data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نبی کریمؐ کے قول و فعل سے بھی یہ ثابت ہے کہ شوریٰ قانون بھی ہے اور حکمت عملی بھی ہے۔ سیدنا ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب شوریٰ کا حکم آیا تو نبی اکرمؐ نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول‘ اگرچہ مشورہ کرنے سے بے نیاز ہیں مگر مشورے کا یہ حکم اس لیے ہے تاکہ اُمت کے لیے رحمت کا باعث ہو۔ اُمت کا جو فرد رائے اور مشورہ طلب کرے گا کبھی اعلیٰ درجے کی رہنمائی سے محروم نہ ہوگا اور جو مشورے کو ترک کرے گا وہ کبھی بھی مشکلات سے نہ نکلے گا (بیہقی فی شعب الایمان)۔
سیدنا قتادہؓ کی رائے میں آپؐ کو وحی نازل ہونے کے باوجود‘ اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ لوگوں کے دل مطمئن ہوجائیں اور شوریٰ اُمت کے لیے قانون بن جائے (روایت ابن جریر)۔
سیدنا حسنؓ کی روایت سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ شوریٰ کے حکم کا مقصد یہ تھا کہ اس میں صحابہؓ کے لیے قانونی جواز پیدا ہوجائے اور بعد میں اُمت کے لیے ایک مستقل حکمت عملی بن جائے (فتح الباری)۔
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسولؐ نے فرمایا: جس شخص سے اس کے مسلمان بھائی نے (اپنے کسی معاملے میں) مشورہ طلب کیا ہو اور اس نے اُس کے مفاد کے خلاف مشورہ دیا تو اس نے اپنے بھائی سے خیانت کی (الادب المفرد)۔
رسولؐ نے صحابہ کرامؓ کو جہاں اجتہاد کا حکم دیا وہاں مشورے کا بھی حکم دیا۔ آپؐ کا ذاتی معمول بھی یہی تھا کہ تمام معاملات میں صحابہ کرامؓ سے اجتماعی اور انفرادی مشورہ لیتے تھے۔
ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: عقل مند سے مشورہ کرو‘ ہدایت پائو گے اور اس کی نافرمانی مت کرو‘ کہیں نادم نہ ہونا پڑے (الدرالمنثور)۔
سیدنا ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو اپنے رفقا سے مشورہ کرنے میں اتنا زیادہ سرگرم ہو جس قدر رسولؐ تھے (ترمذی، بخاری)۔
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جب تمھارے حکمران تم میں سے بہتر لوگ ہوں اور تمھارے دولت مند لوگ سخی ہوں اور تمھارے معاملات باہمی مشورے سے طے کیے جاتے ہوں تو زمین کی پیٹھ تمھارے لیے اس کے پیٹ سے بہتر ہے (ترمذی)۔
سیدہ عائشہؓ بھی فرماتی ہیں کہ میں نے لوگوں سے رائے لینے اور مشورہ کرنے میں رسولؐ سے بڑھ کر کوئی انسان نہیں دیکھا۔
سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپؐ نے مشورے کی اہمیت بیان کی اور فرمایا: اگر میں شوریٰ کے بغیر کسی کو خلیفہ بناتا تو اُم عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعودؓ) کو بناتا (مستدرک حاکم، ترمذی)۔
معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص موقع پر یہ نبیؐ کی ذاتی رائے تھی مگر آپؐ نے اس پر عمل نہیں کیا۔ آپؐ خود نامزد فرما سکتے تھے مگر آپؐ نے شوریٰ کے حق کو باقی رکھا۔
جنگِ بدر کے موقع پر اجتماعی مشورے کے بعد جنگ کے لیے میدان میں نکلے (مسلم)۔
جنگِ احزاب میں سیدنا سلمان فارسیؓ کے مشورے سے خندقیں کھدوائی گئیں (ابن سعد)۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر اِفک و بہتان کے سلسلے میں بھی آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ لیا‘ حالانکہ یہ آپؐ کا ذاتی اور گھریلو معاملہ تھا۔ آپؐ نے اپنی عائلی زندگی کے اس مخصوص معاملے میں بھی سیدنا علیؓ اور سیدنا اسامہؓ اور عام مسلمانوں سے بھی انفرادی طور پر مشورہ کیا اور ثابت فرمایا کہ زندگی کے ہر معاملے میں مشورہ مفید ہوتا ہے۔ آپؐ، ابوبکرؓ اور عمرؓ کے مشورے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ چنانچہ‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اگر ابوبکرؓ اور عمرؓ شوریٰ میں ایک رائے پر جمع ہوجائیں تو میں اس کے خلاف نہیں کروں گا (مظھری)۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
اسرائیل کے مذہبی پیشواؤں نے یہودیوں کو عبادت گاہوں میں نہ جانے کا مشورہ کیوں دیا؟
اسرائیل کے چیف ربی (یہودی مذہبی رہنما) کالمن بیر اور ڈیوڈ یوسف نے عوام سے کہا ہے کہ وہ ملک کی موجودہ صورت حال کے پیشِ نظر فوجی ہدایات پر مکمل عمل کریں اور کسی بھی قسم کے اجتماعات سے گریز کریں، چاہے وہ کھلی جگہ ہوں یا عمارتوں کے اندر۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ان پیشواؤں اپیل میں درپردہ یہ پیغام بھی ہے کہ لوگ اس ہفتے کے اختتام (شبات) پر عبادت کے لیے عبادت گاہوں (سیناگاگ) نہ جائیں۔
ربائیوں نے کہا کہ عوام پر لازم ہے کہ وہ ہوم فرنٹ کمانڈ کی تمام ہدایات پر ہر جگہ عمل کریں۔
یہ بھی پڑھیں:ایران-اسرائیل تصادم: تنازعات کو طاقت نہیں سفارت سے حل کیا جائے، روس
اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملوں کے بعد فوجی حکام نے تعلیمی سرگرمیاں، عوامی اجتماعات اور دفاتر پر پابندی لگا دی ہے، صرف ہنگامی اور ضروری سروسز کو اجازت دی گئی ہے۔ یہ پابندیاں ہفتے 14 جون رات 8 بجے تک جاری رہیں گی۔
اسی دوران سخت گیر مذہبی جماعت ‘شاس’ کی مذہبی قیادت نے بھی عوام سے کہا ہے کہ وہ خدا سے یہ دعا کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران چیف ربی سیناگاگ