تحریک انصاف نے ملک کا بیڑا غرق کیا، رانا احسان افضل
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) زاہد محمود نے کہا ہے کہ بھارتی مسافر طیارے کوحادثے پر ہمیں افسوس ہے۔
انھوں نے ایکسپریس نیوزکے پروگرام ’’کل تک ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دنیا مان گئی کہ پاکستان نے 24 گھنٹوں میں بھارت کو شرمسار کیااور بری طرح شکست دی، امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد خطے میں بحران پیدا ہوگیا ہے، دنیا خطرنا ک جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رانا احسان افضل نے کہاکہ بھارت نے مسافر طیارے کے حادثے کا الزام پاکستان پر لگایا تو اس کی ساکھ مزید خراب ہوگی اور اسے مسخرا سمجھا جائے گا، موجودہ بجٹ عوام دوست ہے مگر ارکان پارلیمینٹ کی معقول تنخواہیں ہونی چاہیں، ساتھ ساتھ بڑھتی رہی تو بہتر ہے مگر ایک ہی بار بڑے اضافے پر سوال اٹھتا ہے، تحریک انصاف نے ملک کا بیڑا غرق کیا، یہ واحد جماعت ہے ،جس نے ائی ایم ایف کے سامنے دھر نا دیا کہ پاکستان کو قرضہ نہ دیا جائے۔
تحریک انصاف کے فیصل چوہدری نے کہاکہ ملک جنگیں جیتنے سے نہیں ،مضبوط معیشت سے چلتے ہیں مگر حکومت نے اس کا بیڑا غرق کردیا، تنخواہیں بڑھانے کا طریقہ کار ہوناچاہیے، حالیہ جنگ میں شکست کے بعد مودی سرکارپر شدید دباؤ ہے مگر ہر معاملے کو سیاست کیلیے استعمال کرنا بڑا بے رحمانہ ہے، پاکستان کا اس سے کیا لینا دینا، بھارت اپنے پائلٹوں کی تربیت کرے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان
پڑھیں:
ڈاکٹر عبدالقدیر اور رانا ثنا اللہ کی ناپاک پنجابیت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان اسلام میں ڈوبی ہوئی پاکستانیت کی تخلیق اور فروغ کے لیے قائم کیا گیا تھا مگر یہاں 75 سال سے ناپاک پنجابیت، ناپاک سندھیت، ناپاک مہاجریت اور ناپاک فوجیت پروان چڑھ رہی ہے۔ ناپاک پنجابیت کی علامت میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور مریم نواز ہیں۔ میاں نواز شریف نے اس وقت جاگ پنجابی جاگ تیری پگ کو لگ گیا داغ کا نعرہ لگایا جب وہ ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ کے پرچم تلے سیاست کررہے تھے۔ میاں شہباز شریف کی ناپاک پنجابیت یہ ہے کہ جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں لکھا ہے کہ میاں شہباز شریف کسی زمانے میں بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ پاکستانی اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے معاملے پر مذاکرات فرما رہے تھے۔ مریم نواز شریف کی ناپاک پنجابیت یہ ہے کہ وہ خود کو کبھی اسلام اور پاکستان کی بیٹی نہیں کہتیں۔ وہ ہمیشہ خود کو پنجاب کی بیٹی کہتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ناپاک پنجابیت کی علامت خاندان جنرل عاصم منیر کے سائے میں پھل پھول رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی سندھیت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پورے ملک میں ایک وفاقی پارٹی ہے مگر سندھ میں وہ ایک قوم پرست سندھی جماعت ہے۔ اس جماعت نے صوبے میں لسانی بل متعارف کراکے سندھی اردو کا تصادم برپا کیا۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں کوٹا سسٹم رائج کرکے مہاجر نوجوانوں پر سرکاری نوکریوں کے تمام دروازے بند کردیے۔ خیر سے اس وقت پیپلز پارٹی بھی جنرل عاصم منیر کے سایہ عاطفت میں پھل پھول رہی ہے۔ مہاجر پاکستان بنانے والے اور اسلام میں ڈوبی ہوئی پاکستانیت کی علامت تھے مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے اسلام میں ڈوبی پاکستانیت کو ’’ناپاک مہاجریت‘‘ میں ڈھال دیا۔ الطاف حسین نے 35 سال تک مہاجروں کو پنجابیوں، سندھیوں، پشتونوں اور خود جماعت اسلامی کے مہاجروں سے نفرت سکھائی۔ خیر سے اس وقت ایم کیو ایم بھی ’’مقدس ایجنسیوں‘‘ کے سائے تلے ڈاکے میں ملے ہوئے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں نواز لیگ کے رہنما اور وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ کے اس بیان پر رتی برابر بھی حیرت نہیں ہوئی جس میں انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قوم کا ’’ہیرو‘‘ ماننے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ’’ہیرو‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔ ہیرو تو میاں نواز شریف ہیں جنہوں نے ایٹمی دھماکے کیے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان تو صرف ایک سائنسدان ہیں۔ اس بیان پر ہمارا مختصر ترین تبصرہ یہ ہے کہ یہ بیان ناپاک پنجابیت کے نشے میں ڈوبا ہوا ایک حقیر بیان ہے۔
ہر متعصب جماعت جاہلوں کی جماعت ہے اور بلاشبہ نواز لیگ ناپاک پنجابیت میں گلے گلے تک ڈوبی ہوئی جماعت ہے۔ چنانچہ رانا ثنا اللہ کو معلوم ہی نہیں کہ ’’ہیرو‘‘ کسے کہتے ہیں اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیوں قائداعظم کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے ہیرو ہیں۔
ہیرو کی مختصر ترین تعریف یہ ہے کہ ہیرو ’’ناممکن‘‘ کو ’’ممکن‘‘ بنادیتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس کی سب سے بڑی مثال سیدنا عمر فاروقؓ ہیں۔ سیدنا عمر فاروقؓ کے زمانے میں دو سپر پاورز موجود تھیں یعنی قیصر و کسریٰ۔ دونوں طاقتیں دو ہزار سال سے سپر پاورز تھیں۔ دو ہزار سال میں کوئی طاقت انہیں زیر نہیں کرسکی تھی۔ مگر سیدنا عمرؓ نے دونوں سپر پاورز کو منہ کے بل گرا کر ناممکن کو ممکن بنادیا۔ سیدنا عمرؓ کا تعلق بااللہ اتنا بڑا اور اتنا مضبوط تھا کہ دریائے نیل تک آپ کا حکم مانتا تھا۔ اسلام کے ظہور سے پہلے جب دریائے نیل خشک ہو جاتا تھا تو اہل مصر کسی خوبصورت نوجوان دوشیزہ کی قربانی دیا کرتے تھے مگر سیدنا عمرؓ کے زمانے میں دریائے نیل خشک ہوا تو لوگ پریشان ہو کر سیدنا عمرؓ کے پاس آئے۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا ٹھیرو میں دریائے نیل کے نام ایک خط لکھ دیتا ہوں تم یہ خط دریائے نیل تک پہنچادو۔ دریائے نیل کے نام خط میں سیدنا عمرؓ نے لکھا کہ اگر تو اللہ کے حکم سے چلتا ہے تو جاری ہوجا اور اگر تو اللہ کے سوا کسی اور کا حکم مانتا ہے تو خشک پڑا رہ۔ اہل مصر نے سیدنا عمرؓ کا یہ خط دریائے نیل میں ڈالا تو چند ہی دنوں میں دریائے نیل جاری ہوگیا۔ اس طرح سیدنا عمرؓ نے ایک اور ناممکن کو ممکن بنادیا۔ سیرت عمرؓ کا ایک اور واقعہ ہے کہ اسلامی لشکر کئی سو کلو میٹر کے فاصلے پر دشمن سے نبرد آزما تھا اور سیدنا عمرؓ مسجد نبوی میں جمعے کا خطبہ دے رہے تھے۔ خطبہ دیتے دیتے اچانک سیدنا عمرؓ رکے اور کئی سو کلو میٹر کے فاصلے پر موجود اسلامی لشکر کے سپہ سالار کا نام لے کر کہنے لگے کہ ذرا پہاڑ کی جانب دیکھو۔ اسلامی لشکر معرکے سے لوٹا تو اسلامی لشکر کے سپہ سالار نے سیدنا عمرؓ کو بتایا کہ جنگ لڑتے ہوئے اسلامی لشکر پہاڑ کی جانب سے یکسر غافل ہوگیا تھا کہ اچانک اسلامی لشکر کے سپہ سالار کو سیدنا عمرؓ کی آواز سنائی دی۔ ذرا پہاڑ کی جانب دیکھو۔ انہوں نے پہاڑ کی طرف دیکھا تو پایا کہ دشمن پہاڑ کی جانب سے حملہ کرنے والا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسلامی لشکر کے جاں بازوں کو اس جانب بلوا کر دشمن کو شکست سے دوچار کردیا۔ یہ بھی ایک ناممکن بات تھی مگر سیدنا عمرؓ نے ایک اور ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ اسی لیے گاندھی نے کہا تھا کہ اسلام کو ایک اور عمرؓ مل جاتا تو آج ساری دنیا مسلمان ہوتی۔
کہنے کو افلاطون صرف ایک فلسفی کا نام ہے مگر مغرب کے ممتاز فلسفی وائٹ ہیڈ نے ایک جگہ لکھا کہ مغرب کا پورا فلسفہ افلاطون کے فلسفے کے ایک حاشیے یا Foot Note کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ایک مبالغہ آمیز بیان ہے مگر اس مبالغے کے بغیر افلاطون کی تعریف کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ دو ہزار سال کی مدت کم نہیں ہوتی۔ انبیا کے سوا اتنی مدت تک کوئی زندہ نہیں رہتا مگر افلاطون ایک فلسفی ہونے کے باوجود دو ہزار سال سے زندہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلسفے کے دائرے میں افلاطون نے بہت سے ناممکنات کو ممکن بنا کر دکھادیا۔ افلاطون بلاشبہ انسانی تاریخ کا ایک بڑا ہیرو ہے۔
اسلامی تاریخ میں علمی ہیرو کی سب سے بڑی مثال امام غزالی ہیں۔ امام غزالی کے زمانے تک آتے آتے یونانی فلسفے کے زیر اثر مسلم دانش وروں میں ’’بے عقیدگی‘‘ عام ہونے لگی تھی۔ ابن سینا اور فارابی جیسے لوگ سرعام کہنے لگے تھے کہ خدا کی طرح یہ کائنات بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ وہ یہ کہنے لگے تھے کہ خدا ’’کلیات‘‘ کا علم تو رکھتا ہے ’’جزئیات‘‘ کا علم نہیں رکھتا۔ ان کا یہ عقیدہ ہوگیا تھا کہ مرنے کے بعد انسان جسمانی صورت میں دوبارہ نہیں پیدا کیا جائے گا۔ یہ اور اس طرح کے 20 خیالات ایسے تھے کہ وہ پورے اصل اسلام کو کھا جاتے اور اسلام کا وہی حشر ہوتا جو مغرب میں عیسائیت کا ہوا۔ لیکن امام غزالی اُٹھے اور انہوں نے فلسفیوں کے تمام خلافِ اسلام خیالات کا رد تہافت الفلاسفہ کے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں پیش کردیا۔ اس کتاب نے پوری مسلم دنیا میں مغربی فلسفے کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ یہ ایسا کام تھا جس کے لیے گروہ اور جماعتیں کیا قومیں بھی کم پڑتی ہیں مگر غزالی نے تن تنہا یہ کام کرکے دکھادیا۔ اس لیے غزالی ہماری 800 سال کی مذہبی فکر کے سب سے بڑے ہیرو ہیں۔ انہوں نے بھی ایک ناممکن کو ممکن کرکے دکھا دیا۔ ہماری شاعری کی تاریخ میں تین شاعروں کی غیر معمولی تعریف ہوئی ہے۔ مولانا روم کی شاعری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی شاعری فارسی کا قرآن ہے۔ یہ ایک مبالغہ آمیز تعریف ہے مگر اس مبالغے کے بغیر مولانا کی شاعری کی تعریف کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مولانا روم نے بھی ایک ناممکن کو ممکن بنا کر دکھایا اس لیے وہ بھی مسلمانوں کے ایک بڑے علمی ہیرو ہیں۔ میر تقی میر کو ’’خدائے سخن‘‘ کہا گیا ہے یہ بھی ایک مبالغہ آمیز تعریف ہے مگر اس کے بغیر میر کی تعریف کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ گویا میر بھی ہمارے ایک بڑے تخلیقی ہیرو ہیں۔ غالب کے دیوان کے حوالے سے عبدالرحمن بجنوری نے کہا ہے کہ ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں۔ وید اور دیوان غالب۔ یہ بھی ایک مبالغہ آمیز بیان ہے مگر اس کے بغیر غالب کی شاعری کی تعریف کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔
قائداعظم 20 ویں صدی کی مسلم سیاست کے سب سے بڑے ہیرو ہیں۔ ان کے بارے میں اسٹینلے ولپرٹ نے کہا ہے کہ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ بدلا ہے۔ ان سے بھی کم لوگ ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے جغرافیہ تبدیل کیا ہے اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جس نے ایک قومی ریاست قائم کی ہو۔ قائداعظم نے بیک وقت یہ تینوں کام کیے۔ یہ بھی ناممکن کو ممکن بنانے کی ایک صورت تھی۔
تاریخ کے اس وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ہیرو ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں۔ انہوں نے ایک ناممکن کو ممکن بنایا۔ ایک ایسا ملک جو سوئی بھی نہیں بناتا تھا اس نے ایٹم بم بنا کر دکھا دیا۔ اس ایٹم بم نے پاکستان کو کب نہیں بچایا؟ 1987ء میں بھارت پنجاب اور سندھ پر قبضے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔ جنرل ضیا الحق کو اس کی اطلاع ملی تو وہ کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے بھارت پہنچے اور انہوں نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی سے کہا کہ پاکستان ایٹم بم بنا چکا ہے۔ تم نے اگر پنجاب اور سندھ پر قبضے کی کوشش کی تو ہم تمہارے خلاف ایٹم بم استعمال کریں گے۔
جنرل ضیا الحق نے کہا کہ میرے اسلام آباد میں لینڈ کرنے سے قبل پاکستان پر حملے کے احکامات کو واپس لو ورنہ نتائج کے ذمے دار تم ہوگے۔ جنرل ضیا الحق کی یہ دھمکی موثر ثابت ہوئی اور خطرہ ٹل گیا۔ دس بارہ سال قبل بھارت نے عددی اکثریت کی بنیاد پر ایک بار پھر پنجاب اور سندھ پر قبضے کا منصوبہ بنایا مگر پاکستان اس سے قبل فٹبال کی سائز کے بم جنہیں اصطلاح میں Tactical Nuclear Weapons کہا جاتا ہے بنا چکا تھا۔ چنانچہ بھارت کا پاکستان پر حملے کا منصوبہ پھر ناکام ہوگیا۔ 2019ء میں ابھی نندن کے جہاز کے گرنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی بھارت نے کراچی، لاہور اور سیالکوٹ کو ایٹمی حملے سے تباہ کرنے کی تیاری کرلی تھی۔ پاکستان کو اطلاع ملی تو اس نے 6 بھارتی شہروں کو تباہ کرنے کے لیے ایٹمی ہتھیار نصب کردیے۔ اب سب کچھ سیٹلائٹس سے دیکھ لیا جاتا ہے چنانچہ امریکا اور چین درمیان میں کود پڑے اور انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کو ٹھنڈا کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ قائداعظم نے پاکستان بنایا اور ڈاکٹر عبدالقدیر نے پاکستان بچایا۔ پاکستان نے دھماکے کیے تھے تو ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی درمیان میں کود پڑے تھے۔ انہوں نے بھی ناپاک پنجابیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ایٹم بم صرف ڈاکٹر قدیر نے نہیں بنایا ہم نے بھی بنایا ہے۔ بھارت کا ایٹم بم بھی ٹیم ورک کا نتیجہ ہے مگر اس سلسلے میں نام صرف ہومی جہانگیر بھابھا کا آتا ہے۔ امریکا کا ایٹم بم بھی ٹیم ورک کا حاصل تھا مگر اس سلسلے میں نام صرف اوپن ہائمر کا آتا ہے۔ پاکستان کا ایٹم بم بھی ٹیم ورک ہی کا حاصل ہے مگر اس ایٹم بم کے خالق صرف ڈاکٹر عبدالقدیر ہیں۔ رانا ثنا کی یہ بات بھی درست نہیں کہ ایٹمی دھماکے میاں نواز شریف نے کیے۔ میاں صاحب کو دھماکے کرنے ہوتے تو دوسرے دن کردیتے مگر انہوں نے دھماکے کرنے میں 17 دن لے لیے۔ وہ دراصل دھماکے نہ کرنے اور امریکا سے 5 ارب ڈالر کا پیکیج لینے کا فیصلہ کرچکے تھے مگر قوم کا دبائو اتنا بڑھا کہ انہیں بالآخر دھماکے کرنے پڑے۔ اس سلسلے میں صورت حال اتنی دھماکا خیز تھی کہ نوائے وقت کے مالک اور مدیر مجید نظامی نے دھمکی دی تھی کہ اگر نواز شریف نے دھماکے نہ کیے تو قوم ان کا دھماکا کردے گی۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر قدیر کا ایٹم بم نہ ہوتا تو میاں نواز شریف دھماکے کہاں سے کرتے؟