بجٹ 2025-26: امیدیں، سوالات اور زمینی حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جون کا مہینہ پاکستان میں صرف گرمی نہیں، بلکہ مالی تنگی اور بجٹ کی گونج بھی لے کر آتا ہے۔ بجٹ 2025-26 بھی آ گیا، اعداد و شمار بھی سامنے آ گئے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بجٹ عوام کے لیے ہے؟ تاجر کے لیے ہے؟ ملازمت پیشہ کے لیے ہے؟ یا صرف قرض خواہوں کے اطمینان کے لیے ہے؟ پاکستانی شہری اور بزنس فورم کراچی کی حیثیت سے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس بجٹ کو زمینی حقیقت کی عینک سے دیکھیں، اور اس کے مثبت و منفی پہلوؤں کو دیانتداری سے عوام تک پہنچائیں۔
عوامی طبقہ: وعدے بہت، ریلیف کم: بجٹ تقریر میں احساس پروگرام، سبسڈی، اور ٹارگٹڈ ریلیف کا ذکر تو ضرور ہے، مگر عوام کی ریلیف فیلڈ میں کہیں نظر نہیں آتی۔ آٹا، چینی، سبزیاں، گیس، بجلی۔ ہر چیز آج بھی ایک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔ جب پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو صرف گاڑیاں نہیں، زندگی کی ہر ضرورت متاثر ہوتی ہے۔ یہ حقیقت بجٹ سازوں کو بارہا یاد دلانا پڑتی ہے۔
ملازمت پیشہ افراد؛ سفید پوش، سیاہ حالات: نجی شعبے میں کام کرنے والے لاکھوں افراد کی تنخواہیں نہ مہنگائی کے مطابق بڑھتی ہیں، نہ ان کو کوئی ٹیکس ریلیف دیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین کے لیے معمولی تنخواہ اضافہ ہو بھی جائے، تو نجی اداروں کے ملازمین صرف دعائیں ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔ ہماری تجویز ہے کہ کم از کم ٹیکس فری انکم کی حد 15 لاکھ سالانہ تک کی جائے تاکہ مہنگائی کی مار تھوڑی نرم پڑے۔
کاروباری طبقہ؛ ملک کا پہیہ، لیکن زنجیروں میں جکڑا ہوا: بجٹ میں کاروبار سے جْڑی پالیسیوں کی غیر یقینی کیفیت بدستور جاری ہے۔ کبھی نیا ٹیکس، کبھی ریفنڈ میں تاخیر، کبھی گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ — یہ سب اقدامات کاروبار کی راہ میں رکاوٹ ہیں، نہ کہ ترقی کا زینہ۔ چھوٹے تاجروں کے لیے فکسڈ ٹیکس نظام کو سہل اور شفاف بنایا جائے، اور SME سیکٹر کو کم شرح پر قرضے فراہم کیے جائیں، تاکہ چھوٹا کاروبار سانس لے سکے۔
برآمدات، سرمایہ کاری، اور اصلاحات کہاں ہیں؟ یہ بجٹ برآمدات بڑھانے کے کسی جامع پلان سے خالی ہے۔ جب تک ایکسپورٹرز کو خام مال، توانائی، اور ریفنڈ کی فوری سہولت نہ دی جائے، تب تک ہم صرف دعاؤں پر ہی کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس سنوارنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بھی سازگار ماحول کا کوئی واضح خاکہ اس بجٹ میں نظر نہیں آتا۔ اعتماد، پالیسی کا تسلسل اور ریگولیٹری سادگی ہی سرمایہ کاری کھینچ سکتی ہے، نہ کہ خالی نعرے۔
پاکستان بزنس فورم کی تجاویز: ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ: 1۔ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ کم کیا جائے، 2۔ چھوٹے کاروبار کے لیے فکسڈ ٹیکس نظام سہل بنایا جائے، 3۔ برآمدی شعبے کو فوری ریلیف دیا جائے، 4۔ یوٹیلیٹی بلز میں غریب طبقے کے لیے حقیقی سبسڈی دی جائے۔ 5۔ بیروزگاری کم کرنے کے لیے SME سیکٹر کو فروغ دیا جائے، 6۔ بجٹ اعداد و شمار کے جادو کے بجائے عام آدمی کی زندگی میں بہتری لائے۔
اختتامیہ: یہ بجٹ ایک موقع تھا کہ حکومت عوام کا اعتماد بحال کرے۔ لیکن اعتماد صرف وعدوں سے نہیں، عملی اقدامات سے ملتا ہے۔ پاکستان بزنس فورم کراچی، تاجر، ملازم، اور عام شہری کے ساتھ کھڑا ہے، اور ہم ہر سطح پر اصلاحات، انصاف اور آسانی کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے ہے
پڑھیں:
زائرین کے زمینی سفر پر پابندی
اسلام ٹائمز: ایسے زائرین کے وسائل محدود ہوتے ہیں اور وہ موسم کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے کئی دنوں کو سفر طے کرکے نواسہ رسول کے روضہ اقدس پر حاضری دینے کی خواہش لئے بیٹھے تھے، جس پر حکومت پاکستان نے پانی پھر دیا۔ یاد رہے کہ ایک مرتبہ جب وزیر داخلہ محسن نقوی سے بلوچستان کے حالات کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’بلوچستان کے حالات ٹھیک کرنا تو ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔‘‘ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایس ایچ او کوئٹہ سے تفتان بارڈر کی سیکورٹی کیوں نہیں سنبھال لیتا۔؟ بہترین سیکورٹی اداروں اور مستعد انٹیلی جنس ایجنسیز کی موجودگی میں کیا دہشتگرد ماضی کے مقابلہ میں اس قدر قدرت مند ہوچکے ہیں کہ زائرین کے سفر پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔؟ رپورٹ: سید عدیل عباس
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت نے بے تکا فیصلہ کرتے ہوئے سکیورٹی وجوہات کو جواز بنا کر زمینی راستے سے اربعین کیلئے ایران اور عراق جانیوالے زائرین پر پابندی عائد کر دی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ منسٹری آف فارن افیئرز، بلوچستان حکومت اور سکیورٹی ایجنیسیز کیساتھ تفصیلی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس سال زائرین اربعین زمینی راستوں سے ایران اور عراق نہیں جا سکیں گے۔ یہ مشکل فیصلہ عوام کی حفاظت اور قومی سلامتی کیلئے کیا گیا ہے۔ محسن نقوی نے مزید لکھا کہ البتہ زائرین بائی ایئر سفر کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایئرلائن اتھارٹیز کو ہدایت کی ہے کہ وہ آنیوالے دنوں میں زائرین کیلئے زیادہ سے زیادہ پروازوں کا اہتمام کریں۔ یاد رہے کہ پاکستان کے مختلف صوبوں سمیت ماضی میں بلوچستان میں دہشتگردی موجودہ وقت سے بھی زیادہ رہی ہے، حتیٰ کہ ایران، عراق جانے والے زائرین کی بسوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، تاہم اس وقت بھی زائرین کے زمینی سفر پر پابندی عائد نہیں کی گئی۔
حکومت نے کانوائے سسٹم متعارف کرایا اور سفر کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کئے گئے اور اس حوالے سے زائرین اور شیعہ قیادت نے بھرپور تعاون کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبہ بلوچستان میں دہشتگرد سرگرم ہیں اور معصوم شہریوں سمیت سرکاری تنصیبات اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں، تاہم عوام کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ زائرین پر پابندی کے حکومتی فیصلہ کو مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے مسترد کر دیا۔ ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی آرگنائزر سید ناصر عباس شیرازی نے کہا ہے کہ ’’زائرین کی راہ میں کھڑی کی گئی رکاوٹیں کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں، یہ پابندی محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں، بلکہ لاکھوں عقیدت مندوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ زائرین کی راہ میں کھڑی کی گئی رکاوٹیں کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں۔ مشکل حالات کے باوجود لاکھوں زائرین انہی راستوں سے سفر کرتے ہوئے زیاراتِ مقامات مقدسہ کیلئے جاتے ہیں۔ ناصر شیرازی نے کہا کہ وزیر داخلہ کے دورہ کوئٹہ سے توقع تھی کہ زائرین کو ریلیف دیا جائے گا، مگر محسن نقوی نے امریکہ و اسرائیل کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ ’’ہمیں وزارت داخلہ سے نوٹیفیکیشن ملا ہے کہ زائرین امام حسینؑ کو بعض سکیورٹی خدشات کی بناء پر بائی روڈ جانے سے منع کر دیا گیا ہے۔ مومنین حوصلہ کریں، صبر کریں، ہم وفاقی حکومت سے رابطہ کر رہے ہیں، محسن نقوی سے رابطہ کر رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے اور جو ان شاء اللہ زائرین کے حق میں سب سے بہترین فیصلہ ہوگا، اس کو ہم ان شاء اللہ آگے بڑھائیں گے، اللہ تعالیٰ ہم سب کی مدد کرے۔‘‘ واضح رہے کہ حکومت نے یہ بھونڈا فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے کہ جب زمینی راستے سے جانے والے زائرین کی تیاریاں مکمل تھیں، ویزے لگ چکے تھے۔ زمینی راستے سے جانے والے شیعہ، سنی زائرین کا تعلق متوسط طبقہ یا پھر غریب گھرانوں سے ہوتا ہے اور وہ عشق اہلبیت علیھم السلام سے سرشار اپنی کئی مہینوں کی جمع پونجھی خرچ کرکے اربعین کے سفر عشق پر روانہ ہونے کی آس لگائے بیٹھے تھے۔
ایسے زائرین کے وسائل محدود ہوتے ہیں اور وہ موسم کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے کئی دنوں کو سفر طے کرکے نواسہ رسول کے روضہ اقدس پر حاضری دینے کی خواہش لئے بیٹھے تھے، جس پر حکومت پاکستان نے پانی پھر دیا۔ یاد رہے کہ ایک مرتبہ جب وزیر داخلہ محسن نقوی سے بلوچستان کے حالات کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’بلوچستان کے حالات ٹھیک کرنا تو ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔‘‘ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایس ایچ او کوئٹہ سے تفتان بارڈر کی سکیورٹی کیوں نہیں سنبھال لیتا۔؟ بہترین سکیورٹی اداروں اور مستعد انٹیلی جنس ایجنسیز کی موجودگی میں کیا دہشتگرد ماضی کے مقابلہ میں اس قدر قدرت مند ہوچکے ہیں کہ زائرین کے سفر پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔؟ یہ کیسا وزیر داخلہ ہے کہ جو عشرہ محرم الحرام میں خود ماتم داری کرتے، نیازیں بانٹتے اور شبیہ ذوالجناح کی باگ تھامے نظر آتا تھا اور آج زائرین ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔؟ اگر کل خدانخواستہ ملک میں دہشتگردی مزید بڑھ جائے تو کیا مساجد پر تالے لگا دیئے جائیں۔؟
حکومت پر واضح ہونا چاہیئے کہ یہ زیارات اہلبیتؑ لوگوں کے مذہبی جذبات کا مسئلہ ہے، یہ کوئی تجارتی یا کاروباری مسافر نہیں، مشکلات میں گھری حکومت کو اپنے لئے مزید مسائل پیدا کرنے سے گریز کرنا ہوگا اور خاص طور پر مذہبی معاملات میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے سابقہ ریکارڈز سے کو دیکھتے ہوئے یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ کہیں اس پابندی کے پس پردہ کوئی اور محرکات نہ ہوں، کیونکہ ہر صورت حکومت کو اپنا یہ بھونڈا فیصلہ واپس لینا ہوگا، لیکن ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ کسی طبقہ کی توجہ ایسے ایشوز میں الجھا کر تبدیل کرنا اور اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر دوسری جانب ’’کوئی اور‘‘ اقدام خاموشی سے اٹھا لینے کی روایت رہی ہے۔ بہرحال صورتحال جو بھی ہو، حکومت کو اس فیصلہ پر فوری طور پر یوٹرن لینا ہوگا، بصورت دیگر اس بے تکے فیصلہ کے اثرات انتہائی دور رس ثابت ہوسکتے ہیں، جو کہ پہلے سے کئی مسائل میں گھرے وطن عزیز کیلئے کوئی نیک شگون ہرگز نہیں ہوگا۔