فیلڈ مارشل کی آذربائیجان کے وزیر دفاع سے ملاقات، دفاعی تعلقات بڑھانے پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی ) آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے لاچین، آذربائیجان میں آذربائیجان کے وزیرِ دفاع کرنل جنرل حسنوف ذاکر اسگر اوغلو سے ملاقات کی۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی کی صورتحال اور پاکستان اور آذربائیجان کے مابین دفاعی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق فیلڈ مارشل نے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دو طرفہ تعلقات کو سراہا اور آذربائیجان کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کی افغان پالیسی لائق تحسین ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (کامرس ڈیسک) معروف تاجر رہنما اور اسلام آباد چیمبر کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کی افغان پالیسی قابل تعریف اور ملکی مفادات کے عین مطابق ہے۔ پاکستان کے بنیادی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک مستحکم اور دوراندیش افغان پالیسی کو عوام کی بھرپور تائید حاصل ہے۔ حکومت کا واضح اور ٹھوس مؤقف اس خطے کے مفاد میں ہے اوریہ پالیسی پاکستان کی خودمختاری، سرحدی سلامتی اور آبی خود انحصاری کو مقدم رکھتی ہے۔شاہد رشید بٹ نے خبردار کیا کہ افغانستان بھارت کے اشاروں پر خطرناک کھیل کھیل رہا ہے۔ اگر پاکستان کے دریاؤں کے بہاؤ کو روکنے کی کوشش کی گئی تو اسے کھلی جنگ سمجھا جائے گا کیونکہ یہ پانی پاکستان کی زراعت، توانائی اور قومی بقا کی شہ رگ ہے۔ہمارے صبر کو کمزوری نہ سمجھا جائے کسی بھی یکطرفہ اقدام کا مؤثر جواب دیا جائے گا۔شاہد رشید بٹ نے کہا کہ حکومت کی افغان حکمت عملی ماضی سے بہت بہتر ہے جس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان ٹی ٹی پی کی بھرپور مدد کر رہا ہے جو پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی استحکام پر براہِ راست حملے کر رہے ہیں۔ کابل اپنی بین الاقوامی اور علاقائی ذمہ داریوں سے منہ موڑ رہا ہے۔ طالبان شدت پسند گروہوں کی خوشامدانہ پالیسی ترک کریں ورنہ انھیں پچھتانا پڑے گا۔ شاہد رشید بٹ نے کہا کہ افغانستان کو دانشمندی سے فیصلہ کرنا ہوگا۔ پرامن بقائے باہمی ممکن ہے مگر پاکستان کے بنیادی مفادات کی قیمت پر نہیں۔