Daily Ausaf:
2025-07-26@01:16:05 GMT

اتحاد و اتفاق وقت کی اہم ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو، جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم پر اسلام ہی کی حالت میں موت آنی چاہئے، سب مل کر اللہ کی رسی کو تھام لو، پھوٹ نہ پیدا کرو اور اپنے اللہ کے اس انعام کو یاد کرو کہ تم آپس میں دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے کرم سے بھائی بھائی بن گئے، نیزتم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، تو اللہ تعالیٰ نےتمہیں اس سےنکالا، اللہ تعالیٰ اسی طرح تم لوگوں کو احکام بتاتا رہتا ہےتاکہ تم ہدایت پرقائم رہو(سورہ آلِ عمران102-103) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں،لہٰذا اپنےدوبھائیوں کےدرمیان میل ملاپ کرادیا کرو (سور الحجرات:10) یہ نہایت ہی اہم فریضہ ہے، افسوس کہ اس کی اہمیت اور معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا نہ ادراک ہے اور نہ احساس۔
حضرت ابودردا ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ کیا میں تمہیں روزہ، صدقہ اور زکوۃ سے بھی افضل چیزبتائوں؟ ہم لوگوں نےعرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا وہ ہے باہمی خلش کودورکرنا اور صلح کرناموجودہ دور میں اتحادوقت کی اہم ترین ضرورت ہے قرآن مقدس اور سنت رسول اللہ ﷺ نےجابجا اس کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے، آج پوری دنیا اختلاف وانتشار کی وجہ سےجوحالات پیش آرہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،ہمارے آپسی عدم اتفاق کی وجہ سے مختلف مقامات پر مسلمانوں کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنایاجارہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان تو ضرور ہیں لیکن عمل سے ہماری زندگی خالی ہے اور تعلیم قرآن و سنت نبوی ﷺ سے ہم بہت دور ہیں، ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق باقی نہیں رہا ،ہم مسلکی و جزوی اختلافات میں منقسم ہوگئے،آج ہم سیاسی و مذہبی انتشار و خلفشار کی وجہ سے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں اور یہ نفرت کم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ بڑھتی جارہی ہے۔
اس جدید دور میں سیاسی انتہاپسندی و فرقہ واریت نے ہمیں اندرسے کھوکھلا اور کمزور بنادیا ہے جس کی وجہ سے ہماری دنیا میں آج عزت نہیں رہی،پہلی وجہ یہ کہ ہم نے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑا، پھر ہم ادب واحترام کا رشتہ ہی بھول گئےجس کی وجہ سے تنزلی ہمارا مقدر ٹھہری، جبکہ مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا درس دیا ہے، دین اسلام میں اختلاف رائےجہاں ممدوح ہے، وہیں لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر اختلاف کو ناپسند کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے، اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف مت کرو، کہ تم کمزور ہوجائو اورتمہاری ہوا نکل جائے، اور صبر کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے،ان آیات سے ہمیں یہ صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اختلاف اور تفرقہ بازی سے روکا ہے، نیز یہ بھی بتلادیا کہ اگر تم نے آپس میں اختلاف کیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اور وہ نتیجہ مسلمانوں کا کمزور ہوجانا اور انکی اس طاقت کاجو اتحاد امت کی وجہ سےتھی ختم ہوجانا ہے، تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قوموں کا عروج و زوال، اقبال مندی و سربلندی، ترقی، تنزلی اور خوشحالی میں اتفاق واتحاد، باہمی اخوت و ہمدردی اور آپسی اختلافات و انتشاراورتفرقہ بازی اور باہمی نفرت و عداوت بہت اہم رول اداکرتے ہیں، چنانچہ قرآن وسنت اورتاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرنےسےہمیں یہ بخوبی معلوم ہوجاتا ہےکہ جب تک مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد قائم رہا اس وقت تک وہ فتح و نصرت اور کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوتے رہے اور جیسے ہی مسلمانوں نے اتفاق واتحاد کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار میں لگے، تب سے ہی شکست اور ناکامی اور طرح طرح کے مسائل ان کا مقدر بن گئے، امت مسلمہ کے درمیان اتفاق واتحاد کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں، چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ نبی کریم ﷺ نےحجتہ الوداع کےموقع پرمیدان عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایامیں اپنے بعد تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جن کو مضبوطی سے پکڑ لو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت،بیشک اتحادواتفاق کسی بھی قوم کی ترقی واعلیٰ اہداف کےحاصل کرنے اور سربلندی وسرخروی کے لئےبہت اہم اورضروری ہے،یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ اجتماعیت اسلام کی روح ہے، اتحاد اور آپسی محبت کے بغیر مسلمان اسی طرح ہے جیسا کہ بغیر روح کے انسان کا جسم، رسول اکرم ﷺ کو اتحاد امت کا ہمیشہ بے حد احساس رہتا تھا ،اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے۔
علاقہ،نسل، رنگ، ملک، قوم، وطن، زبان، خاندان، حسب و نسب وغیرہ کی بنیاد پر گروہ بندی ہی عصبیت ہے۔ اگر کسی فرد یا گروہ کی کسی تقریر،تحریریا عمل سے عصبیت کی بو آئے تو اسے فوری طور پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائےکہ ایک آدمی کی شورش بھی بڑی خطرناک ہے، ٹھیک اسی طرح ایک انسان بھی فتنہ برپاکرسکتاہے، اس لئے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچاجائے، نیزہرحال میں اتحاد کو قائم و دائم رکھا جائے، کیونکہ یہ ایسی اجتماعی ضرورت ہےجس کے بغیرکسی بھی خاندان و قوم کی بقاء وترقی کا تصورنہیں کیاجاسکتا،اتحادکی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ عصبیت ہے، یہ جذبات کو منفی سمت میں پروان چڑھاتی ہے۔ یہ اندھی ہوتی ہے، یہ عقل کو مائوف اور مفلوج کرتی ہے،یہ تفریق اور نفرتیں پیدا کرتی ہے،اس کی پکار جاہلیت کی پکار ہے، ’’عصبیت‘‘ اتحاد کی ضد ہے، جہاں عصبیت ہوگی، وہاں اتحاد قائم نہیں رہ سکتا، جہاں اتحاد ہوگا، وہاں عصبیت کا گزر نہیں ہو سکتا،نبی کریمﷺنے سخت ا لفاظ میں اس سےبچنے کی تاکید فرمائی ہے،چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہواہےکہ جو عصبیت پرمرا وہ جہالت پر مرا اور جو عصبیت کا علمبردار ہو وہ ہم میں سے نہیں اور جو عصبیت پر جنگ کرے وہ ہم میں سے نہیں اور جس کی موت عصبیت پر ہو وہ بھی ہم میں سے نہیں۔رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ آپ مومنوں کو آپس میں رحم کرنے، محبت رکھنے اور مہربانی کرنے میں ایسا پائیں گے جیسا کہ ایک بدن ہو جب اس کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے، تو پورے جسم کے سارے اعضا بے خوابی، بے تابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
امت مسلمہ کےاسی اتحاد واتفاق کوحضور ﷺ نےایک عمدہ اندازمیں یوں بیان فرمایا،ترجمہ یعنی ایک مسلمان کاتعلق دوسرے مسلمان کے ساتھ ایک مضبوط عمارت جیسا ہےاس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے دکھایامعلوم ہوا کہ جس طرح ایک ایک اینٹ جوڑ کر عمارت بنائی جاتی ہے اسی طرح ایک ایک فرد مل کر معاشرہ بنتا ہے اور جس طرح ہر اینٹ دوسری اینٹ کو سہارا دیتی ہے اور عمارت بلند اور مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے، اسی طرح پورے اسلامی معاشرے میں ہر فرد کو وہی کردارادا کرنا چاہیے جو ایک مضبوط عمارت کی ہر اینٹ اس عمارت کے استحکام اور اس کی بقاء کے لیے اپنا فرض ادا کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور آپس میں اخوت و محبت و ہمدردی اور ملکی وملی اور سماجی وسیاسی اور مسلکی و فروعی اختلافات سے بچائے اور امت واحدہ بن کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اتحاد و اتفاق میں اختلاف اللہ تعالی کی وجہ سے اور آپس ہے اور

پڑھیں:

فرانس؛ اسرائیل کیخلاف لبنانی مزاحمت کے ہیرو ابراہیم عبداللہ 40 سال بعد قید سے رہا

لبنان کے بائیں بازو اور حزب اللہ سمیت تمام طبقات میں یکساں مقبول مزاحمتی ہیرو جارجس ابراہیم عبد اللہ 40 سال بعد فرانس سے وطن واپس پہنچ گئے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جارجس ابراہیم عبد اللہ کو فرانس کی جیل سے اس شرط پر رہائی ملی تھی کہ وہ فوری طور پر اپنے وطن لبنان چلے جائیں گے۔

جارجس ابراہیم عبد اللہ کو پیرس کی اپیل عدالت نے 17 جولائی کو رہا کرنے کی منظوری دی تھی۔ ان کی رہائی یورپ کی جدید تاریخ کی سب سے طویل سیاسی قید کی داستان کا اختتام ہے۔

جارجس عبد اللہ کو 1987 سے امریکی فوجی اتاشی چارلس رابرٹ رے اور اسرائیلی سفارتکار یاکوف بارسمانتوف کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

اگرچہ انہوں نے کبھی اس قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف نہیں کیا تھا لیکن وہ اس لبنانی گروپ کے بانیوں میں شامل تھے جو فلسطینی اور عرب اتحاد کے حق میں تھا۔

اس لبنانی گروپ کا مقصد لبنان سے غیر ملکی فوجوں بالخصوص اسرائیل کو نکالنے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لانا تھا۔

ان کی رہائی کے لیے کئی بار عدالتوں نے سفارش کی مگر بالخصوص امریکا اور اسرائیل کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا تھا۔

ان کی سزا کی کم از کم مدت 1999 میں مکمل ہوچکی تھی مگر متعدد بار کی درخواستوں کے باوجود انھیں رہا نہیں کیا گیا تھا۔

74 سالہ عبد اللہ اب اپنے شمالی لبنان کے گاؤں قوبایات واپس آئے ہیں جہاں انہیں لبنانی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔

ان کے حامی ان کی رہائی کو انصاف کا دیرینہ اقدام قرار دے رہے ہیں اور ان کی وطن واپسی کو ایک تاریخی لمحہ سمجھا جا رہا ہے۔

لبنانی کمیونسٹ پارٹی اور حزب اللہ نے عبد اللہ کو مزاحمت کا ہیرو قرار دیا ہے جبکہ بعض دیگر سیاسی جماعتوں نے اس موقع پر خاموشی اختیار کی ہے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق عبد اللہ کی فلسطینی اور سیکولر شناخت نے انہیں لبنان کی مسیحی سیاسی جماعتوں سے الگ کر دیا ہے۔

لبنان میں عام طور پر نوجوان نسل ان کے بارے میں زیادہ واقف نہیں ہے کیونکہ آج کے ملک کو معاشی اور سیاسی بحرانوں اور ہجرت کا سامنا ہے۔

تاہم جارجس ابراہیم عبد اللہ کی تصاویر اور یادیں سوشل میڈیا پر دوبارہ گردش کر رہی ہیں، اور وہ کچھ حلقوں میں اپنی اصول پسندی کی وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں۔

ان کی وطن واپسی کے موقع پر کئی عوامی پروگرام منعقد کیے جائیں گے جن میں سیاسی رہنما، اہل خانہ، انسانی حقوق کے کارکن اور سرگرم کارکن شامل ہوں گے۔

 

متعلقہ مضامین

  • صدر آصف علی زرداری اتحاد، خودمختاری اور جمہوری استحکام کے علمبردار
  • غزہ میں انسانی تباہی کو روکا جائے، آیت اللہ سید علی سیستانی
  • غزہ میں بڑی انسانی کو روکا جائے، آیت اللہ سید علی السیستانی
  • فرانس؛ اسرائیل کیخلاف لبنانی مزاحمت کے ہیرو ابراہیم عبداللہ 40 سال بعد قید سے رہا
  • تحفظ آئین پاکستان کی قیادت کی اہم پریس کانفرنس
  • اپوزیشن اتحاد کا دو روزہ آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان
  • اپوزیشن اتحاد نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے: محمود خان اچکزئی
  • تحریک کا عروج یا جلسے کی رسم؟ رانا ثنا نے پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا
  • عمران خان کے بیٹے گرفتار ہوں تو ہی صحیح وارث بنیں گے : رانا ثناء اللہ 
  • عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت