وفاقی بجٹ میں اعلیٰ تعلیم نظر انداز کرنے پر فپواسا کا ملک گیر احتجاج کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشنز (فپواسا) نے ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے، اس تحریک کا آغاز پیر 16 جون 2025ء کو یومِ سیاہ منانے سے ہو گا۔
17 جون کو پریس کلب کے سامنے پرامن احتجاج ہو گا اور 19 جون کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرے کیے جائیں گے، جو اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک اساتذہ کے جائز مطالبات پورے نہیں کیے جاتے۔
یہ فیصلہ فپواسا کی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر مظہر اقبال نے کی، جبکہ جنرل سیکریٹری فرید اچکزئی نے اجلاس کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔
اجلاس میں نائب صدر پروفیسر اختیار علی گھمرو سمیت فپواسا کے تمام چیپٹرز کے نمائندگان نے شرکت کی۔
اجلاس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ جامعات کے لیے مناسب مالی وسائل کے حصول اور اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے مفادات کے تحفظ میں مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اجلاس میں متفقہ طور پر وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 26-2025ء کے حالیہ بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو یکسر نظر انداز کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ وفاقی حکومت کی متعدد یقین دہانیوں کے باوجود ایک مرتبہ پھر جامعات کی سنگین مالی ضروریات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے سالانہ ریکرنگ گرانٹ 2018ء سے اب تک 65 ارب روپے پر جمود کا شکار ہے، حالانکہ اس دوران وفاقی بجٹ میں زبردست اضافہ ہوا ہے، جو 2018ء میں 5.
اجلاس میں بتایا گیا کہ اسی عرصے کے دوران سرکاری جامعات کی تعداد 126 سے بڑھ کر 156 ہو چکی ہے، جس سے مالی بوجھ میں زبردست اضافہ ہوا ہے جو تاحال حل طلب ہے، اس بحران کی سنگینی کی ایک بڑی وجہ صوبوں (سوائے سندھ کے) کی جانب سے جامعات کو خاطر خواہ مالی تعاون نہ دینا شامل ہے، جس کے نتیجے میں بیشتر سرکاری جامعات تنخواہوں، پنشنز اور بنیادی اخراجات کی ادائیگی میں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
اجلاس میں کہا گیا کہ یہ صورتحال کئی جامعات کو مالیاتی دیوالیہ پن کے دہانے پر لے جا چکی ہے۔
اجلاس میں فپواسا نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے مالی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر کم از کم 200 ارب روپے کے ری کرنگ گرانٹ کے اضافے کی اشد ضرورت پر زور دیا ہے۔
اس کے علاوہ فپواسا نے اساتذہ اور محققین کے لیے 25 فیصد ٹیکس ریبیٹ کے مسئلے کے حل نہ ہونے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا، فنانس اینڈ ریونیو کی قائمہ کمیٹی کے 14ویں اجلاس، جس کی صدارت ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کی تھی، میں سیکرٹری ریونیو نے یقین دہانی کرائی تھی کہ بل سے آخری جملہ حذف کر دیا جائے گا جو اس بل کے اطلاق کو 2025ء تک محدود کر دیتا ہے۔
موجودہ فنانس بل 2025ء میں یہ جملہ برقرار رکھا گیا ہے، جس سے اس ٹیکس ریبیٹ کےمستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے، فپواسا مطالبہ کرتا ہے کہ اساتذہ اور محققین کے لیے ٹیکس ریبیٹ کو مستقل طور پر بحال کیا جائے، اسی طرح فپواسا نے ٹینیور ٹریک سسٹم (ٹی ٹی ایس) فیکلٹی اراکین کی تنخواہوں میں 2021 سے تاحال کسی قسم کا اضافہ نہ ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
فپواسا نے کہا ہے کہ طویل عرصے سے تنخواہوں کے اس جمود نے باصلاحیت اور اہل اساتذہ میں مایوسی کو بڑھا دیا ہے، جس سے ان کا حوصلہ متاثر ہو رہا ہے اور اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں باصلاحیت فیکلٹی کے برقرار رہنے کو خطرات لاحق ہیں۔
اس جاری بحران کے پیش نظر فپواسا نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری اصلاحی اقدامات کرے تاکہ پاکستان کے سرکاری جامعات کو مکمل مالی اور تعلیمی بحران سے بچا جا سکے۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: تعلیم کے شعبے کہا گیا کہ اجلاس میں فپواسا نے کے لیے
پڑھیں:
مالی سال 2025 میں وفاقی خسارہ کم ہو کر 7.1 ٹریلین روپے رہا، وزارت خزانہ کا دعویٰ
وزارتِ خزانہ نے کہا ہے کہ حکومت کی قرضہ حکمتِ عملی کا مقصد قومی قرضوں کو معیشت کے حجم کے مطابق رکھنا، قرضوں کی ری فائنانسنگ اور رول اوور کے خطرات کم کرنا اور سود کی ادائیگیوں میں نمایاں بچت یقینی بنانا ہے تاکہ ملکی مالی استحکام کو پائیدار بنایا جا سکے۔
وزارت خزانہ نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ صرف قرضوں کی مطلق رقم دیکھ کر ملکی قرضوں کی پائیداری کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ افراطِ زر کے ساتھ مجموعی رقم کا بڑھنا فطری ہے۔
قرضوں کی پائیداری کا درست پیمانہ یہ ہے کہ انہیں معیشت کے حجم کے تناسب یعنی قرض اور جی ڈی پی کے حوالے سے جانچا جائے، جو عالمی سطح پر بھی معیار مانا جاتا ہے۔
Pakistan’s external debt-to-GDP ratio remained unchanged in FY25 at 25%, marking a 7-year low and slightly below the 10-year average of 26%. This stability reflects that, despite a 5.6% increase in external public debt in US$ terms (7.6% in PKR terms), growth was outpaced by an… pic.twitter.com/6X7YjdWhC0
— Topline Securities Ltd (@toplinesec) September 10, 2025
’اس پیمانے پر پاکستان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور مالی سال 2022 میں قرضوں کی شرح 74 فیصد تھی جو مالی سال 2025 میں کم ہو کر 70 فیصد رہ گئی۔‘
اس دوران حکومت نے قرضوں کے خطرات کم کیے اور عوام کے اربوں روپے سود کی ادائیگیوں سے بچائے ہیں۔
وزارتِ خزانہ نے بتایا کہ حکومت نے پہلی بار ملکی تاریخ میں 2,600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کیے، جس سے قرضوں کے خطرات کم ہوئے اور سینکڑوں ارب روپے کی سود کی بچت ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: ملکی قرضوں میں نمایاں اضافہ، ہر پاکستانی کتنا مقروض؟
مالی نظم و ضبط کے باعث مالی سال 2025 میں وفاقی خسارہ کم ہو کر 7.1 ٹریلین روپے رہا جو گزشتہ سال 7.7 ٹریلین روپے تھا۔
معیشت کے حجم کے حساب سے خسارہ 7.3 فیصد سے گھٹ کر 6.2 فیصد پر آ گیا ہے، جبکہ مسلسل دوسرے سال 1.8 ٹریلین روپے کا تاریخی پرائمری سرپلس بھی حاصل کیا گیا۔
اس دوران مجموعی قرضوں میں سالانہ 13 فیصد اضافہ ہوا جو پچھلے 5 سال کے اوسط 17 فیصد سے کم ہے۔
مزید پڑھیں: موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں اضافہ کر دیا، آؤٹ لک ‘مستحکم’ قرار
وزارت خزانہ نے مزید بتایا کہ محتاط قرض مینجمنٹ اور شرح سود میں کمی کے نتیجے میں مالی سال 2025 میں سود کی مد میں بجٹ کے مقابلے میں 850 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
رواں مالی سال کے بجٹ میں سود کی ادائیگی کے لیے 8.2 ٹریلین روپے رکھے گئے ہیں، جو گزشتہ سال 9.8 ٹریلین روپے تھے۔ قبل از وقت قرضوں کی واپسی سے قرضوں کی میچورٹی مدت بہتر ہوئی ہے، جس سے قرضوں کے خطرات کم ہوئے ہیں۔
’مالی سال 2025 میں پبلک قرضوں کی اوسط میچورٹی 4.0 سال سے بڑھ کر 4.5 سال ہو گئی ہے، جبکہ ملکی قرضوں کی اوسط میچورٹی بھی 2.7 سال سے بڑھ کر 3.8 سال سے زائد ہو گئی ہے۔‘
مزید پڑھیں: امریکا پاکستان تجارتی ڈیل! پاکستان کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
وزارت خزانہ نے کہا کہ بہتر مالی نظم و ضبط کا اثر بیرونی شعبے پر بھی مثبت پڑا ہے اور مالی سال 2025 میں 14 سال بعد پہلی بار 2 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا ہے، جس سے بیرونی مالی دباؤ میں کمی آئی ہے۔
’بیرونی قرضوں میں جزوی اضافہ ادائیگیوں کے توازن کے لیے حاصل سہولیات مثلاً آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ پروگرام اور سعودی آئل فنڈ جیسی نان کیش سہولیات کی وجہ سے ہوا، جن کے لیے روپے میں ادائیگی نہیں کرنی پڑتی۔
وزارت خزانہ کے مطابق تقریباً 800 ارب روپے کا اضافہ صرف زرمبادلہ کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہوا ہے، نہ کہ نئے قرض لینے سے۔
مزید پڑھیں:امریکا کا پاکستان سے معدنیات اور کانکنی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر زور
وزارتِ خزانہ نے کہا کہ محض اعداد و شمار دیکھ کر قرضوں کی صورتحال کا اندازہ لگانا درست نہیں، حقیقت یہ ہے کہ آج پاکستان کی قرض صورتحال پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ پائیدار ہے۔
’حکومت کا قرض و معیشت کے متوازن تناسب پر توجہ دینا، قبل از وقت قرضوں کی ادائیگیاں، سود کی لاگت میں کمی اور بیرونی کھاتوں کا استحکام، ملکی معیشت کو سنبھالا دینے، خطرات کم کرنے اور ذمہ دارانہ مالی نظم و ضبط کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افراط زر بجٹ شرح سود قرض قرض مینجمنٹ مالی استحکام وزارت خزانہ