Daily Ausaf:
2025-06-05@04:34:55 GMT

غزہ: جنگ، جبر اور انصاف کی شکست

اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT

غزہ فلسطین کاایک چھوٹاساساحلی علاقہ ہےجس کی سرحدیں اسرائیل،مصراوربحیرہ روم سے ملتی ہیں۔ اس کی آبادی تقریبا23لاکھ ہے اوریہ دنیاکے سب سے گنجان آباداورمحروم علاقوں میں شمارہوتا ہے۔ 2007ء سےغزہ پرحماس کی حکمرانی ہے،جو اسرائیل کے ظلم و ستم کے خلاف جدوجہد آزادی میں مصروف ہے۔
اکتوبر2023ء میں حماس اوراسرائیل کے درمیان شروع ہونے والی جنگ کے بعدغزہ ایک شدید انسانی بحران کاشکارہوگیا۔اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے مئی2025میں ایک نئی پالیسی کی منظوری دی جس میں غزہ پرقبضہ،حماس کوختم کرنے کیلئے بھرپور کارروائیاں ،اورانسانی امداد پر کنٹرول جیسے نکات شامل تھے۔یہ پالیسی داخلی سیاسی عوامل اوربین الاقوامی سفارتی چیلنجزکے بیچ میں متوازن ہونے کی بجائے تنازع کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ منصوبہ کے مطابق غزہ میں فوجی کارروائیوں میں شدت، علاقے پرکنٹرول حاصل کرنا، حماس کو مکمل طور پر کمزور کرنا اور انسانی امداد کی فراہمی کے راستے بند کرنا شامل ہے۔ اس منصوبے کو دنیا بھر میں سخت تنقید کا سامنا ہے اور یہ بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور موجودہ سفارتی کوششوں کیلئے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
2005ء میں اسرائیل نے غزہ سےفوجی انخلاکیاتھالیکن اس کے بعد بھی وہ غزہ کی بری،بحری اورفضائی ناکہ بندی جاری رکھے ہوئے ہے۔ درآمدات،برآمدات،بجلی اورپانی کی فراہمی پرمکمل اسرائیلی کنٹرول ہے۔پچھلی سات دہائیوں سے زائد اسرائیلی بربریت کے خلاف اکتوبر 2023ء میں حماس کےایک بڑےحملےکے بعداسرائیل نے غزہ پربھرپور فوجی حملے شروع کیے۔اس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہری شہیداورلاکھوں بے گھرہوگئے۔اسرائیلی فوج نے غزہ کے بڑے حصوں پرزمینی حملوں میں درجنوں اسرائیلی شہریوں کویرغمال بنالیا ۔ اب مئی2025ء میں اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے ایک نئی پالیسی کی منظوری دی ہے جس میں غزہ کاطویل المدتی فوجی کنٹرول،حماس کوانسانی امدادسے محروم کرنے کی کوشش اورمکمل فوجی تسلط اورقبضہ شامل ہے۔یہی پالیسی اب بین الاقوامی توجہ اور مخالفت کامرکز بن چکی ہے۔
کیااسرائیل غزہ پرقبضہ کرسکتاہے؟بین الاقوامی قوانین کےمطابق چوتھے جنیواکنونشن (1949) اورہیگ ریگولیشنز(1907)کے مطابق، کسی علاقے پر’’فوجی قبضہ‘‘صرف عارضی ہوسکتا ہے۔ کسی بھی ملک کودوسرے علاقے پرطویل مدتی قبضہ کرنے کی اجازت نہیں ہے، جبتک کہ یہ قبضہ دفاعی نوعیت کانہ ہواورجبری الحاق کاارادہ نہ رکھتاہو، اگرچہ عارضی فوجی کنٹرول ممکن ہے،لیکن غزہ جیسے علاقےپرمستقل قبضہ، جہاں اسرائیل پہلے ہی 2005ء میں فوجی انخلا کا اعلان کرچکاہو،ایک جارحانہ عمل سمجھا جائے گا۔مقامی آبادی کے حقوق کااحترام کرنالازم ہے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف نے2004ء میں فلسطینی علاقوں پراسرائیلی قبضے کو “غیرقانونی” قراردیاتھا،جس میں غزہ بھی شامل تھا۔ تاہم، اسرائیل نے2005میں غزہ سے اپنی فوجی موجودگی ختم کردی تھی،جس کے بعدسے اس کے قانونی مؤقف میں تبدیلی آئی۔2007سے غزہ پر حماس کاکنٹرول ہے،جبکہ اسرائیل نے زمینی، بحری،اورفضائی محاصرہ جاری رکھاہواہے۔بین الاقوامی تنظیمیں اسے ’’بلاکڈ‘‘ یا’’محدود خودمختاری والاعلاقہ قرار دیتی ہیں۔اگر اسرائیل دوبارہ غزہ میں فوجی آپریشنزکے ذریعے براہ راست کنٹرول حاصل کرتا ہے،تو یہ بین الاقوامی قانون کے تحت’’غاصبانہ قبضہ‘‘شمارہوسکتاہے،جس کیلئے خاص شرائط اورذمہ داریاں عائدہوتی ہیں۔
شہریوں کواجتماعی سزادیناغیرقانونی ہے۔ خوراک،ادویات اورطبی سہولتوں کو روکنا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔اگراسرائیل مستقل قبضے کی جانب بڑھتاہے تویہ استعماری تسلط کی ایک شکل ہوگی اوراسرائیلی اقدام کی حیثیت غیرقانونی تصورکی جائے گی۔بین الاقوامی فوجداری عدالت اوراقوام متحدہ کی سابقہ رپورٹس میں بھی غزہ میں اسرائیلی اقدامات کوممکنہ ’’جنگی جرائم‘‘ اور ’’اجتماعی سزا‘‘کے زمرے میں رکھاگیاہے۔اقوام متحدہ نے اس سے قبل مغربی کنارے میں بستیوں کوغیرقانونی قراردیاہے۔غزہ میں بھی ایسا قبضہ قانونی طورپر تسلیم نہیں کیاجائے گا۔
جنگ بندی کی کوششوں کے باوجود اسرائیل کی جانب سے غزہ پرحملے جاری رکھنانیتن یاہوکی ایک سیاسی وعسکری مکارانہ حکمت عملی کاحصہ ہے۔نیتن یاہوسیاسی دباؤ، کرپشن کے مقدمات،داخلی احتجاج ،دائیں بازوکے دبائو اور عدالتی الزامات کے پس منظر میں سےنمٹنے کیلئےجنگ کوطول دیناچاہتا ہے۔نیتن یاہوگزشتہ کئی برسوں سے سیاسی دباؤ کا سامنا کررہا ہے،جن میں کرپشن کے الزامات، احتجاجی مظاہرے اورداخلی اختلافات شامل ہیں۔ جنگ کوجاری رکھ کراس نے ان مسائل سے توجہ ہٹائی ہے۔اندرونی دبائو سے بچنے کیلئے نیتن یاہو نے جنگ کوسیاسی ڈھال بنالیا ہے۔اس کے حامیوں اوردائیں بازوکے حلقوں میں یہ تاثر پھیلایا جارہاہے کہ جب تک حماس کومکمل طورپر نیست ونابودنہ کیاجائے،امن ممکن نہیں۔
نیتن یاہواپنے انتخابی بیانیے کومضبوط کرنے اورجاری مقدمات سے جان چھڑانے کیلئے اسرائیلی عوام کوحماس کاخطرہ بتاکرقوم کوایک مشترکہ دشمن کے خلاف متحد کرکے احتجاجی تحریکوں کوخاموش کرناچاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہوکے بیانات میں بار بارایسے الفاظ ملتےہیں جیسے ہماری اولین ترجیح حماس کومکمل ختم کرنا،غزہ کوغیرمسلح کرنا اور اپنے مقاصد کی کامیابی کیلئے ہم فتح تک لڑیں گے۔یہ بیانیہ عوامی جذبات کوابھارنے اور سیاسی حمایت برقراررکھنے کی کوشش ہے،چاہے اس کی عسکری حقیقت کچھ بھی ہو۔ اس کے بیانات اور اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ حماس کی مکمل شکست کواپنی سیاسی بقاسے جوڑچکا ہےاورجنگ کومزیدطویل کرتے ہوئےاسے ممکنہ سیاسی کامیابی کے طور پر دیکھتا ہے۔حماس کے قبضے میں موجود یرغمالی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔
یرغمالیوں کی رہائی اورحماس کی فوجی شکست ۔ تاہم،دونوں مقاصدایک دوسرے سے متصادم ہیں۔حماس یرغمالیوں کی رہائی کو اسرائیلی فوج کے انخلاسے مشروط کرتاہے،جبکہ نیتن یاہوفوجی دبائو بڑھاکرحماس کوکمزورکرناچاہتے ہیں۔ اس کشمکش کانقصان غزہ کے شہریوں کو ہورہا ہے۔اسرائیل کی داخلی سیاست میں نیتن یاہو پر دائیں بازوکے گروہوں کا دباؤ بھی ہے،جوغزہ پر مکمل کنٹرول کے بغیرکوئی سمجھوتہ قبول کرنے کو تیارنہیں۔
ادھردوسری طرف بین الاقوامی دبائو کے تحت امریکی حکومت کی جانب سے ایک نیاامن منصوبہ پیش کیاگیاہے،جس میں غزہ کے بعدازجنگ نظم ونسق کیلئے فلسطینی اتھارٹی کومضبوط کرنےکی بات کی گئی ہے۔امریکاچاہتاہےکہ جنگ کے بعدغزہ کانظم ونسق فلسطینی اتھارٹی کے حوالے ہو۔دوریاستی حل کودوبارہ زندہ کیاجائے لیکن اسرائیل اس منصوبے سے متفق نہیں، تاہم اسرائیلی اقدامات اس منصوبے کی نفی کرتے ہیں،کیونکہ وہ غزہ میں مستقل فوجی موجودگی اورمستقل کنٹرول چاہتے ہیں،جوامریکی تجویز کے برعکس ہے۔
امریکا،یورپی یونین اوراقوام متحدہ کی جانب سے جنگ بندی کی اپیلوں کے باوجودنیتن یاہوکی حکومت کارویہ سخت گیررہاہے۔اس کی دووجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلی وجہ وہ موجودہ جنگ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کررہاہے،جنگ جاری رکھ کر تنقید کو’’غداری‘‘کےمترادف قراردیکر اسرائیلی عوام کواپنے حق میں برانگیختہ کرکے ان کی حمائت حاصل کرنے کی کوششیں کررہا ہے، لیکن اس میں کامیابی نظر نہیں آرہی۔دوسراوہ فوجی برتری کے یقین سے سمجھتاہے کہ عسکری دباؤسے حماس کوگھٹنے ٹیکنے پرمجبورکیاجا سکتا ہے لیکن یاد رکھیں:
یہ حکمت عملی وقتی طورپرمفیدہوسکتی ہے،لیکن یہ اسرائیل کوعالمی سطح پر تنہا کر رہی ہے۔ جہاں انسانی بحران کوشدت بخش رہی ہے وہاں نیتن یاہوکی موجودہ پالیسیوں سے یرغمالیوں کی واپسی کو مشکل تربنارہی ہے۔تقریبا100کے قریب اسرائیلی یرغمالی ابھی بھی حماس کے قبضے میں ہیں۔ اسرائیلی عوام میں انکی واپسی کا دباؤ شدید ہے۔
(جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بین الاقوامی اسرائیل نے کرنے کی حماس کو

پڑھیں:

غزہ : سڑک کنارے نصب بم دھماکے میں 3 اسرائیلی فوجی ہلاک، 2 زخمی

اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ شمالی غزہ کے جبلیہ علاقے میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں اُس کے 3 فوجی مارے گئے جبکہ 2 زخمی ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ دھماکا اُس وقت ہوا جب اسرائیلی فوجیوں کی ایک گاڑی غزہ میں داخل ہونے کے لیے وہاں سے گزر رہی تھی۔
اسرائیلی فوج کے اہلکار غزہ میں ایک جلتی ہوئی بکتر گاڑی کو بجھانے کے لیے جانے والے فائر انجن کو تحفظ فراہم کرنے گئے تھے لیکن واپسی پر خود نشانہ بن گئے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ دھماکا بارودی سرنگ تھا اور اُسی راستے پر تقریباً 20 مزید بم برآمد کیے جو پھٹنے سے رہ گئے تھے۔
بیان میں مزید کہا گیا  کہ اس بات کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہے کہ عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوج کے قافلے کے راستے کا کیسے پتا لگایا اور بم کب نصب کیے۔
سڑک کنارے نصب بم کے دھماکے میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی شناخت اسٹاف سارجنٹ 20 سالہ لیور اسٹین برگ، اسٹاف سارجنٹ 20 سالہ اوفک برہانہ اور اسٹاف سارجنٹ 22 سالہ عمر وان گیلڈر کے ناموں سے ہوئی۔
خیال رہے کہ رواں برس مارچ میں جنگ بندی کے خاتمے کے بعد غزہ میں اسرائیلی فوج کا یہ سب سے بڑا جانی نقصان ہے۔
غزہ میں حماس کے ساتھ دوبدو جنگ اور سرحدی تصادموں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 423 ہوگئی۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو امریکا نے ویٹو کر دیا
  • حماس کیساتھ جھڑپ میں ایک اور اسرائیلی فوجی ہلاک؛ تعداد 4 ہوگئی، 6 زخمی
  • خان یونس: بے گھر فلسطینیوں کے خیمے پر اسرائیلی حملہ، کم از کم 12 ہلاک
  • محمد السنوار کی شہادت کے بعد حماس کا نیا سربراہ کون ہوسکتا ہے؟
  • غزہ : سڑک کنارے نصب بم دھماکے میں 3 اسرائیلی فوجی ہلاک، 2 زخمی
  • جنگ بندی کی ضمانتوں کے بغیر اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہیں کریں گے، حماس
  • جنگ بندی کی ضمانتوں کے بغیر اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہیں کرینگے، حماس کا اعلان
  • غزہ، امدادی مرکز کے قریب حملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ
  • غزہ میں امداد لینے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے، اقوام متحدہ کی شدید مذمت