واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 جون ۔2025 )امریکا نے عراقی دارالحکومت بغداد میں امریکی سفارت خانے اور تعینات فوج کے ”غیر ضروری“ عملے اور ان کے اہل خانہ کا جلد انخلا شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے حکام نے یہ تو نہیں بتایا کہ انخلا کے فیصلے کے پیچھے کیا وجہ ہے لیکن حالیہ دنوں میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات میں بظاہر کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی اس لیے مبصرین کے نزدیک یہ ممکنہ طور پر ایران پر حملوں کی پیش بندی کا اقدام ہے.

(جاری ہے)

امریکی ذرائع ابلاغ نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ عراق کے علاوہ کویت اور بحرین سمیت کچھ دیگر خلیجی ممالک میں بھی امریکا اپنے سفارتی عملے اور فوجی دستوں کے خاندانوں کو نکال رہا ہے رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ہم مسلسل اپنے مختلف سفارت خانوں میں موجود اپنے اہلکاروں کی موجودگی کا جائزہ لیتے رہتے ہیں ہمارے تازہ ترین تجزیے کے بعد ہم نے عراق میں اپنے مشن کی تعداد میں کمی کا فیصلہ کیا ہے.

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کئی ہفتے جاری رہے اور امریکی صدر ٹرمپ کو یہ امید تھی کہ وہ تہران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے معاہدہ کر پائیں گے . صدرٹرمپ نے گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا کہ وہ اس بارے میں اب کم پراعتماد ہیں کہ ایران یورینیم کی افزودگی روکے گا رواں ہفتے امریکی صدر نے اسرائیلی وزیرِ اعظم کو ایک 40 منٹ طویل کال کی جسے ”تناﺅ سے بھرپور“ قرار دیا گیا بنیامن نتن یاہو کا ایک عرصے سے موقف یہ رہا ہے کہ اس مسئلہ کا حل سفارتی نہیں بلکہ فوجی ہے جب ٹرمپ سے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک سے عملے کے انخلا کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں اس لیے نکالا جا رہا ہے کیونکہ یہ ایک خطرناک جگہ بن سکتی ہے، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے.

انہوں نے کہاکہ سفارتی عملے کو نکالنے کا نوٹس دے دیا ہے اور ہم اب دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے اب جبکہ جوہری مذاکرات ایک انتہائی اہم موڑ پر ہیں یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ کی جانب سے کیا گیا اعلان واقعی کسی خطرے کے خدشے کے باعث ہے یا یہ صرف ان کی جانب سے ایران کو پیغام دیا جا رہا ہے. ادھرایرانی وزیردفاع عزیز ناصرزادے کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے اور ٹرمپ نے ایران کے خلاف فوجی حملے کرنے کا حکم دیا تو ان کا ملک خطے میں امریکی اڈوں پر جوابی حملے کرے گا امریکہ کے وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے کویت اور بحرین سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک سے امریکی فوجی اہلکاروں کے خاندانوں کی انخلا کی اجازت دی تھی.

امریکی کانگریس کی ایک سماعت کے دوران پینٹاگون کی جانب سے کہا گیا کہ ان کا ماننا ہے کہ اس بارے میں متعدد اشارے موجود ہیں کہ ایران کچھ ایسا بنانے کی جانب بڑھ رہا ہے جو ایک جوہری ہتھیار جیسا ہو سکتا ہے. ایران کا موقف رہا ہے کہ اس کا افزودگی کا پروگرام سویلین توانائی کی پیداوار کے لیے ہے اور وہ ایٹمی بم بنانے کی کوشش نہیں کر رہا بدھ کو برطانیہ کی میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز نامی تنظیم جو رائل نیوی کا حصہ ہے نے ایک انتباہ جاری کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں فوجی تناﺅ میں اضافے کے باعث جہاز رانی متاثر ہو سکتی ہے جب امریکی عملے کے انخلا کی خبر نشر ہوئی تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں چار فیصد اضافہ ہوا امریکی محکمہ دفاع کے مطابق اس وقت عراق میں امریکہ کے 2500 فوجی موجود ہیں. 

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی جانب رہا ہے

پڑھیں:

عرب جذبے کے انتظار میں

اسلام ٹائمز: ماضی میں بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب بھی اسلامی ممالک نے آپس میں متحد ہو کر ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تو اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ مثال کے طور پر 1973ء میں ماہ مبارک رمضان کی جنگ میں مصر اور شام آپس میں متحد ہوئے اور انہوں نے مل کر اسرائیل کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں کینال سویز پر مصر کی رٹ بھی قائم ہوئی اور صیہونی رژیم کی جنگی مشینری بھی رک گئی۔ آج بھی خطے میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار ہوتے ہوئے ایک علاقائی فوجی اتحاد تشکیل پانا چاہیے تاکہ اس طرح اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت بھی بحال ہو اور ہر قسم کی جارحیت کا سدباب بھی کیا جا سکے۔ امریکہ کا مشہور تجزیہ کار جرج فریڈمین بھی کہتا ہے کہ اسرائیل مغربی ایشیا میں امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی ہے اور امریکہ ہر گز اس کے مقابلے میں عرب ممالک کو ترجیح نہیں دے گا۔ تحریر: سید رضا حسینی
 
دوحا شہر پر غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کے آثار ختم ہونے سے پہلے پہلے قطر کے حکمران تل ابیب کی فوجی مہم جوئی کی روک تھام کے لیے عرب اسلامی اتحاد کی اہمیت ہر وقت سے زیادہ محسوس کرنے لگے ہیں۔ آل ثانی خاندان نے امریکی فوجیوں کی میزبانی کر کے ان سے ہر قسم کی فوجی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی امیدیں لگا رکھی تھیں لیکن اسرائیلی حملے کے بعد اب انہوں نے اپنی پالیسی تبدیل کی ہے اور گروہی سلامتی کے اصول پر کاربند ہو چکے ہیں۔ اسی سلسلے میں قطر کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ پیر کے دن عرب اور اسلامی ممالک کا ہنگامی اجلاس دوحا میں منعقد کیا جائے گا جس میں قطر پر اسرائیلی جارحیت کا جائزہ لیا جائے گا اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مناسب راہ حل تلاش کیا جائے گا۔
 
خلیجی ریاستوں کی جانب سے قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے امریکہ کی فوجی طاقت پر اعتماد کرنے کا تجربہ ناکام ہو جانے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل علی لاریجانی نے ایکس پر اپنے ایک پیغام میں اس بات پر زور دیا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں منعقد ہونے والے عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں صرف زبانی کلامی حد تک اسرائیل کی مذمت نہ کی جائے ورنہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات جاری رہیں گے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں مزید لکھا: "صیہونی جنون کے مقابلے میں ایک مشترکہ آپریشن روم تشکیل پانا چاہیے۔" علی لاریجانی نے مزید لکھا: "یہی فیصلہ صیہونی رژیم کے مالک کو تشویش میں مبتلا کر دے گا اور وہ عالمی امن قائم کرنے اور نوبل انعام حاصل کرنے کی خاطر ہی سہی صیہونی رژیم کو ایسے مزید اقدامات انجام دینے سے روکے گا۔"
 
اتحاد یا نابودی
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مغربی ایشیا پر استعماری طاقتوں کے قبضے اور اثرورسوخ کے باعث عرب اسلامی ممالک اب تک گروہی تحفظ تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں جس کے باعث یہ خطہ عام طور پر مغربی اور مشرقی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کا میدان بنا رہا ہے۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے سینٹکام (مغربی ایشیا میں امریکہ کی مرکزی فوجی کمان) کے ذریعے خطے کی سلامتی یقینی بنانے کا نظریہ پیش کیا جو آج تک جاری تھا۔ عرب حکمرانوں کا تصور تھا کہ وہ امریکہ کو اپنے اپنے ملک میں فوجی اڈے بنانے کی اجازت دے کر اپنی قومی سلامتی بھی یقینی بنا سکتے ہیں اور یوں کمزور فوج اور فوجی طاقت کا بھی ازالہ کر سکتے ہیں۔ لیکن قطر کے دارالحکومت دوحا پر حالیہ اسرائیلی جارحیت نے انہیں غفلت کی نیند سے بیدار کر دیا ہے۔
 
آج عرب حکمرانوں پر واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ صرف اس وقت تک ان کا دفاع کرے گا جب تک اس کے اپنے مفادات اس بات کا تقاضا نہ کریں کہ عرب ممالک کی قومی سلامتی خطرے میں پڑے۔ لہذا جیسے ہی اسرائیل نے ایک عرب ملک کو فوجی جارحیت کا نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تو اس ملک میں موجود امریکہ کا جدید ترین میزائل دفاعی نظام خاموش تماشائی بنا رہا اور اسرائیلی میزائل اپنے مطلوبہ اہداف کو نشانہ بناتے رہے۔ وال اسٹریٹ جرنل اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے: "اسرائیلی میزائل بحیرہ احمر کے مشرقی ساحل سے اسرائیلی جنگی طیاروں کے ذریعے فائر کیے گئے تھے لہذا اسرائیل نے سعودی عرب کی فضائی حدود کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ سعودی عرب ایسا ملک ہے جو طوفان الاقصی آپریشن سے کچھ دن پہلے تک اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا۔ لہذا اسرائیل کے اقدامات نے خلیجی ریاستوں پر بھی اتحاد کی اہمیت واضح کر دی ہے۔"
 
دنیا کے مسلمانو متحد ہو جاو
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل علی لاریجانی نے جو وارننگ جاری کی ہے وہ منافقت اور اجنبی طاقتوں پر تکیہ ختم کر کے آپس میں متحد ہو جانے کی ضرورت پر مبنی ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے اسلامی ممالک کے متعدد اجلاس منعقد ہو چکے ہیں لیکن وہ غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ کے خلاف ظالمانہ محاصرہ ختم کرنے میں کیوں ناکامی کا شکار ہوئے ہیں؟ اس کی واحد وجہ اسلامی ممالک کا آپس میں متحد نہ ہونا اور اپنے دفاع اور سیکورٹی امور کے لیے اجنبی طاقتوں پر تکیہ کرنا ہے۔ اسلامی ممالک اور اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت کا ایک ہی راز ہے اور وہ خطے کی سطح پر دفاعی اتحاد اور اداروں کی تشکیل ہے۔ صرف اسی صورت میں اسرائیل کی سرکش اور وحشی صیہونی رژیم کو بھی لگام دیا جا سکتا ہے۔
 
ماضی میں بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب بھی اسلامی ممالک نے آپس میں متحد ہو کر ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تو اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ مثال کے طور پر 1973ء میں ماہ مبارک رمضان کی جنگ میں مصر اور شام آپس میں متحد ہوئے اور انہوں نے مل کر اسرائیل کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں کینال سویز پر مصر کی رٹ بھی قائم ہوئی اور صیہونی رژیم کی جنگی مشینری بھی رک گئی۔ آج بھی خطے میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار ہوتے ہوئے ایک علاقائی فوجی اتحاد تشکیل پانا چاہیے تاکہ اس طرح اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت بھی بحال ہو اور ہر قسم کی جارحیت کا سدباب بھی کیا جا سکے۔ امریکہ کا مشہور تجزیہ کار جرج فریڈمین بھی کہتا ہے کہ اسرائیل مغربی ایشیا میں امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی ہے اور امریکہ ہر گز اس کے مقابلے میں عرب ممالک کو ترجیح نہیں دے گا۔

متعلقہ مضامین

  • نیو یارک ڈیکلریشن: اسرائیل کی سفارتی تنہائی؟؟
  • امریکا کا بڑا اقدام: ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد
  • امریکا کی  ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں ، افراد اور کمپنیوں کی فہرست جاری
  • امریکا نے ایران پر مزید پابندیاں لگا دیں،افراد اور کمپنیوں کی فہرست جاری
  • خلیجی ممالک میں سے کسی ایک پر حملہ‘ سب پر حملہ تصور ہوگا‘ اعلامیہ جاری
  • امریکا نے ایران کے مالیاتی نیٹ ورک پر نئی پابندیاں عائد کردیں 
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ
  • قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا
  • عرب جذبے کے انتظار میں
  • کیچ، گاڑی پر دھماکہ، فوجی افسر سمیت 5 اہلکار جانبحق