگریس کا مطلب میر جعفر کمپنی ہونا چاہیئے۔ بی جے پی کے لیڈر شہزاد پوناوالا نے کہا کہ جس طرح کا بیان اور تبصرہ ادین گوہا نے کیا ہے اس نے نہ صرف ہندوستان کی فوجی طاقت، ہندوستان کے سپاہیوں کی توہین کی ہے بلکہ ہندوستانی عوام کی بھی توہین کی ہے۔
بی جے پی لیڈر نے کہا کہ سندور بیچا جا رہا ہے، جو پہلے چائے بیچتے تھے وہ سندور بیچ رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ انہوں نے ایک طرح سے چائے بیچنے والے غریبوں کو نشانہ بنایا ہے اور دوسری طرف فوجی طاقت کا مذاق بھی اڑایا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ادین گوہا نے منگل کو دنہاٹا میں ایک سرکاری تقریب میں شرکت کی۔ اس دوران بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا نام لئے بغیر ترنمول لیڈر نے کہا کہ پہلے کوئی چائے بیچ رہا تھا، اب وہ سندور بیچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سندور کو بیچنے شمالی بنگال کے علی پور کا دورہ کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: لیڈر نے کہا کہ توہین کی ہے سندور بیچ چائے بیچ بی جے پی رہے ہیں
پڑھیں:
دوحا میں اسرائیلی حملے سے 50 منٹ قبل ٹرمپ باخبر تھے، امریکی میڈیا کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی میڈیا کی تازہ رپورٹ نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی میزائل حملے کی منصوبہ بندی اور اطلاع محض 50 منٹ پہلے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک پہنچ چکی تھی، لیکن صدر نے اس موقع پر کوئی عملی قدم اٹھانے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔
اس انکشاف نے نہ صرف امریکا کے کردار پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ اس بات کو مزید اجاگر کیا ہے کہ واشنگٹن کے ناراضی بھرے بیانات محض دنیا کو دکھانے کے لیے تھے، حقیقت میں حملے کو روکنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے 3 اعلیٰ اسرائیلی حکام کے حوالے سے بتایا کہ تل ابیب کی قیادت نے حماس رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جانے والے حملے کی خبر براہِ راست صدر ٹرمپ تک پہنچائی تھی۔ پہلے یہ اطلاع سیاسی سطح پر صدر کو دی گئی اور پھر فوجی چینلز کے ذریعے تفصیلات شیئر کی گئیں۔
اسرائیلی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکا سخت مخالفت کرتا تو اسرائیل دوحا پر حملے کا فیصلہ واپس بھی لے سکتا تھا، لیکن چونکہ واشنگٹن نے کوئی مزاحمت نہ کی، اس لیے اسرائیلی قیادت نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیا۔
یہ بھی بتایا گیا کہ امریکا نے دنیا کے سامنے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ حملے پر خوش نہیں تھا۔ وائٹ ہاؤس نے بعد ازاں یہ موقف اختیار کیا کہ جب اسرائیلی میزائل فضا میں داغے جا چکے تھے تب اطلاع موصول ہوئی، اس لیے صدر ٹرمپ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا، لیکن میڈیا کے انکشافات نے اس وضاحت کو مشکوک بنا دیا ہے، کیونکہ اگر صدر واقعی 50 منٹ پہلے ہی آگاہ ہو چکے تھے تو ان کے پاس اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے کافی وقت موجود تھا۔
یاد رہے کہ 9 ستمبر کو دوحا میں ہونے والے میزائل حملے میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس پر عالمی سطح پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔
عرب ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس حملے کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور اسرائیل کو قابض قوت قرار دیتے ہوئے امریکی کردار کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ فلسطینی عوام پہلے ہی اسرائیلی جارحیت کا شکار ہیں، ایسے میں قطر جیسے ملک پر حملے نے خطے کو مزید غیر مستحکم کرنے کا تاثر پیدا کیا ہے۔