WE News:
2025-11-03@13:27:49 GMT

تھامی سولیکلی: باکمال وکٹ کیپر کی المیہ داستان

اشاعت کی تاریخ: 8th, June 2025 GMT

جنوبی افریقہ کے وکٹ کیپر بیٹر ہینرک کلاسن کے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائر ہونے کی خبر نظر سے گزری تو اس ملک سے تعلق رکھنے والے ایک بدقسمت سیاہ فام وکٹ کیپر تھامی سولیکلی کا نام ذہن میں آیا جو نسلی تعصب کی وجہ سے بین الاقوامی کرکٹ میں اپنے جوہر نہ دکھا سکے تھے۔

کرکٹ کے سفر میں ایک وقت میں وہ ڈگر سے ہٹ کر کلرکی کرنے لگے، لیکن لائنز فرنچائز سے وابستگی نے انہیں دوبارہ سے پٹڑی پر چڑھا دیا اور انہوں نے وکٹ کے پیچھے اور آگے رہ کر کامیابیاں سمیٹیں۔

انگریزی کا ایک لفظ ہے prodigy، یہ ان غیر معمولی افراد کے لیے برتا جاتا ہے جن کی کسی میدان میں صلاحیتوں کا بھرپور اظہار بچپن اور لڑکپن کے زمانے سے ہونے لگے۔ اس لفظ کی بہترین ترجمانی اردو کی اس ضرب المثل سے ہو سکتی ہے:

ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات

تھامی سولیکلی اسی کینڈے کے کرکٹر تھے۔ کیپ ٹاؤن میں اسکول کی سطح پر کرکٹ میں انہوں نے بیٹر کی حیثیت سے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے، جن میں سے کئی ریکارڈ کچھ ہی سال پہلے جیک کیلس نے اپنے نام کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:چائے کے اشتہار میں علامہ اقبال اور کے ایل سہگل

تھامی سولیکلی ایسے فطری اتھلیٹ تھے جو کسی بھی  کھیل میں کامیاب ہوسکتے تھے۔ بچپن میں فٹبال اچھی کھیلتے تھے۔ ہاکی میں ان کی ہنرمندی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جنوبی افریقہ کی نمائندگی کی لیکن پھر انہوں نے کرکٹ کو اپنی تگ و تاز کا میدان بنا لیا۔

 سن 2000 میں فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز کیا اور اگلے ہی برس وہ جنوبی افریقہ کی انڈر 19 ٹیم کے کپتان بن گئے۔ اس سے اگلا پڑاؤ  اے ٹیم میں شمولیت تھی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب جنوبی افریقہ کی ٹیم میں وکٹ کیپر کے طور پر مارک باؤچر اپنی مستقل جگہ بنا چکے تھے۔ 1997 میں شیخوپورہ میں پاکستان کے خلاف اپنے پہلے ٹیسٹ سے لے کر 75 ویں ٹیسٹ تک وہ مسلسل ٹیم کا حصہ رہے۔

 سن 2004 میں تھامی سولیکلی کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کا دروازہ کھلا جو 3 ٹیسٹ میچوں کے بعد بند ہوگیا۔ اس وقت کسے خیال تھا کہ یہ دروازہ ان کے لیے دوبارہ نہیں کھلے گا۔ اس کے بعد مارک باؤچر نے مزید 72 ٹیسٹ میچوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کی اور 147 ٹیسٹ کھیل کر ریٹائر ہوئے۔ یہ کسی بھی وکٹ کیپر کا سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں شرکت کا ریکارڈ ہے۔

 جنوبی افریقہ کی طرف سے دوبارہ کھیلنے کی تمنا سولیکلی کے دل میں تروتازہ رہی اور وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اور اے ٹیم کی طرف سے وکٹ کیپنگ اور بلے بازی میں عمدہ کارکردگی دکھاتے رہے جس کے بعد یہ طے ہو گیا تھا کہ مارک باؤچر کے جانشین وہی ہوں گے ۔اس بات کی تصدیق سلیکٹروں کے نیشنل کنوینر اینڈریو ہڈسن نے بھی کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:علاؤالدین مظہر: سہگل سے عشق کا ایک فراموش باب

 2012 میں مارک باؤچر کے ریٹائر ہونے کا مرحلہ آن پہنچا تو اس وقت  سولیکلی فرسٹ کلاس کرکٹ کی بھٹی میں کندن ہو گئے تھے۔  عمدہ وکٹ کیپر تو تھے ہی اب ان کا بلا بھی مسلسل رنز اگلنے لگا تھا۔ 2009-2010 کے سیزن میں انہوں نے 58.

10 کی اوسط سے رنز بنائے تھے اور 2011/2012 میں ان کی اوسط 53 رہی تھی۔ اس سے پہلے 2010 میں  انہوں نے بنگلہ دیش اے کے خلاف مسلسل 2 سنچریاں بھی بنائی تھیں۔ 2011 میں سولیکلی نے جنوبی افریقہ اے کی طرف سے کھیلتے ہوئے آسٹریلیا کی مضبوط باؤلنگ  کے خلاف خراب پچ کے باوجود عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا تھا۔

2012  میں دورہ انگلینڈ کے لیے ریزرو وکٹ کیپر کے طور پر ان کا انتخاب ہوا۔ باؤچر کی یہ آخری ٹیسٹ سیریز تھی جس کے بعد سولیکلی ہی ان کی جگہ فطری انتخاب تھے۔ انہیں اس سے پہلے سینٹرل کنٹریکٹ بھی مل چکا تھا ۔

 انگلینڈ میں سمرسٹ کے خلاف وارم اپ میچ میں عمران طاہر کی گیند پر بیلز ہوا میں اڑیں تو ایک مارک باؤچر کی بائیں آنکھ میں جا لگی جس کی وجہ سے انہیں فوراً کرکٹ چھوڑنی پڑی۔ اب سولیکلی کی 8 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی یقینی نظر آ رہی تھی۔ دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے وہ آن پہنچا تھا۔ لیکن انہیں یہ موقع نہیں دیا گیا۔ کپتان گریم اسمتھ اور کوچ گیری کرسٹن اور ٹور سلیکٹر نے وکٹ کیپنگ کی ذمہ داری اے بی ڈیویلیئرز کو سونپ دی اور اس کے اعلان سے پہلے کرسٹن نے باقی سلیکٹروں سے مشورہ کرنا بھی گوارا  نہ کیا۔ انگلینڈ کے بعد دورہ آسٹریلیا میں سولیکلی ٹیم کے ساتھ رہے لیکن انہیں میدان میں اترنے کا موقع نہیں ملا۔ اس زیادتی پر وہ چپ رہے اور اچھے سمے کا انتظار کرتے رہے۔

اس موقعے پر ٹیسٹ کرکٹ میں 390 وکٹیں لینے والے جنوبی افریقہ کے سیاہ فام  فاسٹ بولر میکھایا نتینی نے ان کے حق میں آواز بلند کی اور سولیکلی  کی ٹیم میں عدم شمولیت کو نسلی امتیاز کا شاخسانہ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں:ہندوستان میں بنیاد پرستوں کے عزائم بروقت بھانپنے والے لکھاری

نتینی کا کہنا تھا کہ سولیکلی اگر گورے ہوتے تو ٹیم میں کھیل رہے ہوتے۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ جنوبی افریقہ کی کرکٹ میں واپسی کے 20 سال بعد بھی آخر ایک ہی سیاہ فام کھلاڑی ٹیم کا حصہ کیوں ہے؟ اس وقت سولیکلی ٹیم میں واپسی سے ناامید نہیں ہوئے تھے، اس لیے انہوں نے اپنے بہی خواہ کی ہاں میں ہاں ملانے سے گریز کیا اور اس تنازع میں پڑنے سے  بچنے کی راہ اپنائی۔

 ہڈسن نے انہیں نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں موقع  دینے کا وعدہ کیا جو وفا نہ ہو سکا اور سولیکلی  ٹیم سے ڈراپ ہو گئے اور جس آس کی ڈوری سے وہ کئی سال سے بندھے تھے وہ بالآخر ٹوٹ گئی۔

کرکٹ میں نسلی تعصب کے اس قصے کا تذکرہ میں نے پہلی دفعہ اسٹیفن زیمنسکی اور ٹم وگمور کی کتاب ‘کرکونومکس، دی اناٹومی آف ماڈرن کرکٹ’ میں پڑھا تھا اور اس مضمون کی بنیاد اس کتاب سے اٹھائی ہے۔ اس کے مصنفین نے یہ سوال  اٹھایا تھا کہ مارک باؤچر کی ریٹائرمنٹ سے 2 سال پہلے ہی جنوبی افریقہ کی ٹیم میں سولیکلی کی شمولیت کا کیس مضبوط تھا کیوں کہ باؤچر نے آخری 15 ٹیسٹ میچوں میں 22.23 کی اوسط سے رنز بنائے تھے جس میں ان کی صرف 2 نصف سنچریاں شامل تھیں، اس لیے وہ ان کے ٹیم میں ٹکے رہنے کے دوسرے عوامل کی طرف توجہ دلاتے ہیں:

’اور اس تمام عرصے میں، ان  کی سینیارٹی اور نسلی تفوق کی بدولت، اور شاید کپتان اسمتھ سے ان کے قریبی تعلقات کی وجہ سے، ٹیسٹ کرکٹ میں ساتویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے ان کی موزونیت پر کبھی کوئی سوال نہیں اٹھا‘۔

کرکٹ میں کپتان کو آمرانہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں ، اس لیے وہ انصاف پسند نہ ہو تو کھلاڑیوں کا کیریئر تباہ کر سکتا ہے۔ ایسی مثالوں سے کرکٹ کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ اسمتھ مضبوط کپتان تھے اور ان کے دور میں ٹیم کی کارکردگی نے ان کی قوت میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ انگلینڈ  میں سیریز میں کامیابی کے بعد جنوبی افریقہ ٹیسٹ کی نمبر ون ٹیم بن گئی تھی جس کے بعد اس نے آسٹریلیا میں بھی ٹیسٹ سیریز جیت لی۔ فتح مندی کے اس نشے میں غریب سولیکلی کے بارے میں سوچنے کی فرصت کسے ہوتی۔

اسمتھ کو ٹیم کے سینئیر کھلاڑیوں کا اعتماد بھی حاصل تھا۔ ہرشل گبز نے اپنی آپ بیتی ’ٹو دی پوائنٹ‘ میں لکھا ہے کہ اسمتھ طاقتور کپتان تھے اور چار کا ٹولہ جس میں اسمتھ، باؤچر، کیلس اور  ڈیویلیئرز شامل تھے، جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کو کنٹرول کرتا تھا۔

 2020 میں میکھایا نتینی اور ایشول پرنس نے اپنے ساتھ امتیازی سلوک پر دل کے پھپھولے پھوڑے تو سولیکلی نے بھی اپنے دکھڑے بیان کیے اور اپنے ساتھ زیادتی پر گریم اسمتھ  کو کٹہرے میں کھڑا کرکے سوالات اٹھائے اور  کھلاڑیوں کی شکایات پر ان کی حیرانی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس لیے ہے کہ وہ نسل پرستی کو اس ملک میں معمول کی بات سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی میں اپنی ناکامی کی وجہ نسلی تعصب کو قرار دیا۔

 سولیکلی کی یہ کہانی ایک سیاہ فام کرکٹر سے ناانصافی کے بارے میں بتاتی ہے جس پر بہت سے لوگوں نے آواز اٹھائی لیکن کسی نے  اپنی غلطی تسلیم نہیں کی اور بس اپنے دفاع میں دلائل تراشے۔

کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد اسمتھ ڈائریکٹر آف کرکٹ کی اہم پوزیشن پر متمکن رہے۔ اسی زمانے میں مارک باؤچر کو لیول فور کی کوچنگ کا تجربہ نہ ہونے کے باوجود  قومی ٹیم کا کوچ مقرر کیا۔ اس پوسٹ کے لیے اشتہار دینے سے بھی گریز کیا گیا۔ اس دوست نوازی پر اسمتھ پر تنقید بھی ہوتی رہی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس عمل سے بھی سیاہ فام کوالیفائیڈ کوچ اینوخ  اینکوے کی حق تلفی ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:میلہ چراغاں پر صفدر میر کیوں یاد آتے ہیں؟

نیرنگی زمانہ ہے کہ اسمتھ اور مارک باؤچر نے کرکٹ چھوڑنے کے بعد بھی بڑے منصب حاصل کیے اور دوسری طرف قسمت کے ہیٹے سولیکلی پر 2015  میں ریم سلام چیلنج میں میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگ گئی۔  یہ وہ گڑھا تھا جو انہوں نے اپنے لیے خود کھودا جس سے نکلنا کسی طور ممکن نہیں ہوتا۔  پہلے وہ مظلوم کرکٹر کے طور پر جانے  جاتے تھے  لیکن اب انہوں نے خود سے یہ رسوائی وابستہ کرلی جو ان کے لیے ہمیشہ باعثِ ننگ  رہے گی۔

اس مشکل وقت اور برے حالوں میں جس کھلاڑی نے ان سے مسلسل رابطہ رکھ کر انہیں زندگی کی طرف واپس لانے کی کوشش کی وہ ٹیمبا باووما ہیں جو کیپ ٹاؤن میں انہی کے علاقے لانگا سے تعلق رکھتے ہیں اور کھلاڑی کی حیثیت سے ان کی بلندی اور میچ فکسنگ کے بعد ان کی پستی کے عینی شاہد ہیں۔

3 سال پہلے سولیکلی سے ملاقات کے بعد انہوں نے ’نیوز 24‘  کو بتایا کہ سولیکلی جانتے ہیں انہوں نے جو کیا وہ کرکٹ کی روح کے منافی تھا اور انہیں اس پر پچھتاوا ہے۔ باووما نے کہا کہ اب وہ جس حالت میں ہیں اس میں انہیں دیکھنا اندوہناک ہے  اور وہ جب بھی لانگا جائیں ان سے ملنے کی کوشش  کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لانگا  میں سولیکلی  کی حیثیت ایک متاثر کن شخصیت کی رہی ہے، اس لیے ان کے نام سے وابستہ تمام تر منفیت کے باوجود علاقے کے لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

اسمتھ تھامی سولیکلی ٹیمبا باووما جنوبی افریقہ سولیکلی کرکٹ مارک باؤچر میکھایا نتینی ہرشل گبز

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسمتھ ٹیمبا باووما جنوبی افریقہ کرکٹ جنوبی افریقہ کی ٹیسٹ کرکٹ میں یہ بھی پڑھیں ٹیسٹ میچوں میں واپسی کی وجہ سے وکٹ کیپر سیاہ فام انہوں نے نے اپنے کرکٹ کی کے خلاف ٹیم میں کی طرف تھا کہ کے لیے کے بعد کی اور اس لیے اور اس

پڑھیں:

پاکستان کرکٹ زندہ باد

کراچی:

’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ 

اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔ 

اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔ 

تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟

بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔

اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔ 

ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔ 

البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟

ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔ 

اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔

یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟

مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔ 

پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔ 

یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟

پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔ 

خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔

میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟

ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟

ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • معرکہ 1948، گلگت بلتستان کی آزادی کی داستان شجاعت غازی حوالدار بیکو کی زبانی
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • تمام ایم ڈی کیٹ ٹاپ پوزیشن ہولڈرز کا ڈاؤ یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کرنے کا عزم
  • آئی بی اے سکھر: ایم ڈی کیٹ 2025ء کے ٹیسٹ کے حتمی نتائج کا اعلان
  • آئی بی اے سکھر کا ایم ڈی کیٹ 2025ء کے ٹیسٹ کے حتمی نتائج کا اعلان
  • آئی بی اےسکھر ، ایم ڈی کیٹ 2025 ٹیسٹ کے حتمی نتائج کا اعلان
  • ایم ڈی کیٹ رزلٹ میں کراچی کے طلبہ نے میدان مار لیا، 41 بچے ٹاپ 10 میں شامل
  • ایم ڈی کیٹ کے ٹیسٹ میں کراچی کے بچے بازی لے گئے  
  • توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ،عدالت عظمیٰ
  • الفاشر کا المیہ