Daily Ausaf:
2025-05-31@13:56:02 GMT

اتحاد و اتفاق وقت کی اہم ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو، جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم پر اسلام ہی کی حالت میں موت آنی چاہئے، سب مل کر اللہ کی رسی کو تھام لو، پھوٹ نہ پیدا کرو اور اپنے اللہ کے اس انعام کو یاد کرو کہ تم آپس میں دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے کرم سے بھائی بھائی بن گئے، نیزتم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، تو اللہ تعالیٰ نےتمہیں اس سےنکالا، اللہ تعالیٰ اسی طرح تم لوگوں کو احکام بتاتا رہتا ہےتاکہ تم ہدایت پرقائم رہو(سورہ آلِ عمران102-103) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں،لہٰذا اپنےدوبھائیوں کےدرمیان میل ملاپ کرادیا کرو (سور الحجرات:10) یہ نہایت ہی اہم فریضہ ہے، افسوس کہ اس کی اہمیت اور معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا نہ ادراک ہے اور نہ احساس۔
حضرت ابودردا ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ کیا میں تمہیں روزہ، صدقہ اور زکوۃ سے بھی افضل چیزبتائوں؟ ہم لوگوں نےعرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا وہ ہے باہمی خلش کودورکرنا اور صلح کرناموجودہ دور میں اتحادوقت کی اہم ترین ضرورت ہے قرآن مقدس اور سنت رسول اللہ ﷺ نےجابجا اس کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے، آج پوری دنیا اختلاف وانتشار کی وجہ سےجوحالات پیش آرہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،ہمارے آپسی عدم اتفاق کی وجہ سے مختلف مقامات پر مسلمانوں کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنایاجارہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان تو ضرور ہیں لیکن عمل سے ہماری زندگی خالی ہے اور تعلیم قرآن و سنت نبوی ﷺ سے ہم بہت دور ہیں، ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق باقی نہیں رہا ،ہم مسلکی و جزوی اختلافات میں منقسم ہوگئے،آج ہم سیاسی و مذہبی انتشار و خلفشار کی وجہ سے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں اور یہ نفرت کم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ بڑھتی جارہی ہے۔
اس جدید دور میں سیاسی انتہاپسندی و فرقہ واریت نے ہمیں اندرسے کھوکھلا اور کمزور بنادیا ہے جس کی وجہ سے ہماری دنیا میں آج عزت نہیں رہی،پہلی وجہ یہ کہ ہم نے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑا، پھر ہم ادب واحترام کا رشتہ ہی بھول گئےجس کی وجہ سے تنزلی ہمارا مقدر ٹھہری، جبکہ مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا درس دیا ہے، دین اسلام میں اختلاف رائےجہاں ممدوح ہے، وہیں لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر اختلاف کو ناپسند کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے، اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف مت کرو، کہ تم کمزور ہوجائو اورتمہاری ہوا نکل جائے، اور صبر کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے،ان آیات سے ہمیں یہ صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اختلاف اور تفرقہ بازی سے روکا ہے، نیز یہ بھی بتلادیا کہ اگر تم نے آپس میں اختلاف کیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اور وہ نتیجہ مسلمانوں کا کمزور ہوجانا اور انکی اس طاقت کاجو اتحاد امت کی وجہ سےتھی ختم ہوجانا ہے، تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قوموں کا عروج و زوال، اقبال مندی و سربلندی، ترقی، تنزلی اور خوشحالی میں اتفاق واتحاد، باہمی اخوت و ہمدردی اور آپسی اختلافات و انتشاراورتفرقہ بازی اور باہمی نفرت و عداوت بہت اہم رول اداکرتے ہیں، چنانچہ قرآن وسنت اورتاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرنےسےہمیں یہ بخوبی معلوم ہوجاتا ہےکہ جب تک مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد قائم رہا اس وقت تک وہ فتح و نصرت اور کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوتے رہے اور جیسے ہی مسلمانوں نے اتفاق واتحاد کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار میں لگے، تب سے ہی شکست اور ناکامی اور طرح طرح کے مسائل ان کا مقدر بن گئے، امت مسلمہ کے درمیان اتفاق واتحاد کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں، چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ نبی کریم ﷺ نےحجتہ الوداع کےموقع پرمیدان عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایامیں اپنے بعد تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جن کو مضبوطی سے پکڑ لو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت،بیشک اتحادواتفاق کسی بھی قوم کی ترقی واعلیٰ اہداف کےحاصل کرنے اور سربلندی وسرخروی کے لئےبہت اہم اورضروری ہے،یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ اجتماعیت اسلام کی روح ہے، اتحاد اور آپسی محبت کے بغیر مسلمان اسی طرح ہے جیسا کہ بغیر روح کے انسان کا جسم، رسول اکرم ﷺ کو اتحاد امت کا ہمیشہ بے حد احساس رہتا تھا ،اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے۔
علاقہ،نسل، رنگ، ملک، قوم، وطن، زبان، خاندان، حسب و نسب وغیرہ کی بنیاد پر گروہ بندی ہی عصبیت ہے۔ اگر کسی فرد یا گروہ کی کسی تقریر،تحریریا عمل سے عصبیت کی بو آئے تو اسے فوری طور پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائےکہ ایک آدمی کی شورش بھی بڑی خطرناک ہے، ٹھیک اسی طرح ایک انسان بھی فتنہ برپاکرسکتاہے، اس لئے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچاجائے، نیزہرحال میں اتحاد کو قائم و دائم رکھا جائے، کیونکہ یہ ایسی اجتماعی ضرورت ہےجس کے بغیرکسی بھی خاندان و قوم کی بقاء وترقی کا تصورنہیں کیاجاسکتا،اتحادکی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ عصبیت ہے، یہ جذبات کو منفی سمت میں پروان چڑھاتی ہے۔ یہ اندھی ہوتی ہے، یہ عقل کو مائوف اور مفلوج کرتی ہے،یہ تفریق اور نفرتیں پیدا کرتی ہے،اس کی پکار جاہلیت کی پکار ہے، ’’عصبیت‘‘ اتحاد کی ضد ہے، جہاں عصبیت ہوگی، وہاں اتحاد قائم نہیں رہ سکتا، جہاں اتحاد ہوگا، وہاں عصبیت کا گزر نہیں ہو سکتا،نبی کریمﷺنے سخت ا لفاظ میں اس سےبچنے کی تاکید فرمائی ہے،چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہواہےکہ جو عصبیت پرمرا وہ جہالت پر مرا اور جو عصبیت کا علمبردار ہو وہ ہم میں سے نہیں اور جو عصبیت پر جنگ کرے وہ ہم میں سے نہیں اور جس کی موت عصبیت پر ہو وہ بھی ہم میں سے نہیں۔رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ آپ مومنوں کو آپس میں رحم کرنے، محبت رکھنے اور مہربانی کرنے میں ایسا پائیں گے جیسا کہ ایک بدن ہو جب اس کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے، تو پورے جسم کے سارے اعضا بے خوابی، بے تابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
امت مسلمہ کےاسی اتحاد واتفاق کوحضور ﷺ نےایک عمدہ اندازمیں یوں بیان فرمایا،ترجمہ یعنی ایک مسلمان کاتعلق دوسرے مسلمان کے ساتھ ایک مضبوط عمارت جیسا ہےاس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے دکھایامعلوم ہوا کہ جس طرح ایک ایک اینٹ جوڑ کر عمارت بنائی جاتی ہے اسی طرح ایک ایک فرد مل کر معاشرہ بنتا ہے اور جس طرح ہر اینٹ دوسری اینٹ کو سہارا دیتی ہے اور عمارت بلند اور مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے، اسی طرح پورے اسلامی معاشرے میں ہر فرد کو وہی کردارادا کرنا چاہیے جو ایک مضبوط عمارت کی ہر اینٹ اس عمارت کے استحکام اور اس کی بقاء کے لیے اپنا فرض ادا کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور آپس میں اخوت و محبت و ہمدردی اور ملکی وملی اور سماجی وسیاسی اور مسلکی و فروعی اختلافات سے بچائے اور امت واحدہ بن کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اتحاد و اتفاق میں اختلاف اللہ تعالی کی وجہ سے اور آپس ہے اور

پڑھیں:

راناثنا اللہ کا ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ’ہیرو‘ ماننے سے انکار

وزیراعظم شہباز شریف کے سیاسی مشیر اور وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ نے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو  ہیرو ماننے سے انکار کردیا۔

نجی نیوز چینل کے ساتھ  گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ ڈاکٹر اے  کیو خان کو ہیرو نہیں کہا جاسکتا، ہیرو وہ ہے جس نے ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا اور اس کا اغاز سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اے کیو خان کا  بطور سائنسدان جتنا کریڈٹ بنتا ہے، وہ ان کو دیا جاتا ہے لیکن وہ لیڈر نہیں ہیں۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ایٹم بم تو کئی ممالک نے بنا لیے لیکن ایٹمی دھماکے کرنے والے کم ہیں اور یہاں صرف حسد اوربغض میں کہا جاتا ہے کہ نواز شریف تو کرنا نہیں چاہتے تھے، او بھائی وزیر اعظم نواز شریف ہی تھے اور یہ دھماکے انہوں نے ہی کیے تھے۔

سینئر سیاستدان نے کہا کہ اسٹیبلمشنٹ کا مؤقف واضح ہے اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر بہت واضح سوچ سمجھ رکھتے ہیں کہ سیاسی مذاکرات سیاسی جماعتوں کے درمیان ہی ہونے چاہییں اور وہ اس میں رکاوٹ بھی نہیں بلکہ انہوں نے کہا کہ ان کو ایسے مذاکرات پر خوشی ہوگی۔

مشیر وزیراعظم  نے کہا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنےکی خواہش کے بجائے نوازشریف اور صدر آصف زرداری صاحب کو مذاکرات کا پیغام دیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ ہر چیز کا ذمہ دار بھی ہمیں ٹھہراتےہیں اورساتھ  یہ بھی کہتے ہیں آپ کے پاس اختیار نہیں، اختیار تو حکومت ہی کا ہے اور ان کو حکومت ہی سے بات کرنا ہوگی۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ عمران خان کا فلسفہ سیاست یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر دوبارہ حکومت میں آئیں اور پھر سے وہی کہنا شروع کردیں کہ میں چھوڑوں گا نہیں۔

وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ عمران خان اب اپنے اس فلسفےکی وجہ سے کامیابی سے بہت دور جاچکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور ایران رہبر معظم کے دو طاقتور بازو ہیں، علامہ شبیر میثمی
  • ایمان اور توکل کی پرواز
  • راناثنا اللہ کا ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ’ہیرو‘ ماننے سے انکار
  • پاکستان کو اس وقت سیاسی استحکام اور قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے:صدر مملکت آصف علی زرداری
  • پاکستان کو سیاسی استحکام اور اتفاق رائے کی ضرورت ہے: صدر آصف زرداری
  • نور ولی جیسے لوگ مجاہد نہیں، دورِ جدید کے خوارج اور فتنہ پرور ہیں
  • بھکر، آیت اللہ شیخ یعقوبی کیطرف سے اتحاد بین المومنین و استحکام پاکستان کانفرنس
  • دعاؤں کی قبولیت کا مجرب نسخہ
  • ہندوستان سے اتحاد کا اعلان، خارجی نور ولی بے نقاب ہوگیا