نیپرا اور حکومت مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں: جماعت اسلامی
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کے الیکٹرک سے متعلق فیصلے پر نیپرا کے چیئرمین کو خط لکھ دیا. جس میں انہوں نے کہا کہ کراچی والوں کو 40 روپے فی یونٹ باقی ملک کا ٹیرف صرف 35 روپے ہے. نیپرا کا دہرا معیار قبول نہیں.امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے نیپرا کو لکھے جانے والے خط میں کہا کہ کے الیکٹرک کی ناکامی کا بوجھ عوام پر ڈالنا ظلم ہے.
منعم ظفر خان کا کہنا تھا کہ کراچی والوں کو 40 روپے فی یونٹ بجلی ملتی ہے جبکہ باقی ملک کا ٹیرف صرف 35 روپے ہے.نیپرا کا دہرا معیار اور متعصبانہ فیصلہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ نیپرا کا کراچی دشمن فیصلہ کسی صورت قبول نہیں. کے الیکٹرک کو ملک بھر سے مہنگا ٹیرف دے دیا گیا. کے-الیکٹرک بلا تعطل بجلی کی فراہمی میں اور نیپرا کراچی کے صارفین کا تحفظ کرنے کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ شدید گرمی میں بدترین لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے. نیپرا اور حکومت مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی کے الیکٹرک نیپرا کا
پڑھیں:
منتخبہ علاقوں میں اسلحہ لائسنس جاری کرنے کا فیصلہ انتہائی تشویشناک ہے، ملک معتصم خان
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر نے کہا کہ شہریوں کو منتخب انداز میں مسلح کرنے کے فیصلے کے حوالے سے حکومت کی منشاء اور اسکے ممکنہ اثرات پر کئی سنگین سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے آسام حکومت کے اس فیصلے پر اپنی گہری تشویش ظاہر کی ہے جس کے تحت ریاست کے حساس علاقوں کے لئے اسلحہ لائسنس جاری کئے جائیں گے. میڈیا کے لئے جاری اپنے بیان میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر نے کہا کہ ہم آسام کابینہ کے حالیہ فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں جس کے مطابق ریاست کے ان علاقوں میں، جنہیں حساس اور دور دراز کہا گیا ہے، اصل باشندوں اور مقامی بھارتی شہریوں کو اسلحہ لائسنس جاری کئے جائیں گے۔ آسام کے وزیراعلٰی ہیمنت بسوا سرما کے اعلان کردہ اس پالیسی کو ہم ایک متعصبانہ اور خطرناک قدم سمجھتے ہیں، یہ فیصلہ ریاست میں سماجی کشیدگی میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے اور اس سے قانون کی بالادستی کمزور ہوگی۔
ملک معتصم خان نے کہا کہ شہریوں کو منتخب انداز میں مسلح کرنے کے فیصلے کے حوالے سے حکومت کی منشاء اور اس کے ممکنہ اثرات پر کئی سنگین سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ منتخبہ علاقوں کو حساس قرار دے کر مخصوص گروہوں کو اسلحہ لائسنس دینا اقلیتوں کو حاشیے پر ڈالنے اور انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ آسام حکومت کی طرف سے اصل باشندوں کی تعریف بھی نہایت مبہم ہے جو اسلحہ لائسنس کے اجراء میں من مانی اور امتیازی سلوک کو جنم دے سکتی ہے۔
ملک معتصم خان نے مزید کہا کہ اس اقدام کو آسام حکومت کے ان حالیہ رویوں کے پس منظر میں بھی دیکھنا ضروری ہے۔ جن میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر بغیر کسی قانونی عمل کے حراست میں لینا اور ایسی پالیسیاں نافذ کرنا شامل ہیں جو اقلیتی برادریوں کو غیر مناسب طور پر متاثر کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات سماج میں خوف کا ماحول پیدا کرتے ہیں، پولیس بی ایس ایف اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو کمزور کرتے ہیں اور روز مرہ کی زندگی میں انتہائی درجے کے تشدد کا باعث بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا "جماعت اسلامی ہند آسام حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس متعصابانہ فیصلے کو فوری طور پر واپس لے اور تمام متعلقہ فریقوں کو اعتماد میں لیکر ان سے بات چیت کرے تاکہ سلامتی کے مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکے"۔ ملک معتصم خان نے کہا کہ تشدد کو ہوا دینے یا سماجی و فرقہ وارانہ تقسیم کو گہرا کرنے کے بجائے باہمی اعتماد کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عدلیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس فیصلے کا باریک بینی سے جائزہ لیں اور آسام کی تمام برادریوں کے حقوق اور سلامتی کو یقینی بنائیں۔