بھارت کی یکطرفہ کارروائیاں ایٹمی خطے کو عدم استحکام کی طرف لے جا رہی ہیں، بلاول بھٹو
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
بلاول بھٹو زرداری نے برطانیہ سے اپیل کی کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے خاتمے اور جامع و بامقصد مذاکرات کے آغاز کے لیے اپنا کردار ادا کرے، خصوصاً جموں و کشمیر جیسے دیرینہ مسئلے کے حل میں جو خطے میں پائیدار امن کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت کی یکطرفہ کارروائیاں ایٹمی خطے کو عدم استحکام کی طرف لے جا رہی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کی حالیہ فوجی اشتعال انگیزیوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کو عالمی برادری کے سامنے اجاگر کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت میں برطانیہ کا اہم دورہ کیا۔
دورے کے دوران برطانوی ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری عہدیداروں سے اہم ملاقاتیں کی گئیں جن کا مقصد جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کے لیے سفارتی کوششوں کو تیز کرنا تھا۔
پاکستانی وفد کا برطانوی پارلیمنٹ میں رکن پارلیمنٹ یاسمین قریشی نے گرم جوشی سے استقبال کیا۔ بعد ازاں وفد نے برطانوی پارلیمانی انڈر سیکرٹری برائے مشرق وسطیٰ، افغانستان و پاکستان ہیماش فالکنر سے خصوصی ملاقات کی۔
مزید پڑھیں:پانی کو ہتھیار بنانے کی روایت بننے نہیں دیں گے، پانی روکنا اعلان جنگ تصور ہوگا، بلاول بھٹو کا اسکائی نیوز کو انٹرویو
ملاقات کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے 22 اپریل 2025 کو پہلگام حملے اور اس کے بعد بھارت کی جانب سے اختیار کیے گئے فوجی اقدامات کے تناظر میں خطے کی سیکیورٹی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے پاکستان پر عائد کیے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان الزامات کی کوئی تحقیقات یا شواہد موجود نہیں۔
بلاول نے بھارت کی یکطرفہ فوجی کارروائیوں کی شدید مذمت کی، جن میں عام شہریوں پر حملے، پاکستانی شہریوں کی شہادت، بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور سندھ طاس معاہدے کی غیرقانونی معطلی شامل ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ان اقدامات سے پورا خطہ غیر مستحکم ہو سکتا ہے اور جوہری ہتھیاروں سے لیس اس خطے میں امن کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
If India and Pakistan are to talk about peace, we must address the issue of Kashmir.
— PPP (@MediaCellPPP) June 9, 2025
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے طاقت، یکطرفہ اقدامات اور عدم احتساب پر مبنی ‘نیا معمول’ مسلط کرنے کی کوششیں خطرناک ہیں اور ان کا تدارک ضروری ہے۔ انہوں نے سندھ طاس معاہدے کی فوری بحالی پر بھی زور دیا اور کہا کہ بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی معطلی 24 کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے لیے پانی کی سلامتی کے براہِ راست خطرے کے مترادف ہے۔
بلاول نے کہا کہ پانی کو ہتھیار بنانا بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور بھارت کو جواب دہ ٹھہرانا چاہیے۔
مزید پڑھیں:امریکا کو پاک بھارت جامع مذاکرات میں کردار ادا کرنا ہوگا، بلاول بھٹو زرداری
برطانوی انڈر سیکرٹری ہیماش فالکنر نے اشتعال انگیزیوں کے باوجود پاکستان کے تحمل کو سراہا اور خطے میں امن اور مذاکرات کے فروغ کے لیے پاکستان کے عزم کی تحسین کی۔ انہوں نے برطانیہ کی اس پالیسی کا اعادہ کیا کہ تمام تنازعات کا حل سفارت کاری کے ذریعے ہونا چاہیے اور برطانیہ خطے میں استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
پاکستانی وفد نے معروف تھنک ٹینک انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز (IISS) کے خصوصی سیشن میں بھی شرکت کی، جہاں بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کے جارحانہ رویے پر پاکستان کے خدشات پیش کیے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے منشور کے تحت پاکستان کے دفاعِ خودی کے حق کا اعادہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستان ہمیشہ سفارتی ذرائع سے امن کے لیے کوشاں رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اشتعال انگیزیوں کے باوجود ذمہ دارانہ طرز عمل پر کاربند ہے۔ ہم تباہی نہیں، مکالمے پر یقین رکھتے ہیں۔
وفد میں وفاقی وزیر ڈاکٹر مصدق ملک، سینیٹر شیری رحمٰن، سابق وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر، سابق وزیر دفاع خرم دستگیر خان، سینیٹر فیصل سبزواری، سینیٹر بشریٰ انجم بٹ، سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ شامل تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایٹمی خطرہ برطانیہ بلاول بھٹو بھارت پاکستان مودی سرکارذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایٹمی خطرہ برطانیہ بلاول بھٹو بھارت پاکستان مودی سرکار بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کی جانب سے پاکستان کے انہوں نے نے بھارت کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
امریکہ میں سفارتکاری: بلاول بمقابلہ بینظیر بھٹو،ا یک تجز یہ
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) تجز یہ نگا ر نسیم حیدر کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کٹھن ترین اوقات میں سے ایک میں بھارت کے خلاف انتہائی مؤثرانداز سے پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کے بعد اب برطانیہ اور یورپ کےدورے پر ہیں۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق یہاں سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر بے نظیربھٹو اس مشن پر ہوتیں تو کیا وہ اس سے بھی زیادہ پراثرانداز اپناتیں یا ذوالفقار علی بھٹو اس چیلنجنگ لمحے پر مغربی ممالک کا دورہ کرتے تو بھارت کا کیا حشر کرتے؟
سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا شہید بے نظیر بھٹو یا شہید ذوالفقار علی بھٹو سے موازانہ کرنا لاکھ قبل ازوقت سہی مگر میرے ذہن میں اس کا خیال آنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
وہ وجہ یہ کہ اگست 2007 میں جب میں نے بے نظیر بھٹو کا جیونیوز کے لیے تاریخی انٹرویو کیا تھا اس وقت لڑکپن میں داخل بلاول بھٹو پڑھنے کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی جارہے تھے۔بے نظیر بھٹو نے مجھے بتایا تھا کہ بلاول کے لیے انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں وہ کمرہ ریزرو کرایا ہے جہاں بلاول کے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو اپنے زمانہ طالب علمی میں رہے تھے۔ یعنی بھٹو خاندان ان چند سیاسی خاندانوں میں سے ایک ہے جہاں روایات کا اس درجے تک لحاظ رکھا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو 2022 اور2023 کےدرمیان مختصر عرصے کے لیے وزیر خارجہ رہے ہیں۔ وہ تاحال نہ تو بےنظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ملک کے وزیراعظم بنے ہیں اور نہ ہی ان تجربات سے گزرے ہیں جن سے ان کی والدہ اور نانا گزرے تھے، تاہم کہا جاتا ہے کہ بچے کے پاؤں پالنے میں نظرآتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے پیپلزپارٹی کے کئی سینئر رہنماؤں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر آج بے نظیر ہوتیں تو پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کا انداز کتنا مختلف ہوتا۔
یہ بات مسلمہ ہے کہ شخصیات کا موازنہ کرنے سے بڑی حد تک گریز کیا جانا چاہیے، خاص طور پر عالمی امور میں سفارتکاری کا مرحلہ ہو اور وہ بھی ایک ایسی جنگ کے بعد جس میں دو ایٹمی طاقتوں نے میزائلوں سے شہروں پر حملے کیے ہوں تو نتائج اخذ کرنا غیر ذمہ دارانہ ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو کو اپنا مقدمہ ایسے ممالک میں پیش کرنے کا چیلنج درپیش ہے جن کا بھارت چہیتا بنا ہوا ہے۔
یہ 1980 کی دہائی یا 1990 کی دہائی کا اوائل نہیں جب سوویت یونین کے خلاف امریکہ اور مغربی ممالک کو بھارت سے زیادہ پاکستان کی ضرورت تھی۔ یہ 2000 کی دہائی بھی نہیں جب امریکہ پر طیارہ حملوں کےبعد بُش انتظامیہ نے افغانستان کو سزاوار ٹھہرا کر ملاعمر حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانا تھی اوریہ پاکستان کے بغیر انتہائی دشوار تھا۔
حالیہ پاک بھارت جنگ ایسے وقت ہوئی ہے جب افغانستان سے انخلا کے بعد بہت سے تجزیہ کاروں کے مطابق، امریکہ نے پاکستان کو ایک بار پھر دہشتگردی بھگتنے کے لیے بڑی حد تک اس کے حال پرچھوڑا ہوا ہے۔ یہ تاریخ کا وہ لمحہ بھی ہے جب چین سے دفاعی، معاشی، سیاسی تعلقات اور عوامی رابطے بڑھا کر پاکستان متوازن خارجہ پالیسی اپنانے کی کوششوں میں تیزی لارہا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ خطے میں چین کے قدم مضبوط ہونا مغربی ممالک کے لیے ناگوار ترین شے ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ پاکستان نے پچھلے ایک عشرے میں روس سے بھی تعلقات میں بہتری پیدا کی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر ٹرمپ اب بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا جائز کریڈٹ لے رہے ہیں تاہم پہلگام واقعے کے بعد مغربی ممالک کو بھارت کی جنونی کیفیت کے اثرات پر قائل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ اس کا اندازہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس بیان سے بھی کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے پہلگام واقعے کے بعد پیدا کشیدگی کے عین موقع پر دیا تھا۔
ائیرفورس ون میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا تھا کہ کشمیر میں حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ہے تو کیا آپ ان ممالک کو کوئی پیغام دیں گے یا ان ممالک کے رہنماؤں سے بات کریں گے؟ صدرٹرمپ نے برملا کہا تھا کہ وہ دونوں ملکوں کے لیڈروں کو جانتے ہیں تاہم پاک بھارت رہنماؤں سے رابطہ کرنے سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریزکیا تھا۔
بات کرتے ہوئے صدرٹرمپ تاریخ میں بھی گڑبڑ کر گئے تھے، پاکستان اوربھارت کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں ممالک کشمیر پر ایک ہزار سال سے لڑ رہے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ ایک ہزار سال سے چل رہا ہے شاید اس سے بھی زیادہ عرصے سےچل رہا ہے اور یہ بری صورتحال ہے۔ طیارے میں موجود مغربی صحافیوں میں سے بھی کسی نے غلطی درست نہیں کی کہ مسئلہ کشمیر 1947 میں غلط تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا، ڈیڑھ ہزار سال پہلے نہیں۔
ایک صحافی نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ آیا آپ کو تشویش ہے کہ دونوں ملکوں کی سرحدوں پر تناؤ ہے جس پر صدر ٹرمپ نے دہرایا تھا کہ اُس سرحد پر 1500سال سے کشیدگی ہے۔ مگر وہ کسی نہ کسی طرح سے مسئلہ کا حل نکال لیں گے۔ مجھے اس بارے میں یقین ہے۔
بھارت نے پہلگام واقعے کے بعد پاکستان کے شہروں پر طیاروں سے میزائل حملے کرکے کیا حل نکالا، یہ دنیا نے دیکھا۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مغربی ممالک سمجھتے تھے کہ بھارت جارحیت پراترا تو پاکستان کی کانپیں ٹانگ جائیں گی اور یہ ملک کبھی سراٹھا کرکھڑا نہیں ہوسکےگا۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پاکستان کو چھپا رستم ثابت کیا، بھارت کوناکوں چنے چبوا کر ناگ رگڑوائی اورجنگ بندی پرمجبور کردیا۔
اس پس منظر کو دیکھیں تو پاکستان کے نسبتاً قریب سمجھے جانیوالے مشرق کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرنا آسان ہے تاہم امریکہ سمیت مغربی ممالک کو قائل کرنا کئی گنا کٹھن مرحلہ ہے۔ اسی لیے بلاول بھٹو کی قیادت میں امریکا، برطانیہ اور یورپ جانے والے مشن کی اہمیت زیادہ واضح ہوتی ہے۔
امریکہ میں سفارتکاری کی نوعیت پردعمل میں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیربھٹو کے قریب سمجھے جانیوالے پیپلزپارٹی کے کئی رہنماوں نے برجستہ کہا کہ بلاول بھٹو سفارتی میدان میں درحقیقت بےنظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
ایک انتہائی سینئر اور بے لاگ مؤقف بیان کرنیوالے پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ آپ سابق وزرا خارجہ کا بلاول بھٹو سے موازانہ کرلیں،حقیقت خود روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی۔ انہوں نے نام لے کر کہا کہ گوہر ایوب ہوں، سردار آصف علی ،خواجہ آصف، حنا ربانی کھر یا شاہ محمود قریشی ہوں، اپنے ادوار میں انہوں نے بھی سفارتکاری کی مگر ان میں سے کوئی بھی بلاول بھٹو کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔ یہی وجہ تھی کہ بلاول کو اس وفد کی قیادت سونپی گئی۔ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ بلاول بھٹو نسبتاً نوجوان اور سیاست میں کم تجربہ رکھتے ہیں۔ ان رہنما کے مطابق یہ بلاول نہیں بھٹو کا خون بولتا ہے۔
بےنظیربھٹو کے دست راست اور صدر زرداری کے سابق ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بلاول بھٹو درحقیقت بی بی کا نعم البدل ہیں۔موقف بیان کرنے میں ان کے الفاظ کا چناؤ، انداز تخاطب اور بات کرنے کا سلیقہ اس بات کا اظہار ہے کہ وہ کس کمال مہارت سے سفارتکاری انجام دے رہے ہیں۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس نازک ترین لمحے میں بلاول بھٹو نے انتہائی غیر معمولی طورپر شاندارپرفارمنس سے پاکستان کا نام روشن کیا ہے اور دنیا نے بھٹو کی وراثت دیکھی ہے۔
سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ بلاول بھٹو نے اپنی والدہ کی کمی پورا کردی، نانا کی طرح دو ٹوک انداز میں پاکستان کا مقدمہ لڑا اور مغربی ممالک کو باور کرایا ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے جبکہ بھارت بلااشتعال جارحیت پر اترا ہوا ہے۔ بلاول کے دورہ امریکہ سے واضح ہے کہ انہیں بہت کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ وقار مہدی کے بقول بلاول بھٹو میں آخر بے نظیر اور ذوالفقار علی بھٹو کی روح ہے، وہ پوری طرح جھلکتی نظرآئی۔
جو لوگ بے نظیربھٹو سے ملےہیں، وہ کہتے ہیں کہ 36 سال کے بلاول بھٹو کا موازانہ دو بار وزیراعظم اور مؤثر ترین اپوزیشن لیڈر رہنے والی بے نظیر بھٹو سے کرنا قبل ازوقت ہوگا۔ جو شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ رہے ہیں جن کی سفارتکاری کا ڈنکا دنیا میں بجتا تھا اور اقوام متحدہ میں ان کے ادا کیے ہوئے الفاظ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں گونجتے ہیں، وہ کہتےہیں تدبر کی ان منازل تک پہنچنے کے لیے عشق کے امتحان ابھی اوربھی ہیں۔
70 اور 80 کی دہائی میں قدم رکھنے والے یہ جیالےکہتے ہیں کہ بلاول کی سفارتکاری دیکھ کران کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو اور ذہنوں میں یہ شعر آتا ہے کہ
کبھی تو سوچنا تم نے یہ کیا کیا لوگو
یہ تم نے کس کو سر دار کھو دیا لوگو
’’اس بڑھاپے میں ڈانس کروانا ظلم ہے‘‘، ماہرہ خان اور ہمایوں سعید کا ردعمل وائرل
مزید :