ایرانی حکومت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ انتقام اور دفاع ہمارا قانونی اور جائز حق اور ہمارے عوام ہر دور سے کہیں زیادہ متحد ہیں۔ اس بیان میں آیا ہے کہ صیہونی درندہ حکومت کو صرف طاقت کی زبان سمجھ میں آتی ہے اور ایران کی حکومت نے تمام دفاعی، سیاسی اور قانونی اقدامات کا سلسلہ شروع کردیا اور صیہونیوں پر نیند کو حرام کردیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ صیہونی جارحیت کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کا باضابطہ بیان جاری ہوا ہے۔ اس بیان میں بتایا گیا ہے کہ صیہونی حکومت نے رات کے اندھیرے میں ہمارے وطن پر جارحیت کی، جس کے نتیجے میں ہمارے متعدد شہری، فوجی جنرل اور سائنسدان شہید ہوئے اور یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ ناجائز صیہونی حکومت کسی بھی بین الاقوامی قاعدے اور قانون کی پابند نہیں ہے اور ایک پاگل جانور کی طرح دنیا کی اور انسانی اور بین الاقوامی حقوق کے دعوے داروں کی نظروں کے سامنے تمام بے شرمی کے ساتھ قاتلانہ حملے کرتا ہے اور جنگ کی آگ کو بھڑکاتا ہے۔

حکومت کے بیان میں آیا ہے کہ ایران سے جنگ چھیڑنا شیر کی دم سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اس بیان میں آیا ہے کہ صیہونی حکومت ایران کے منطق کے سامنے خوفزدہ تھی اور اسی لیے اس نے یہ جنگ چھیڑ دی۔ حکومت کے بیان میں آیا ہے کہ ہم نے گزشتہ 200 سال میں کوئی جنگ چھیڑی نہیں ہے لیکن اپنے ملک کے دفاع کے لیے ذرہ برابر پیچھے نہیں ہٹتے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے بیان میں آیا ہے کہ ایران کے مقدس آسمان پر صیہونیوں کی جارحیت نے ثابت کردیا کہ یہ ناجائز حکومت ایک دہشت گرد حکومت ہے۔

حکومت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ انتقام اور دفاع ہمارا قانونی اور جائز حق اور ہمارے عوام ہر دور سے کہیں زیادہ متحد ہیں۔ اس بیان میں آیا ہے کہ صیہونی درندہ حکومت کو صرف طاقت کی زبان سمجھ میں آتی ہے اور ایران کی حکومت نے تمام دفاعی، سیاسی اور قانونی اقدامات کا سلسلہ شروع کردیا اور صیہونیوں پر نیند کو حرام کردیں گے۔

حکومت کے بیان میں شہیدوں کے خون کا بدلہ لینے پر زور دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ہم عالمی سطح پر اپنی عزت اور وجود کا دفاع کریں گے لیکن عالمی اداروں کے منتظر بیٹھے نہیں رہیں گے اور باذن اللہ انتقام کا لمحہ قریب اور صیہونیوں کی رگ گردن سے زیادہ قریب ہے۔ اس بیان میں درج ہے کہ " یہ ایک قوم اور ایک حکومت کی آواز ہے جو دنیا کو گواہ ٹہرا رہی ہے کہ ہم نے جنگ کا آغاز نہیں کیا لیکن کہانی کا اختتام ایران کے ہاتھوں لکھا جائے گا۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میں آیا ہے کہ حکومت کے بیان میں ایران کی حکومت اس بیان میں گیا ہے کہ ہے اور

پڑھیں:

پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی،  اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔

جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے،  پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ  دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،

آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔

انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی،  وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے،  خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ  افغانستان ہمارا دشمن ہے  اور محمود غزنوی کو  لٹیرا  قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔

انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ  یہ کہنا کہ  ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے،  تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • صدر زرداری کل سے شروع ہونے والی دوحہ کانفرنس میں شرکت کرینگے
  • معیشت بہتر ہوتے ہی ٹیکس شرح‘ بجلی گیس کی قیمت کم کریں گے: احسن اقبال
  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • ایران اور امریکہ جوہری معاملے پر دوبارہ مذاکرات شروع کریں، بحرین
  • جوہری تنصیبات دوبارہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تعمیر کریں گے، ایرانی صدر کا اعلان
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے
  • قیدیوں کیساتھ صیہونی وزیر داخلہ کے نسل پرستانہ برتاو پر حماس اور جہاد اسلامی کا ردعمل
  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم