فیصل الیاس قتل کیس: مرکزی ملزم ارباب خلیل کو سزائے موت، دو شریک ملزمان کو دو، دو سال قید
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
فیصل الیاس قتل کیس: مرکزی ملزم ارباب خلیل کو سزائے موت، دو شریک ملزمان کو دو، دو سال قید WhatsAppFacebookTwitter 0 1 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے 33 سالہ نوجوان فیصل الیاس کے اندھے قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے مرکزی مجرم ارباب خلیل کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنا دی، جب کہ دو شریک ملزمان معظم اختر اور فاروق اعظم کو دو، دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔ فیصلے کے بعد مقتول کے ورثاء اور وکلاء نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عدالت اور پولیس کا شکریہ ادا کیا۔
نبیلہ ارشاد ایڈووکیٹ، جو مستغیث مقدمہ کی پیروی کر رہی تھیں، نے بتایا کہ فیصل الیاس کو 18 ستمبر 2022ء کو اسلام آباد کے علاقے غوری ٹاؤن میں انتہائی خفیہ منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔ قتل کے بعد مقتول کی لاش کے کئی ٹکڑے کیے گئے اور کورنگ نالہ میں پھینک دیے گئے۔ واقعے کی ایف آئی آر کورال پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی تھی۔
وکیل سید طاہر عباس ایڈووکیٹ کے مطابق، کیس میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ مقتول کے موبائل کی سی ڈی آر رپورٹ، سی سی ٹی وی فوٹیج اور گاڑی کی ٹریکنگ کے ذریعے پولیس نے مجرموں تک رسائی حاصل کی۔
قتل کے بعد مرکزی ملزمان ارباب خلیل اور عمران خلیل دبئی فرار ہو گئے تھے۔ ارباب خلیل کو انٹرپول کی مدد سے گرفتار کر کے 16 اگست 2023ء کو پاکستان لایا گیا۔ عمران خلیل تاحال مفرور ہے، جسے عدالت نے اشتہاری قرار دے کر اس کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کر رکھے ہیں۔
عدالت نے کیس کا ٹرائل مکمل ہونے کے بعد ارباب خلیل کو سزائے موت سنائی، جب کہ دیگر دو ملزمان معظم اختر اور فاروق اعظم کو جرم میں معاونت پر دو سال قید کی سزا دی گئی۔ مجرم ارباب خلیل کا تعلق راولاکوٹ آزاد کشمیر کے علاقے نامنونہ سے بتایا گیا ہے۔
مقتول کے بھائی بلال الیاس نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بھائی کو بے دردی سے قتل کرنے کے بعد ان کے خاندان پر راولاکوٹ میں جھوٹے مقدمات بھی درج کیے گئے تاکہ کیس پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ بلال الیاس نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد، اسلام آباد پولیس، آئی جی اسلام آباد، ایس ایچ او شفقت فیض اور تفتیشی افسر طارق محمود کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا۔
نبیلہ ارشاد ایڈووکیٹ نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ دوسرے مرکزی ملزم عمران خلیل کو بھی انٹرپول کے ذریعے وطن واپس لا کر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انھوں نے عدالت کے فیصلے کو انصاف کی جیت قرار دیا۔
یہ اندھا قتل کیس اسلام آباد کی عدالتی اور تفتیشی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جس میں جدید تحقیقاتی ذرائع اور قانونی ماہرین کی محنت سے مقتول کے خاندان کو انصاف ملا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرترکیہ کو مطلوب خطرناک دہشت گرد پاکستان کی مدد سے گرفتار ترکیہ کو مطلوب خطرناک دہشت گرد پاکستان کی مدد سے گرفتار بھارت سے جنگ نہیں چاہتے، جنگ مسلط کی گئی تو پہلے سے زیادہ اور بڑےسرپرائز دیں گے، صدر مملکت نئی نسل علیحدگی کا درد نہیں سمجھ سکتی، پاکستان اور بنگلہ دیش کو قریب لانے کی ضروت ہے، صدر زرداری کرپشن و غیر قانونی بھرتیوں کا معاملہ، ایف آئی اے کا پی اے آر سی ہیڈ آفس پر رات گئے چھاپہ، ریکارڈ تلف کرنے... عمر ایوب کی نااہلی کیخلاف الیکشن کمیشن کو بھیجا گیا ریفرنس سماعت کیلئے مقرر جنسی ہراسگی شکایت، ثبوت فراہم کرنا ٹیچر کی ذمہ داری، وفاقی محتسب انسدادِ ہراسگی کا حکمنامہ
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ارباب خلیل کو اسلام ا باد فیصل الیاس دو سال قید سزائے موت مقتول کے قتل کیس کے بعد
پڑھیں:
امریکا کا فلسطین نواز طالبِ علم محمود خلیل کو جلاوطن کرنے کا حکم
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی ریاست لوئزیانا کی ایک امیگریشن عدالت نے فلسطین نواز احتجاجی رہنما اور کولمبیا یونیورسٹی کے سابق طالب علم محمود خلیل کو ملک بدر کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ فیصلے کے مطابق خلیل کو الجزائر یا متبادل طور پر شام بھیجا جائے گا۔
عرب نیوز کے مطابق امیگریشن جج جیمی کومانز نے 12 ستمبر کو جاری کیے گئے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ خلیل نے گرین کارڈ کی درخواست پر دانستہ طور پر بعض اہم حقائق چھپائے اور ’یہ عمل محض لاعلمی یا غفلت نہیں بلکہ جان بوجھ کر کی گئی غلط بیانی تھی، جس کا مقصد امیگریشن عمل کو دھوکہ دینا اور درخواست کے مسترد ہونے کے امکانات کو کم کرنا تھا۔‘ جج نے مزید کہا کہ اگر ایسی غلط بیانی کے باوجود رعایت دی جائے تو مستقبل کے درخواست گزار بھی یہ خطرہ مول لینے پر آمادہ ہوں گے۔
کومانز نے خلیل کی وہ درخواست بھی مسترد کر دی جس میں انہوں نے ملک بدری سے استثنیٰ دینے کی اپیل کی تھی۔ عدالت کے مطابق ’یہ اقدام مستقبل کے درخواست گزاروں کے لیے غلط پیغام ہوگا۔‘
دوسری جانب خلیل کی قانونی ٹیم نے نیو جرسی کی ایک فیڈرل کورٹ کو خط جمع کرا دیا ہے، جس میں جج کومانز کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان کے وکلاء نے کہا ہے کہ اپیل دائر کی جائے گی اور قانونی جدوجہد جاری رہے گی۔
امریکی سول لبرٹیز یونین (ACLU)، جو اس مقدمے میں خلیل کی نمائندگی کر رہی ہے، نے عدالت کے الزامات کو ”بے بنیاد اور انتقامی“ قرار دیا ہے۔ تنظیم کے مطابق ”misrepresentation“ یعنی غلط بیانی کے یہ الزامات دراصل خلیل کی حراست کے بعد انتقامی بنیادوں پر شامل کیے گئے۔
محمود خلیل نے اپنے ردعمل میں کہا: ”یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ میری آزادیِ اظہار کی سزا دینے کی کوششیں کر رہی ہے۔ ان کی تازہ ترین کارروائی، کانگرو کورٹ کے ذریعے، ان کے اصل عزائم کو ایک بار پھر ظاہر کرتی ہے۔“
انہوں نے مزید کہا: ”جب ان کی پہلی کوشش ناکام ہونے لگی تو انہوں نے مجھے خاموش کرانے کے لیے جھوٹے اور مضحکہ خیز الزامات گھڑ لیے۔ لیکن ایسے ہتھکنڈے مجھے اپنی قوم کی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے اور فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونے سے روک نہیں سکتے۔“
یاد رہے کہ محمود خلیل امریکا کے قانونی مستقل رہائشی ہیں، ان کی شادی ایک امریکی شہری سے ہوئی ہے اور ان کا ایک بیٹا بھی امریکا میں پیدا ہوا ہے۔ رواں سال مارچ میں انہیں امیگریشن حکام نے تین ماہ تک حراست میں رکھا تھا، بعد ازاں جون میں رہا کیا گیا، مگر وہ مسلسل ملک بدری کے خطرے سے دوچار ہیں۔
خلیل کا تعلق کولمبیا یونیورسٹی سے رہا ہے، خلیل ملک گیر فلسطین نواز احتجاجی تحریک کے نمایاں رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔ وہ ملک بھر میں فلسطین نواز کیمپس احتجاجات کے سب سے نمایاں رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔
Post Views: 4