Daily Ausaf:
2025-09-18@23:26:57 GMT

وطنِ عزیز میں نظامِ مصطفیٰ ﷺ کی جدوجہد

اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کے فیصلوں میں طاقت کا توازن نہیں ہے، جن پانچ ممالک کے پاس مستقل طور پر ویٹو پاور ہے ان میں سے ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ مہاتیر محمد نے کہا تھا کہ میں اس کی قیادت کرتا ہوں، تم بائیکاٹ کے لیے تیار ہو جاؤ، ہم مذاکرات کی میز پر ان سے بات کریں گے، لیکن مسلم ممالک نے اس کا حوصلہ نہیں کیا تھا۔
میں آپ سے یہ عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں نفاذِ اسلام میں مولوی رکاوٹ نہیں ہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور بین الاقوامی معاہدات رکاوٹ ہیں۔ اور نفاذِ شریعت کی لڑائی یہاں مظفر آباد میں نہیں ہو رہی بلکہ نیویارک اور جنیوا میں ہو رہی ہے۔ یہ ایک تفصیلی موضوع ہے جس پر میں نے چند گزارشات پیش کی ہیں۔
آج کے ماحول میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ میرے خیال میں ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں:
(۱) ایک یہ کہ قوم کو ان مسائل پر باخبر رکھیں، اور یہ نظامِ مصطفٰیؐ اور شریعت کے قوانین کے حوالے سے علماء کرام کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے، کیونکہ بے خبری سب سے بڑی ناکامی ہوتی ہے۔
(۲) اور دوسری بات یہ کہ ہم آپس میں متحد رہیں، اور میں پھر یاد دلانا چاہوں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا علماء نے متفقہ موقف نہ دیا ہو، ختمِ نبوت کا مسئلہ ہو، ناموسِ رسالت کا مسئلہ ہو، شرعی قوانین کے حوالے سے کوئی بات چلی ہو، علماء ہمیشہ اکٹھے ہوتے ہیں، گزشتہ پچاس سال سے میں اس جدوجہد میں شریک ہوں اور اس کا گواہ ہوں، الحمد للہ۔
اور میں تو علماء کو یہ ترغیب دیا کرتا ہوں کہ اگر علاقے کے تیس چالیس علماء کبھی کبھی چائے کے نام پر اکٹھے بیٹھے لوگوں کو نظر آجائیں تو سمجھیں کہ آپ کا پچاس فیصد کام ہو گیا ہے۔ الحمد للہ گوجرانوالہ میں مقامی سطح پر ہمارا معمول بھی یہی ہے۔ میری درخواست یہ ہے کہ معاملات سے باخبر رہیں کیونکہ بے خبری ناکامی کی بڑی بنیاد ہوتی ہے، اور آپس میں جوڑ رکھیں، اور میری عوام سے بھی درخواست ہوتی ہے کہ علماء کو اکٹھے دیکھ کر خوش ہوا کریں اور کبھی کبھی خود آگے بڑھ کر انہیں اکٹھے بٹھایا کریں اورا ن کی حوصلہ افزائی کیا کریں۔ وحدت اور باخبری، آج ہمارے پاس یہی ہتھیار ہیں، انہیں استعمال کریں گے تو کم از کم کھلے کفر کو ہم روک سکتے ہیں، بلکہ الحمد للہ ہم روکے ہوئے ہیں، اور کبھی نفاذ کی منزل بھی آ جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
میں نے چند ٹوٹی پھوٹی چند باتوں کے ذریعے آپ حضرات کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور صورتحال سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ایک بات اور میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نفاذِ اسلام کے حوالے سے آزاد کشمیر کو بہرحال ترجیح حاصل ہے۔ مجھے اندرون و بیرون ملک جہاں کہیں بھی نفاذِ شریعت پر بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو میں کہا کرتا ہوں کہ ہمیں آزاد کشمیر کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
نفاذِ اسلام کے دو راستے ہیں: ایک یہ ہے کہ پہلے سے موجود نظام کو ختم کر کے نیا نظام نافذ کیا جائے، یہ راستہ افغانوں نے اختیار کیا ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ پہلے سے موجود نظام کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی جائے، اور آزادکشمیر نے یہی کیا ہے کہ سیشن جج کے ساتھ قاضی صاحب کو بٹھا دیا ہے اور دونوں شرعی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر فیصلے جاری کرتے ہیں۔ میں اس تجربے سے اچھی طرح واقف ہوں بلکہ میں سردار عبد القیوم خان اور حضرت مولانا محمد یوسف آف پلندری رحمہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشاورت میں کسی حد تک شریک بھی رہا ہوں۔
میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ آپ ہم سے ایک قدم آگے ہیں کہ آپ نے ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے شریعت کے بہت سے قوانین کے نفاذ کا ماحول بنایا ہوا ہے۔ ایک دفعہ برطانیہ میں بات چل پڑی، پروٹسٹنٹ بشپ ہیں ڈاکٹر روون ولیمز، انہوں نے برطانیہ میں مسلمانوں کے اس حق کی حمایت کی کہ انہیں نکاح و طلاق اور حلال و حرام کے مسائل میں اپنی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس پر لندن میں ایک سیمینار ہوا اور سوال اٹھایا گیا کہ یہ کیسے ہو گا اور پہلے سے موجود سسٹم کے ساتھ یہ کس طرح ایڈجسٹ ہو سکے گا؟ میں نے وہاں عرض کیا کہ ایسے ہی جیسے آزاد کشمیر میں ایڈجسٹمنٹ ہوئی ہے کہ جج بھی بیٹھے ہیں اور قاضی بھی بیٹھے ہیں۔ چنانچہ آپ کے اس نظام کو میں مثال کے طور پر پیش کیا کرتا ہوں، اور میں آپ سے گزارش کروں گا کہ اس کو مستحکم کریں اور نئی نسل میں شعور پیدا کریں، انہیں تیار کریں اور بتائیں کہ ہمارے بزرگوں نے کیا قربانیاں دی ہیں، کیا طریق کار اختیار کیا ہے، اور اس کے تقاضے کیا ہیں۔ اللہ پاک ہمیں خیر کے کاموں پر استقامت نصیب فرمائیں اور اپنے خیر کے کام نئی نسل تک صحیح طور سے منتقل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: الحمد للہ کرتا ہوں کریں اور اور میں کے ساتھ کیا ہے ہوں کہ

پڑھیں:

بہادر اور جری حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ 89 سال کی عمر میں انتقال کر گئے

آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین اور جدوجہدِ آزادیٔ کشمیر کے معروف رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ آج شام اپنے گھر سوپور میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 89 سالہ عبدالغنی بٹ کا تعلق شمالی کشمیر کے بُوٹینگو گاؤں سے تھا، جو سوپور سے تقریباً 10 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔

اس عظیم رہنما نے سری پرتّاپ کالج سری نگر سے فارسی، اکنامکس اور سیاسیات میں تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی میں ماسٹرز اور قانون کی ڈگری بھی حاصل کی۔

ان کا شمار مُسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ عبدالغنی بٹ نے 1987 کے اسمبلی انتخابات میں بھی حصہ لیا۔

انتخابات کو بہت سے حلقوں میں دھاندلی زدہ قرار دیا گیا اور ان نتائج نے ہی سیاسی جدوجہد کو مسلح تحریک کی طرف مائل ہونے میں مدد دی۔

جدوجہد آزادی کشمیر کی میں عبدالغنی کی لگن، محنت اور صعوبتیں برداشت کرنے کے عزم مصمم کے باعث آل پارٹیز حرِیت کانفرنس کے چیئرمین بھی بنے۔

انہوں نے مسلم کانفرنس، جموں و کشمیر کی سربراہی بھی کی، جسے بھارت کی حکومت نے ممنوع قرار دیا ہوا تھا۔

اس تنظیم کا بنیادی موقف کشمیر میں بھارت کے ناجائز قبضے اور کٹھ پتلی انتظامیہ کے نظام کو تسلیم نہ کرنا تھا۔

ان کی تنظیم کا نعرہ مقبوضہ کشمیر کا حق خود ارادیت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کی کوشش کرنا رہا ہے۔

کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف انہوں نے دن رات ایک کردیئے جس کی پاداش میں قید و نظربندی کی صعوبتیں برداشت کیں۔

وہ طویل عرصے نقاہت اور عمر رسیدگی سے جڑے امراض میں مبتلا تھے اور آج لاکھوں چاہنے والے سوگواروں اور اپنے نظریاتی ساتھیوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔

 

متعلقہ مضامین

  • چیئرمین گلبرگ ٹاؤن نصرت اللہ کا محمدی کالونی عزیز آباد کا دورہ
  • پشاور، آئی ایس او کے زیراہتمام یومِ مصطفیٰ (ص)
  • پشاور، آئی ایس او کے زیراہتمام سالانہ یومِ مصطفیٰ (ص) کا انعقاد
  • ڈریپ کو ایک بین الاقوامی معیار کی ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کیلئے پر پرعزم ہیں،وزیر صحت مصطفی کمال
  • مساوی اجرت کی جدوجہد، کھیلوں میں خواتین اب بھی پیچھے
  • بہادر اور جری حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ 89 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
  • ارض کشمیر جنت نظیر کے عظم فرزند غنی بھٹ قضائے الٰہی سے وفات پا گئے
  • حکومت صحت کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے پرعزم ہے،سید مصطفی کمال
  • کسانوں پر زرعی ٹیکس کے نفاذ پر اسپیکر پنجاب اسمبلی برہم
  • وزیرصحت نے سرویکل کینسرسے بچاؤ کی ویکسین کیخلاف پروپیگنڈا مہم کو مسترد کر دیا