وطنِ عزیز میں نظامِ مصطفیٰ ﷺ کی جدوجہد
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کے فیصلوں میں طاقت کا توازن نہیں ہے، جن پانچ ممالک کے پاس مستقل طور پر ویٹو پاور ہے ان میں سے ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ مہاتیر محمد نے کہا تھا کہ میں اس کی قیادت کرتا ہوں، تم بائیکاٹ کے لیے تیار ہو جاؤ، ہم مذاکرات کی میز پر ان سے بات کریں گے، لیکن مسلم ممالک نے اس کا حوصلہ نہیں کیا تھا۔
میں آپ سے یہ عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں نفاذِ اسلام میں مولوی رکاوٹ نہیں ہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور بین الاقوامی معاہدات رکاوٹ ہیں۔ اور نفاذِ شریعت کی لڑائی یہاں مظفر آباد میں نہیں ہو رہی بلکہ نیویارک اور جنیوا میں ہو رہی ہے۔ یہ ایک تفصیلی موضوع ہے جس پر میں نے چند گزارشات پیش کی ہیں۔
آج کے ماحول میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ میرے خیال میں ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں:
(۱) ایک یہ کہ قوم کو ان مسائل پر باخبر رکھیں، اور یہ نظامِ مصطفٰیؐ اور شریعت کے قوانین کے حوالے سے علماء کرام کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے، کیونکہ بے خبری سب سے بڑی ناکامی ہوتی ہے۔
(۲) اور دوسری بات یہ کہ ہم آپس میں متحد رہیں، اور میں پھر یاد دلانا چاہوں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا علماء نے متفقہ موقف نہ دیا ہو، ختمِ نبوت کا مسئلہ ہو، ناموسِ رسالت کا مسئلہ ہو، شرعی قوانین کے حوالے سے کوئی بات چلی ہو، علماء ہمیشہ اکٹھے ہوتے ہیں، گزشتہ پچاس سال سے میں اس جدوجہد میں شریک ہوں اور اس کا گواہ ہوں، الحمد للہ۔
اور میں تو علماء کو یہ ترغیب دیا کرتا ہوں کہ اگر علاقے کے تیس چالیس علماء کبھی کبھی چائے کے نام پر اکٹھے بیٹھے لوگوں کو نظر آجائیں تو سمجھیں کہ آپ کا پچاس فیصد کام ہو گیا ہے۔ الحمد للہ گوجرانوالہ میں مقامی سطح پر ہمارا معمول بھی یہی ہے۔ میری درخواست یہ ہے کہ معاملات سے باخبر رہیں کیونکہ بے خبری ناکامی کی بڑی بنیاد ہوتی ہے، اور آپس میں جوڑ رکھیں، اور میری عوام سے بھی درخواست ہوتی ہے کہ علماء کو اکٹھے دیکھ کر خوش ہوا کریں اور کبھی کبھی خود آگے بڑھ کر انہیں اکٹھے بٹھایا کریں اورا ن کی حوصلہ افزائی کیا کریں۔ وحدت اور باخبری، آج ہمارے پاس یہی ہتھیار ہیں، انہیں استعمال کریں گے تو کم از کم کھلے کفر کو ہم روک سکتے ہیں، بلکہ الحمد للہ ہم روکے ہوئے ہیں، اور کبھی نفاذ کی منزل بھی آ جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
میں نے چند ٹوٹی پھوٹی چند باتوں کے ذریعے آپ حضرات کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور صورتحال سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ایک بات اور میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نفاذِ اسلام کے حوالے سے آزاد کشمیر کو بہرحال ترجیح حاصل ہے۔ مجھے اندرون و بیرون ملک جہاں کہیں بھی نفاذِ شریعت پر بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو میں کہا کرتا ہوں کہ ہمیں آزاد کشمیر کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
نفاذِ اسلام کے دو راستے ہیں: ایک یہ ہے کہ پہلے سے موجود نظام کو ختم کر کے نیا نظام نافذ کیا جائے، یہ راستہ افغانوں نے اختیار کیا ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ پہلے سے موجود نظام کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی جائے، اور آزادکشمیر نے یہی کیا ہے کہ سیشن جج کے ساتھ قاضی صاحب کو بٹھا دیا ہے اور دونوں شرعی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر فیصلے جاری کرتے ہیں۔ میں اس تجربے سے اچھی طرح واقف ہوں بلکہ میں سردار عبد القیوم خان اور حضرت مولانا محمد یوسف آف پلندری رحمہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشاورت میں کسی حد تک شریک بھی رہا ہوں۔
میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ آپ ہم سے ایک قدم آگے ہیں کہ آپ نے ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے شریعت کے بہت سے قوانین کے نفاذ کا ماحول بنایا ہوا ہے۔ ایک دفعہ برطانیہ میں بات چل پڑی، پروٹسٹنٹ بشپ ہیں ڈاکٹر روون ولیمز، انہوں نے برطانیہ میں مسلمانوں کے اس حق کی حمایت کی کہ انہیں نکاح و طلاق اور حلال و حرام کے مسائل میں اپنی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس پر لندن میں ایک سیمینار ہوا اور سوال اٹھایا گیا کہ یہ کیسے ہو گا اور پہلے سے موجود سسٹم کے ساتھ یہ کس طرح ایڈجسٹ ہو سکے گا؟ میں نے وہاں عرض کیا کہ ایسے ہی جیسے آزاد کشمیر میں ایڈجسٹمنٹ ہوئی ہے کہ جج بھی بیٹھے ہیں اور قاضی بھی بیٹھے ہیں۔ چنانچہ آپ کے اس نظام کو میں مثال کے طور پر پیش کیا کرتا ہوں، اور میں آپ سے گزارش کروں گا کہ اس کو مستحکم کریں اور نئی نسل میں شعور پیدا کریں، انہیں تیار کریں اور بتائیں کہ ہمارے بزرگوں نے کیا قربانیاں دی ہیں، کیا طریق کار اختیار کیا ہے، اور اس کے تقاضے کیا ہیں۔ اللہ پاک ہمیں خیر کے کاموں پر استقامت نصیب فرمائیں اور اپنے خیر کے کام نئی نسل تک صحیح طور سے منتقل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: الحمد للہ کرتا ہوں کریں اور اور میں کے ساتھ کیا ہے ہوں کہ
پڑھیں:
پاکستان میں اگلے سال بچوں کے کینسر کی مفت ادویات کی فراہمی کے لیے منتخب کیا جانا ایک اہم سنگِ میل ہے،وفاقی وزیر سید مصطفیٰ کمال
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 جون2025ء) وفاقی وزیر برائے قومی صحت سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ پاکستان میں اگلے سال بچوں کے کینسر کی مفت ادویات کی فراہمی کے لیے منتخب کیا جانا ایک اہم سنگِ میل ہے۔اس مقصد کے لیے گلوبل پلیٹ فارم فار ایکسیس ٹو چائلڈ ہُڈ کینسر میڈیسنز سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گلوبل پلیٹ فارم فار ایکسیس ٹو چائلڈ ہُڈ کینسر میڈیسنز کے وفد سے ملاقات کے دوران کیا ۔انہون نے کہا یہ میرے لیے باعثِ فخر ہے کہ پاکستان کو 2025 کے اس پروگرام میں منتخب کیا گیا ہے ۔پاکستان میں اگلے سال بچوں کے کینسر کی مفت ادویات کی فراہمی کے لیے منتخب کیا جانا ایک اہم سنگِ میل ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اس کامیاب انتخاب پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔(جاری ہے)
پاکستان میں ہر سال 8000 سے زائد بچوں میں کینسر کی تشخیص ہوتی ہے۔
پاکستان میں ادویات کی دستیابی نہ ہونے کے باعث کافی بچے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔کینسر کے شکار بچوں کو بروقت اور مؤثر علاج کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے۔جی پی اے سی سی ایم کے ذریعے پاکستان عالمی وسائل سے فائدہ اٹھا کر مقامی چیلنجز پر قابو پا سکتا ہے۔وفد میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ہیڈکوارٹر اور سینٹ جوڈ چلڈرنز ریسرچ ہسپتال سے تعلق رکھنے والے اراکین بھی شامل تھے۔