بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں: امریکا میں پاکستانی سفیر کی تھنک ٹینکس سے گفتگو
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
امریکا میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے معروف امریکی تھنک ٹینکس کے فکری رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا ہے، جس کی بنیادی وجہ بھارت کی مسلسل ہٹ دھرمی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف ہے۔
رضوان سعید شیخ کا کہنا تھا کہ بھارتی پارلیمنٹ میں ’اکھنڈ بھارت‘ کا نقشہ پیش کیا جانا دراصل اس کے توسیع پسندانہ عزائم کا ثبوت ہے، جو نہ صرف علاقائی امن بلکہ عالمی استحکام کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کوئی تاریخ تنسیخ نہیں ہوتی، اور آج بھی یہ قراردادیں اتنی ہی اہم اور مسلمہ حیثیت رکھتی ہیں جتنی کہ ستر سال قبل تھیں۔ بھارت نے 2019 میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 122 کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی، جو کسی بھی فریق کو یکطرفہ اقدامات سے باز رہنے کا پابند کرتی ہے۔
مزید پڑھیں: یوم تکبیر: مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے حق میں پوسٹرز آویزاں، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تصویر بھی چسپاں
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے جوہری صلاحیت کے ذریعے روایتی عسکری عدم توازن کو متوازن کیا ہے، جس سے خطے میں ممکنہ تصادم کی شدت کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں پاکستان نے غیر معمولی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور بھارتی جارحیت کے باوجود دشمن کی شہری آبادی کو نشانہ نہیں بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ مئی 2025 میں عوامی دباؤ کے باوجود پاکستان نے تحمل کا رویہ اپنایا، لیکن یہ صبر ہمیشہ ممکن نہیں ہوگا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ مستقبل میں کسی بھی بھارتی جارحیت کا جواب بھرپور طاقت سے دیا جائے گا تاکہ بھارت کے ’نئے معمول‘کے نظریے کو مکمل طور پر رد کیا جا سکے۔
پاکستانی سفیر نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ حالیہ پاک بھارت جنگ بندی میں امریکا کا کردار کلیدی رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران کشیدگی میں کمی اور خطے میں تجارت کے فروغ پر زور دیا۔
مزید پڑھیں: خطے میں امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے، اسحاق ڈار کی اعلیٰ چینی حکام سے ملاقات
رضوان شیخ نے توقع ظاہر کی کہ امریکا جنگ بندی کے بعد طے شدہ طریقہ کار کے تحت تمام تصفیہ طلب معاملات جن میں کشمیر، دہشتگردی اور سندھ طاس معاہدہ شامل ہیں، پر پیشرفت کے لیے اپنی توجہ اور کردار جاری رکھے گا۔
انہوں نے بھارت پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات بھی عائد کیے، خاص طور پر امریکا، کینیڈا اور دیگر ممالک میں بھارتی ایجنسیوں کی مبینہ دہشتگردانہ کارروائیوں اور غیر قانونی ہلاکتوں کو عالمی برادری کی توجہ اور احتساب کا متقاضی قرار دیا۔
گفتگو کے اختتام پر سفیر پاکستان نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک پاکستان ہے، اور وہاں امن و استحکام نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کو وسط ایشیائی ممالک سے معاشی طور پر جوڑنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرٹیکل 370 اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل امریکا میں پاکستان کے سفیر بھارت پاکستان ٹرمپ جوہری صلاحیت رضوان سعید شیخ مقبوضہ کشمیر مودی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آرٹیکل 370 اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل امریکا میں پاکستان کے سفیر بھارت پاکستان جوہری صلاحیت رضوان سعید شیخ اقوام متحدہ کی میں پاکستان پاکستان نے کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ مودی بھائی بھائی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نریندر مودی نے شنگھائی کانفرنس میں شرکت اور چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمر پیوٹن کے ساتھ سر جوڑ کر کانا پھونسی کرکے وہ مقاصد حاصل کر لیے جو پہلے ہی طے کر لیے گئے تھے۔ شنگھائی کانفرنس کے چند ہی دن بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لب ولہجے پر ایک سو ڈگری کی تبدیلی کرکے بھارت اور نریندر مودی کے لیے شیریں بیانی شروع کر دی۔ ایکس پر اپنے پیغام میں صدر ٹرمپ نے ڈرانے دھمکانے کی زبان ترک کرکے بھارت کو امریکا کا دوست قرار دیتے ہوئے کہا وہ مودی سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور وہ دونوں ملکوں کے درمیان مجوزہ تجارتی معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ جس کے جواب میں نریندر مودی نے بھی ایکس پر لکھا کہ بھارت اور امریکا فطری حلیف ہیں مجھے یقین ہے کہ ہماری تجارتی بات چیت ہند امریکا شراکت کے لامحدود امکانات سے استفادے کی راہ ہموار کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے معاشی مشیر وی انتھانا گیشورن نے صاف لفظوں میں بتادیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں متبادل کرنسی بنانے میں بھارت کے ملوث ہونے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ بھارت ایسے کسی منصوبے پر غور نہیں کر رہا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی پر مختلف اوقات میں جو فردِ جرم عائد کی تھیں ان میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ بھارت ڈالر کے متبادل نظام قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ امریکی معاشی بالادستی کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ اب بھارت نے ایسی کسی منصوبے کا حصہ ہونے کی تردید کر دی۔ بھارت اور امریکا کے درمیان ٹیرف کے معاملے پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور کسی بھی وقت دونوں کے درمیان بریک تھرو کا امکان موجود ہے۔ اس طرح امریکا اور بھارت کے تعلقات کے درمیان عارضی اور وقتی بحران اب حل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس پر یہی کہا جا سکتا ہے
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحرانی کیفیت پاکستان کے لیے مغرب کی سمت امکانات کی کھلنے والی واحد کھڑکی تھی جو اب ایک بار پھر بند ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جس طرح پاکستان کے حکمران طبقات امریکا کی طرف سے بھارت کی کلائی مروڑے جانے پر جشن منارہے تھے اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی سوائے اس کے امریکا ایک بار پھر کچھ عرصہ کے لیے پاکستان پر معاشی اور سیاسی طور پر مہربان رہے۔ معاشی طور پر اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دھول اْڑتی رہے اور اس میں قاتل مقتول جارح ومجروح کے چہرے پہچاننا اور نشاندہی ہونا ناممکن رہے۔ امریکا کے زیر اثر برادر وغیر برادر ملک پاکستان کی معاشی ضرورتوں کو قرض کی صورت میں دیکھتے رہیں۔ سیاسی ضرورت یہ ہے کہ مغربی ممالک اور جمہوری نظام کے لیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرنے والے مغربی ادارے پاکستان کے سیاسی نظام اور یہاں تنگ ہوتی ہوئی آزادیوں سے اسی طرح غافل رہیں جیسے کہ وہ بھارت کے ان معاملات سے قطعی لاتعلق ہیں۔ مصر میں تو ہم نے مغربی جمہوریت کے دعوؤں کا برہنہ اور بے گورو کفن لاش کو دیکھا تھا۔ جہاں تاریخ کے پہلے انتخابات میں پہلا منتخب نظام قائم ہوا مگر خطے میں اسرائیل کی سلامتی کے لیے قائم نظام کے لیے مستقبل بعید میں اْبھرنے والے خطرے کے خوف میں اس جمہوری نظام کا گلہ گھوٹ دیا گیا۔ ایک غیر منتخب نظام قائم ہوا اور نہ جمہوریت کے فروح کے قائم عالمی اداروں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا نہ ہی اس پر کوئی اختلافی آواز بلند کی۔ یوں مغربی نظام میں مرسی کا تختہ اْلٹنے کی مہم کے سیاسی پوسٹر بوائے محمد البرادی کی بھی پلٹ کر خبر نہ لی۔ محمد البرادی وہی ذات شریف ہیں جو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے نمائندے کے طور پر عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر روز بغداد میں دندناتے پھرتے تھے اور کبھی دوٹوک انداز میں یہ نہ کہہ سکے کہ عراق ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار نہیں بنا رہا۔
بہرحال بھارت اور امریکا کے درمیان عارضی شنکر رنجی ختم ہونے کا امکان پیدا ہونے لگا ہے۔ اب بھارت کی بہت سی کج ادائیاں ماضی کی طرح ایک بار پھر ادائے دلبرانہ بن جائیں گی۔ لازمی بات ہے کہ پاکستان اس خانے میں ایک مخصوص مقام سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو اپنا فطری حلیف قرار دے کر نئی بات نہیں کی۔ دنیا میں اسرائیل اور بھارت دو ایسے ممالک ہیں جنہیں امریکا نے نائن الیون کے بعد اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دے رکھا ہے۔ ایک اسٹرٹیجک پارٹنر اسرائیل کے لیے امریکا جس حد تک جا سکتا ہے اس کا مظاہرہ آج کل مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے۔ اسی طرح چین کے ساتھ امریکا کی مخاصمت میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کم یا زیادہ بھارت ہی امریکا کی ضرورت پورا کر سکتا ہے۔ بھارت کا یہ پوٹینشل اسے امریکا کا فطری حلیف بنائے ہوئے ہے۔ بھارت امریکا کے لیے بروئے کار آنے کے لیے تیار ہے مگر وہ چین کے خلاف بے رحمی سے استعمال ہونے اور روس کے ساتھ امریکی ہدایات پر مبنی تعلقات کے قیام سے انکاری ہے۔ ان دونوں معاملات کا تعلق بھارت کے طویل المیعاد مقاصد سے ہے۔ اس عارضی ماحول میں پاکستان کے لیے مغرب میں جو وقتی گنجائش پیدا ہورہی تھی اب یہ سلسلہ رک سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے کسی نئے انداز سے ڈومور کی گھنٹیاں بج سکتی ہیں۔ یہ ڈومور قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بحالی کے نام پر بھی ہو سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن تیز کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔