کوئی شک نہیں، اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم کا مرتکب ہوا؛ سابق امریکی ترجمان
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
جوبائیڈن کے دور میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان میتھیو ملر نے ایک حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا کہ غزہ سے متعلق پالیسی پر بائیڈن کابینہ میں اختلافات تھے خاص طور پر اس بات پر کہ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنا جاری رکھا جائے یا نہیں۔
اسکائی نیوز کو انٹرویو میں انہوں نے مزید بتایا کہ 2024 میں بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو 2 ہزار پاؤنڈ وزنی بموں کی ترسیل اس لیے روک دی تھی کہ یہ ہتھیار غزہ میں نامناسب طریقے سے استعمال ہونے کا خدشہ تھا۔
سابق امریکی ترجمان نے یہ اعتراف بھی کیا کہ مئی 2024 سے جنوری 2025 تک ہزاروں فلسطینی شہری مارے گئے حالانکہ ہم اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے میں مزید کچھ کرسکتے تھے۔
جنگ بندی میں رکاوٹ کون تھا کے سوال پر متھیو ملر نے بتایا کہ ہم نے صرف حماس کو ہی نہیں بلکہ وزیراعظم نیتن یاہو کو بھی مذاکرات میں رکاوٹ ڈالتے دیکھا۔ ہمیں اسرائیل پر مزید سخت موقف اختیار کرنا چاہیے تھا۔
امریکا کے سابق ترجمانِ وزارت خارجہ میتھیوملر نے کہا کہ یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اسرائیل نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے تاہم میرے خیال میں غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام درست نہیں۔
میتھیو ملر نے مزید وضاحت کی کہ اصل سوال یہ ہے کہ آیا نسل کشی اسرائیل کی ریاستی پالیسی کے تحت ہوئی یا یہ انفرادی واقعات ہیں۔ ریاستی سطح پر جنگی جرائم کا ارتکاب ایک کھلا سوال ہے، کچھ انفرادی واقعات میں اسرائیلی فوجی نسل کشی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔
میتھیو ملر نے کہا کہ دنیا کی ہر بڑی جنگ میں، یہاں تک کہ جمہوری ممالک کی جنگوں میں بھی کچھ فوجی انفرادی طور پر جنگی جرائم اور نسل کشی کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ آیا ان فوجیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاتا ہے یا نہیں۔ اسرائیل نے ابھی تک کوئی خاطر خواہ احتساب نہیں کیا۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کردیا تھا جس میں 1500 اسرائیلی مارے گئے تھے جب کہ251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
غزہ میں حماس کے پاس ان میں سے اب بھی 58 اسرائیلی یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 35 کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 20 کے زندہ ہونے کا یقین ہے دیگر 3 کے بارے میں شدید خدشات پائے جاتے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیل کی غزہ پر جاری بمباری میں 55 ہزار کے قریب فلسطینی شہید اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد زخمی ہوگئے۔ جن میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کی اعلیٰ قیادت سمیت 20 ہزار جنگجوؤں کو قتل کیا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جنگی جرائم کا میتھیو ملر نے
پڑھیں:
غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے حماس کو نئی دھمکیاں دی ہیں۔ کاٹز نے کہا ہے کہ اگر حماس نے اسرائیل کی شرائط نہ مانیں تو غزہ میں مزید شدت اختیار کرنے والے حملے کیے جائیں گے۔ اسرائیل اپنی دھمکی پر عمل کرے گا۔
غزہ میں کسی معاہدے کا کوئی امکان نہیں
اسرائیلی نشریاتی ادارے نے بتایا ہے کہ تل ابیب نے واشنگٹن کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ وہ تمام مذمتوں کے باوجود غزہ کی پٹی میں اپنی فوجی کارروائی کو مزید گہرا کرنے جا رہا ہے۔ ادارے نے مزید بتایا کہ تل ابیب نے واشنگٹن کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ غزہ میں کسی معاہدے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ سب ایسے وقت ہو رہا ہے جب وزیر رون ڈیرمر کا لندن میں وائٹ ہاؤس کے ایلچی سٹیو وٹکوف سے ملاقات کا شیڈول ہے تاکہ تمام یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے لیے ایک جامع معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کی بحالی کے امکان پر بات کی جا سکے۔
قطری اعلیٰ حکام بھی لندن میں موجود ہیں اور ایلچی کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔ ایک باخبر ذریعہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ امریکی اس وقت اسرائیل اور قطر کے درمیان ثالثی کر رہے ہیں تاکہ اس بحران کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے جو دوحہ میں حماس کے اعلیٰ حکام کے خلاف اسرائیلی حملے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا اور دوحہ کو اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کے کردار میں واپس لایا جا سکے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکی اسرائیل پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کشیدگی کم کرنے اور قطر کے ساتھ بحران کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب میدان میں بھی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ کاٹز نے خبردار کیا ہے کہ اگر حماس نے یرغمالیوں کو رہا نہ کیا اور اپنے ہتھیار نہ ڈالے تو غزہ کو تباہ کر دیا جائے گا اور غزہ حماس کو ختم کرنے والوں کے لیے ایک یادگار بن جائے گا۔ اسرائیلی فوج نے حماس پر زمینی کارروائیاں اور سیاسی و فوجی دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر غزہ میں ایک فوری انسانی بحران کے بارے میں وارننگ دی جا رہی ہے۔
یہ بھی اعلان کیا گیا کہ غزہ کے شہریوں کے شہر سے نکلنے کے لیے ایک “عارضی منتقلی کا راستہ” قائم کیا گیا ہے۔ یہ اعلان اس کے بعد ہوا جب فوج نے حماس کے ساتھ تقریباً دو سال کی جنگ کے بعد پٹی کے سب سے بڑے شہر پر زمینی حملے اور بمباری میں اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران صہیونی فوج نے پٹی کے شمال میں واقع غزہ سٹی کے رہائشیوں کو شدید انتباہات دیے ہیں کہ وہ شہر چھوڑ کر پٹی کے جنوب میں قائم کردہ ایک “انسانی علاقے” میں منتقل ہو جائیں کیونکہ وہ شہر پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔
فوج نے منگل کو بھی کہا تھا کہ اس نے اس شہر میں اپنی زمینی کارروائیوں کو وسیع کرنا شروع کر دیا ہے اور غزہ میں مسلسل اور شدید بمباری ہو رہی ہے۔ بدھ کو اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے پیر کی رات سے 150 سے زیادہ اہداف پر بمباری کی ہے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی
اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ ایک آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے اگست کے آخر میں غزہ شہر اور اس کے آس پاس رہنے والے افراد کی تعداد تقریباً دس لاکھ بتائی تھی۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں میں شہر سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔ لوگ پیدل، کاروں، گاڑیوں اور زرعی ٹریکٹروں کا استعمال کرتے ہوئے شہر کو چھوڑ رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے بدھ کو اندازہ لگایا ہے کہ غزہ سٹی چھوڑنے پر مجبور ہونے والوں کی تعداد 350,000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسی دوران بہت سے فلسطینی وہیں رہنے پر مصر ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ان کے پاس پناہ لینے کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔
Post Views: 5