اسرائیلی حملے کے بعد ایران نے نئی عسکری قیادت میدان میں اتار دی
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
اسرائیلی حملے کے بعد ایران نے نئی عسکری قیادت میدان میں اتار دی WhatsAppFacebookTwitter 0 13 June, 2025 سب نیوز
تہران:ایران میں اسرائیلی حملوں کے بعد اعلیٰ عسکری قیادت میں اہم تبدیلیاں سامنے آئی ہیں۔ سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے میجر جنرل عبدالرحیم موسوی کو ایرانی مسلح افواج کا نیا چیف آف اسٹاف مقرر کر دیا ہے۔
ایرانی خبر رساں ایجنسی “مہر نیوز” کے مطابق، موسوی اس سے قبل ایرانی فوج کے کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور انہیں ملکی سلامتی کی نازک صورتحال میں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
اسی حکم نامے کے تحت بریگیڈیئر جنرل محمد پاکپور کو پاسداران انقلاب کا نیا کمانڈر مقرر کر دیا گیا ہے۔ وہ اس سے قبل پاسدارانِ انقلاب کی زمینی فورسز کے کمانڈر تھے۔
میجر جنرل غلام علی راشد کی شہادت کے بعد، بریگیڈیئر جنرل علی شادمانی کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر انہیں خاتمالانبیاﷺ سینٹرل ہیڈکوارٹرز کا نیا کمانڈر تعینات کیا گیا ہے۔
یہ تعیناتیاں ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب اسرائیل نے حالیہ دنوں ایران کے جوہری اور عسکری ٹھکانوں پر بڑے حملے کیے ہیں، جن میں متعدد سینئر ایرانی عسکری شخصیات شہید ہوئیں۔
یہ نئی تقرریاں ایران کی جوابی حکمت عملی کا حصہ سمجھی جا رہی ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایران پر اسرائیلی حملے: پی آئی اے نے فلائٹ پلان تبدیل کردیا ایران پر اسرائیلی حملے: پی آئی اے نے فلائٹ پلان تبدیل کردیا چین کو ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد ممکنہ سنگین نتائج کے بارے میں گہری تشویش ہے، چینی وزارت خارجہ چینی صدر کا بھارت کے مسافر طیارے کے حادثے پر متعلقہ ممالک کے رہنماؤں سے اظہار تعزیت اقوامِ متحدہ، جنرل اسمبلی میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور پاکستان میں صرف 5 فیصد افراد نے ٹیکس دینا ہے وہ بھی نہیں دے رہے، چیئرمین ایف بی آر علیمہ، عظمیٰ کی درخواست منظور، بار بار ضمانتوں پر عدالت برہمCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اسرائیلی حملے کے بعد
پڑھیں:
مودی کیلیے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
امریکا نے ایرانی چابہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے بھارت کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا جس سے براہِ راست بھارت کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی بندرگاہ چابہار، جسے خطے میں تجارتی روابط اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے اعتبار سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئی۔
بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تھی۔
چابہار کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھارت کی رسائی کے لیے ٹریڈ کوریڈور کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کے راستے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
بھارت نے اب تک بندرگاہ اور ریل لنک کے منصوبے پر اربوں ڈالر لگائے ہیں جو پابندیوں پر استثنیٰ ختم ہونے کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔
چابہار کو بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے متبادل راستہ سمجھا جاتا تھا۔ پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چابہار میں پیش رفت رک گئی تو بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے دوبارہ پاکستان کے راستے یا دیگر مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد بھارتی کمپنیاں مالیاتی لین دین اور سامان کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر یورپی یونین یا روس کے ساتھ سہ فریقی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔
امریکا نے ماضی میں اس منصوبے کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری قرار دے کر ایران پر عائد بعض پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا تھا۔
تاہم اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے چابہار منصوبے کا استثنیٰ ختم کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیوں، خاص طور پر روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے کردار کے باعث نرمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدام کو "غیر قانونی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ چابہار ایک علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے جسے سیاسی دباؤ کی نذر کرنا خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے متبادل حکمتِ عملی اپنائے گا۔
تاحال بھارت کی جانب سے امریکی اقدام پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔