پاکستانیوں کے لیے جرمنی جانا آسان، مگر کیسے؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
اگر آپ پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ شینگن ویزا چاہتے ہیں تو اس حوالے سے سب سے آسان ملک جرمنی ثابت ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جرمنی میں اعلیٰ معیاری تعلیم کے 10 پرکشش شعبے کون سے ہیں؟
یورپ جانے کی منصوبہ بندی کرنے والے پاکستانیوں کے لیے جرمنی وہ شینگن ملک ہے جو سنہ 2024 میں ویزا کی منظوری کے لحاظ سے سب سے آسان اور سازگار مقام کے طور پر ابھرا ہے۔
شینگن ویزا کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستانی شہریوں نے گزشتہ سال 78,362 ویزا درخواستیں جمع کروائیں جو کہ سنہ 2023 کے مقابلے میں 9.
مزید پڑھیے: جرمنی میں 4 لاکھ ملازمتیں، ویزا کیسے اپلائی کریں؟
جرمنی سب سے پسندیدہ ملک تھا جہاں پاکستانی باشندوں کی جانب سے 20،570 درخواستیں موصول ہوئیں۔ اس کی منظوری کی شرح بھی سب سے زیادہ یعنی 68.31 فیصد تھی جو اسے پاکستانی درخواست دہندگان کے لیے سب سے کامیاب منزل بناتی ہے۔ اس طرح جرمنی نے سال 2024 میں پاکستانیوں کے لیے 14،051 ویزوں کی منظوری دی۔
مجموعی طور پر پاکستانی باشندوں کو مختلف ممالک میں 38,892 شینگن ویزا دیئے گئے۔ سب سے کم درخواستیں یعنی صرف 215 سویڈن کے لیے جمع کرائی گئیں۔
مزید پڑھیں: جرمنی: ’آئی ٹی بی برلن 2025‘ شو میں ’پاکستان پویلین‘ میں خاص کیا تھا؟
حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ سنہ 2024 میں پاکستانی درخواست دہندگان کے مسترد ہونے کی شرح میں بھی بہتری آئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستانی پاسپورٹ پر جرمنی جائیں جرمنی کا ویزا جرمنی کا ویزا آسان چلو جرمنی شینگن ممالک شینگن ویزاذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستانی پاسپورٹ پر جرمنی جائیں جرمنی کا ویزا جرمنی کا ویزا ا سان چلو جرمنی شینگن ممالک شینگن ویزا شینگن ویزا کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-19
عمان/برلن( مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘غزہ پلان’ کے تحت جنگ بندی کے بعد علاقے میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی تجاویز پراردن اور جرمنی، نے واضح کیا ہے کہ اس فورس کی کامیابی اور قانونی حیثیت کے لیے اسے لازماً اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔ عالمی میڈیا کے مطابق، امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ “ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔تاہم، اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا۔ الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزرخارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نہ صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘۔واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔