لاس اینجلس میں رپورٹنگ کے دوران آسٹریلوی صحافی ربڑ کی گولی لگنے سے زخمی
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
آسٹریلوی چینل9 سے وابستہ صحافی لورین توماسی لاس اینجلس میں رونما ہنگاموں کی رپورٹنگ کے دوران ربڑ کی گولی لگنے سے زخمی ہو گئیں، انہیں گولی لگنے کی ویڈیو چشم زدن میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔
فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آسٹریلوی رپورٹر توماسی کیمرے کا سامنا کرتے ہوئے اچانک درد سے چھلانگ لگاتی ہیں، جب ایک قانون نافذ کرنے والے اہلکار کیمرے کی طرف رخ کر کے فائر کرتا ہے اور گولی ان کی ٹانگ پر جا لگتی ہے۔
ABD polisi, Los Angeles'taki protestoları anlatan Avustralyalı muhabir Lauren Tomasi'yi plastik mermiyle bacağından vurdu.
— TRT HABER (@trthaber) June 9, 2025
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب لاس اینجلس میں امیگریشن چھاپوں کے خلاف مظاہرے تیسرے روز بھی جاری تھے، مظاہرین نے کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی جبکہ لوٹ مار کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
واقعے کی ویڈیو میں ایک پولیس اہلکار کو کیمرہ آپریٹر اور توماسی کی سمت نشانہ لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، لورین توماسی نے بتایا کہ ان کی پنڈلی پر گولی لگنے سے تکلیف دہ چوٹ آئی اور متاثرہ حصہ شدید سوجن کا شکار ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:لاس اینجلس مظاہرے، نیشنل گارڈز کے بعد 700 میرینز بھی تعینات، بغاوت کا خطرہ ہے، ٹرمپ
اسی طرح ایک برطانوی فوٹوگرافر کو بھی غیر مہلک گولی لگنے کے باعث ٹانگ پر چوٹ آئی، جس کے بعد ان کی ایمرجنسی سرجری کی گئی۔
گرینز پارٹی کی سینیٹر سارہ ہینسن یانگ نے آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آسٹریلوی صحافی کو لاس اینجلس میں مظاہروں کی رپورٹنگ کے دوران ربڑ کی گولی سے نشانہ بنانے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس واقعے پر جواب دہ بنائیں۔
مزید پڑھیں:
زخمی صحافی لورین توماسی نے میلبورن کے ریڈیو اسٹیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں واقعی بہت درد ہوا، یہ گولف بال جتنی بڑی گولیاں تھیں جو فائر کی گئیں۔ ’یہ کبھی کبھی اس پیشے کا حصہ ہوتا ہے، لیکن یہ ظاہر کرتا ہے کہ لاس اینجلیس میں صورتحال مکمل طور پر بے قابو ہو چکی ہے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: لاس اینجلس میں گولی لگنے
پڑھیں:
غزہ میں اب صحافی بھی بھوک سے مرنے لگے ہیں، عالمی نشریاتی ادارے اسرائیل پر برس پڑے
غزہ میں موجود عالمی نشریاتی اداروں نے اسرائیلی محاصرے کے باعث پیدا ہونے والی بھوک اور قحط پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وہاں صحافی گولیوں سے نہیں بلکہ بھوک سے مر رہے ہیں۔
برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ کے مطابق خبر رساں ادارے اے ایف پی، اے پی، بی بی سی اور رائٹرز سمیت کئی بین الاقوامی میڈیا اداروں نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں صحافی خوراک نہ ملنے کی وجہ سے فاقہ کشی کا شکار ہو چکے ہیں اور وہ اپنے اہلِ خانہ کے لیے بھی کھانے کا بندوبست کرنے کے قابل نہیں رہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ وہی صحافی ہیں جو گزشتہ کئی مہینوں سے میدانِ جنگ سے رپورٹنگ کر رہے ہیں اور دنیا کو غزہ کے حقیقی حالات سے باخبر رکھ رہے ہیں، لیکن اب خود زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر نے سوشل میڈیا پر پیغام دیا کہ ان کے جسم میں مزید کام کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ ادارے کے مطابق شدید بھوک، تھکن اور خطرناک حالات کے باعث رپورٹنگ ممکن نہیں رہی۔
اے ایف پی، بی بی سی اور دیگر اداروں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ صحافیوں کو غزہ سے نکالنے کی اجازت دی جائے اور انسانی بنیادوں پر فوری امداد پہنچائی جائے، تاکہ صحافت کی یہ آخری آوازیں بھی ختم نہ ہو جائیں۔
غزہ میں غیرملکی صحافیوں کے داخلے پر پابندی عائد ہے، اس لیے صرف مقامی فلسطینی صحافی ہی میدان جنگ سے براہ راست رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری ایکشن نہ لیا گیا تو یہ صحافی بھی بھوک سے دم توڑ دیں گے۔