بھارت کو دہشتگردی سب سے بڑا چیلنج لگتا ہے تو وہ پاکستان کیساتھ بیٹھ جائے: بلاول بھٹو زرداری
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
—جنگ فوٹو
یورپ کے دورے پر آئے ہوئے پاکستان کے پارلیمانی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ 2001ء کے بعد سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی دنیا کے ساتھ بھر پور تعاون کر رہا ہے، اگر بھارت کو لگتا ہے کہ دہشت گردی اس کا سب سے بڑا چیلنج ہے تو وہ پاکستان کے ساتھ بیٹھ جائے اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے۔
ان خیالات کا اظہار بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان سے آئے ہوئے وفد کے ہمراہ یورپین پریس کلب برسلز میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ خیال تھا کہ سیز فائر کے بعد باہمی بات چیت شروع ہو گی لیکن یہ توقع پوری نہیں ہوئی، کشمیری قوم بھارت کی جانب سے لگائے جانے والے دہشت گردی کے الزام کی سب سے بڑی اور سب سے پہلا شکار بن کر رہ چکی ہے، اسی طرح بھارت پاکستان پر بھی یک طرفہ الزام عائد کر دیتا ہے، جس کا وہ کوئی ثبوت بھی فراہم نہیں کرتا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان امن چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ بھارت کے ساتھ ہر طرح اور ہر ذریعے سے بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن بھارت اس کے لیے تیار نہیں، اس نے پہلے تنازعات کو حل کرنے کی بجائے پانی کا نیا تنازع شروع کر لیا ہے، وہ اب پانی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن پاکستان کے نقطۂ نظر سے 240 ملین لوگوں کے لیے پانی کا روکنا ایکٹ آف وار تصور ہو گا اور ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔
بلاول بھٹو نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم یورپ کی بھارت کے ساتھ آزادانہ تجارت کی خواہش کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن اگر اس کی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بار بار جنگ ہو گی جو کسی بھی اندازے کی غلطی کے باعث نیو کلیئر جنگ میں بدل جائے تو بھارت میں کی گئی انویسٹمنٹ کا مستقبل کیا ہو گا، اس کے لیے انہوں نے بھارت کے ساتھ حالیہ تنازع کی مثال دی جس میں بھارت نے نیوکلیئر ہتھیار لے جانے والے براہموس میزائل کا استعمال کیا، انہوں نے کہا کہ ایسی صورتِ حال میں دوسرے فریق کے پاس سوچنے کے لیے بمشکل چند منٹ ہوں گے کہ آیا یہ میزائل خالی ہے یا بم بردار۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت کہتا ہے کہ کشمیر اس کا اندرونی معاملہ ہے لیکن اس کی کوششوں کے باوجود مسئلہ کشمیر انٹرنیشنلائز ہوچکا ہے، امریکی صدر اس مسئلے کے حل کے لیے بات کر رہے ہیں اور ہم انہیں اس حوالے سے خوش آمدید کہتے ہیں، پاکستان بھارت کے ساتھ ہر مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا خواہشمند ہے، ہم ہر ایک کو یہی پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ہمارے خطے میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
پریس کانفرنس کے دوران جنگ اور جیو کی جانب سے ان سے پوچھا گیا کہ جب بھارت کسی ثالثی کو بھی قبول نہیں کرتا اور ہر مسئلے کو یک طرفہ طور پر زبردستی حل کرنے کا خواہشمند ہے تو ایک نوجوان لیڈر کے طور پر کیا وہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر اس صورتحال میں حل ہو سکے گا؟
اس سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ دنیا کے لیے شاید یہ ایک اور طرح کا مسئلہ ہو لیکن بھارت، پاکستان اور برصغیر کی نئی نسل کے لیے یہی سب سے بڑا چیلنج ہے کہ بعد میں ہم اس مسئلے کو حل کرنے کے قابل نہیں رہیں گے، آپ جانتے ہیں کہ ماہرین کے مطابق پاکستان ماحولیاتی مسائل اور پانی کی کمی کے شکار 10 سرِفہرست ممالک میں شامل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل کمیونٹی دیکھ رہی ہے کہ ساؤتھ پول کے بعد قدرتی برف کے پگھلنے کی سب سے زیادہ شرح اور بڑا خطرہ ہمالیہ میں ہے، ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کیا کرنے جارہے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے کیا چھوڑ رہے ہیں، اگر ہر چیز بھارت unilaterally ہی کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ ماحولیاتی مسائل سے اکیلا نہیں نمٹ سکتا، وہ ایک پوری آبادی کا پانی نہیں روک سکتا، اس کے لیے بھارت کو ہر صورت جلد یا بدیر بات کرنا ہو گی۔
اسی سوال کے جواب میں پاکستان کے وزیر ماحولیات ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ بھارت پانی یا دریاؤں کے نچلے حصوں میں موجود اقوام کے لیے ایک نیا مسئلہ کھڑا کر رہا ہے، اب یہ (انڈس واٹر ٹریٹی) صرف بھارت یا پاکستان کا مسئلہ نہیں رہا، بھارت ایک ایسا نیا قانون یا اصول وضع کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ جو لوگ بھی دریاؤں کے نچلے حصے میں رہتے ہیں انہیں پانی حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں، بھارت بھول رہا ہے کہ صرف پاکستان ہی پانی کے بہاؤ کے آخری حصے میں نہیں بلکہ وہ خود بھی کسی اور ملک سے آنے والے پانی کے نچلے حصے میں ہے، اسی اصول کے تحت، افریقہ، لاطینی امریکی اور خود یورپین ممالک کا کیا بنے گا؟
انہوں نے کہا کہ بھارتی اصول کے تحت اب دریاؤں کے پہلے حصے میں موجود ممالک کو یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ جب چاہیں نیچے والے ممالک کا پانی بند کر دیں۔
ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ بھارت نے اب اس مسئلے کو خود سے بین الاقوامی کر دیا ہے، اب یہ مسئلہ صرف بھارت اور پاکستان کے درمیان نہیں رہا، اس کے لیے دریاؤں کے نچلے حصوں میں موجود تمام اقوام کو کھڑے ہوکر آواز بلند کرنا ہو گی، کیونکہ اگر یہ اصول ایک مرتبہ قائم ہو گیا تو پھر دنیا کے اندر اس مسئلے کے حوالے سے نئے مسائل جنم لیں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ دنیا میں پانی کے حوالے سے ملکوں کے درمیان بہت کم معاہدے ہیں لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ باقاعدہ ایک ٹریٹی کی صورت میں موجود ہے۔
علاوہ ازیں ایران پر اسرائیلی حملے کے جواب میں ڈاکٹر مصدق ملک نے اس کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ اب ہر ماہ دنیا میں ایک نئی جنگ شروع ہو رہی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس صورتحال کے تدارک کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بلاول بھٹو زرداری نے نے کہا کہ بھارت انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ کے جواب میں پاکستان کے دریاو ں کے اس کے لیے مسئلے کو اس مسئلے کرنے کی کے نچلے رہا ہے
پڑھیں:
خطے میں دہشت گردی کا مشترکہ چیلنج
پاکستان کی میزبانی میں ریجنل چیفس آف ڈیفنس اسٹاف کانفرنس کا مقصد سلامتی سے متعلق تعاون کو مزید مستحکم بنانا، تربیتی پروگراموں کو فروغ دینا اور انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفاعی شعبوں میں بہترین عملی تجربات کا تبادلہ کرنا ہے۔ کانفرنس میں امریکا، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے اعلیٰ عسکری رہنماؤں نے شرکت کی اور یہ تاریخی کثیر الملکی اجلاس علاقائی سلامتی، فوجی سفارت کاری اور تزویراتی مکالمے کو فروغ دینے کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوا۔
دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے بتایا ہے کہ اسحق ڈار مارکو بیو ملاقات میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دوطرفہ تعاون بڑھانے پر بات ہوئی، داعش خراسان کے خلاف حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اگست میں اسلام آباد میں پاک امریکا انسداد دہشت گردی مذاکرات ہوں گے۔ دوطرفہ اقتصادی شراکت داری کو بڑھانے کے لیے عملی اقدامات پر بھی مشاورت کی گئی۔
اسلام آباد میں حال ہی میں منعقد ہونے والی ریجنل چیفس آف ڈیفنس اسٹاف کانفرنس بلاشبہ پاکستان کے لیے ایک اہم تزویراتی اور سفارتی کامیابی ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں سیکیورٹی خدشات بڑھ رہے ہیں اور ریاستوں کو داخلی اور خارجی سطح پرکئی محاذوں پر بیک وقت چیلنجز کا سامنا ہے، اس نوعیت کی کانفرنس کا انعقاد نہ صرف بروقت بلکہ غیر معمولی اہمیت کا حامل اقدام ہے۔
پاکستان ہمیشہ سے خطے میں امن و استحکام کا خواہاں رہا ہے اور اپنی جغرافیائی اہمیت کے باعث اسے اس خطے میں ایک مرکزی کردار حاصل ہے۔ پاکستان نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے۔ ایسے میں پاکستان کی یہ کوشش کہ وہ علاقائی سطح پر فوجی تعاون اور سلامتی کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرے جہاں مختلف ریاستیں نہ صرف اپنے تحفظات بیان کر سکیں بلکہ باہمی اعتماد کو فروغ دے کر تعاون کی راہیں تلاش کر سکیں، ایک سنجیدہ اور بامقصد سفارتی کوشش کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
فوجی سفارت کاری ایک نسبتاً نیا مگر ابھرتا ہوا میدان ہے جس کے ذریعے نہ صرف ریاستوں کے درمیان عسکری سطح پر ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے بلکہ یہ سفارتی تناؤ کو کم کرنے، اعتماد سازی بڑھانے اور مشترکہ خطرات کا مؤثر طور پر مقابلہ کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے۔ اس کانفرنس کا مرکزی نکتہ بھی یہی تھا کہ خطے میں مشترکہ چیلنجز جیسے دہشت گردی، سائبر خطرات، منظم جرائم اور پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی ترتیب دی جا سکے۔
شرکت کرنیوالے ممالک کا مختلف پس منظر اور مختلف سیکیورٹی ضروریات رکھنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کانفرنس محض رسمی کارروائی نہیں تھی بلکہ اس میں واقعی ایسے نکات پر بات چیت کی گئی جو عملی سطح پر ان ریاستوں کے لیے اہم ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان نے ایک ایسے وقت میں اس کانفرنس کی میزبانی کی جب دنیا ایک بار پھر بلاک سیاست کی طرف بڑھ رہی ہے، یوکرین جنگ، مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اور امریکا چین تناؤ نے دنیا کے کئی خطوں کو متاثر کر رکھا ہے۔
اس کے باوجود پاکستان کا ان غیر معمولی حالات میں مختلف ریاستوں کو ایک میز پر اکٹھا کرنا اور سیکیورٹی، ترقی اور تعاون کے موضوعات پر بامعنی گفتگو کروانا دراصل اس کی متوازن خارجہ پالیسی اور فعال عسکری سفارت کاری کی دلیل ہے۔پاکستان ماضی میں دہشت گردی کا شکار رہا ہے جس سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور سیکیورٹی کے مسائل نے معاشرے کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا۔
مگر گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو جس انداز میں لڑا، دنیا نے اس کی تعریف کی۔ اب پاکستان چاہتا ہے کہ یہ تجربہ دوسرے ممالک کے ساتھ شیئر کیا جائے تاکہ علاقائی سطح پر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کانفرنس میں انسداد دہشت گردی پر خاص زور دیا گیا اور اس ضمن میں مشترکہ تربیتی اقدامات پر اتفاق بھی کیا گیا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ خطے کے ممالک مل کر ترقی کی راہیں تلاش کریں، غربت، جہالت، انتہاپسندی اور پسماندگی کا خاتمہ کریں، اور ایک ایسی دنیا کی تشکیل کریں جہاں اقوام کے درمیان اختلافات بات چیت سے حل ہوں نہ کہ تصادم سے۔
اس کانفرنس کے کئی پہلو مستقبل کے لیے نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔ اول یہ کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور دیگر ممالک بھی اس میں شامل ہوتے گئے تو ایک علاقائی سیکیورٹی بلاک کی بنیاد پڑ سکتی ہے جو صرف عسکری نہیں بلکہ معاشی، ثقافتی اور سائنسی سطح پر بھی باہمی تعاون کو فروغ دے۔ دوم، اس طرح کی کانفرنسیں اعتماد سازی کے لیے انتہائی موزوں پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں، جن کی آج کے دور میں شدید کمی محسوس کی جا رہی ہے۔
تیسرے یہ کہ ایسے مواقع پر غیر رسمی ملاقاتیں اور تبادلہ خیال اسٹرٹیجک مفاہمت کو جنم دے سکتے ہیں جس کا دور رس اثر ہوتا ہے۔ادھر ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ کانفرنس کا انعقاد ہی کافی نہیں، بلکہ اس میں کیے گئے فیصلوں اور معاہدوں پر عملدرآمد ہی اصل چیلنج ہے۔ ماضی میں ہم نے کئی علاقائی اجلاسوں اور معاہدوں کو صرف کاغذی حیثیت میں دیکھا ہے، لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان فیصلوں کو عملی جامہ پہنائیں۔
پاکستان کو اس ضمن میں قیادت کا کردار ادا کرنا ہو گا، اور ایک مستقل سیکریٹریٹ یا رابطہ فورم کے قیام پر غور کرنا ہو گا تاکہ اس نوعیت کے اجلاسوں کی نگرانی اور پیش رفت کا مؤثر جائزہ لیا جا سکے۔ اب وقت ہے کہ ان کوششوں کو تسلسل دیا جائے، اور انھیں مزید ادارہ جاتی شکل دی جائے تاکہ آنے والی نسلیں ایک محفوظ، پرامن اور خوشحال خطے میں سانس لے سکیں۔
دوسری جانب اسحق ڈار مارکو بیو ملاقات واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان نئے سیکیورٹی اور اقتصادی تعاون کی سمت میں ایک سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان حالیہ سفارتی اور سیکیورٹی رابطے اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے کے لیے نہ صرف سنجیدہ ہیں بلکہ عملی اقدامات پر بھی آمادہ ہیں۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے ساتھ ملاقات میں جس طرح داعش خراسان کے خطرے، دوطرفہ تعاون اور آیندہ انسداد دہشت گردی مذاکرات پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر اپنے کردار کو مستحکم اور مربوط بنانا چاہتا ہے۔
داعش خراسان کا ابھرتا ہوا خطرہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے ایک تشویشناک امر ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے اس گروہ کی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس کے حملے نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سیکیورٹی پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس ملاقات میں اگست میں اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی پر پاک امریکا مذاکرات منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو اس ضمن میں اہم سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔
ان مذاکرات سے توقع کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک نہ صرف اپنی ترجیحات کو واضح کریں گے بلکہ عملی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے ادارہ جاتی رابطے اور معلومات کے تبادلے کے طریقہ کار پر بھی بات کریں گے۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ صرف پاکستان کی نہیں، بلکہ پوری دنیا کی مشترکہ جنگ ہے۔ اس لیے عالمی طاقتوں خصوصاً امریکا جیسے اتحادی ممالک کے ساتھ تعاون انتہائی ضروری ہے۔
اسحاق ڈار اور امریکی نمایندے کے درمیان ہونے والی بات چیت میں ایک اور اہم پہلو دوطرفہ اقتصادی شراکت داری پر مشاورت کا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت کو بھی مضبوط بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کو اس وقت اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے سرمایہ کاری، تجارت اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے مواقع پیدا کرنا ضروری ہیں۔ امریکا کے ساتھ اس ضمن میں تعاون پاکستان کے لیے نہ صرف اقتصادی لحاظ سے سود مند ہو سکتا ہے بلکہ یہ اعتماد سازی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
خطے میں افغانستان کی صورتحال، بھارت کی پالیسی، چین اور امریکا کی کشمکش، اور ایران کے اثرات یہ سب مل کر پاکستان کے لیے ایک پیچیدہ جغرافیائی و سیاسی منظر نامہ تشکیل دیتے ہیں۔ ایسے میں امریکا کے ساتھ متوازن اور باوقار تعلقات وقت کی ضرورت ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ نہ صرف انسداد دہشت گردی میں اپنی حکمت عملی واضح رکھے بلکہ دنیا کے سامنے اپنے موقف اور اقدامات کو مؤثر انداز میں پیش بھی کرے۔ امریکا کے ساتھ حالیہ پیش رفت امید کی ایک کرن ہے۔
اگر یہ رابطے سنجیدہ اقدامات میں تبدیل ہو گئے تو پاکستان نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مؤثر کردار ادا کرے گا بلکہ خطے میں ایک مضبوط، خود مختار اور خوشحال ملک کے طور پر اپنی پہچان کو بھی اجاگر کرے گا۔ اس راستے میں یقینی طور پر کئی چیلنجز آئیں گے، داخلی مخالفت، علاقائی سازشیں، اور عالمی سیاست کی پیچیدگیاں اس سفر کو دشوار بنا سکتی ہیں، لیکن اگر قیادت نیک نیتی اور حکمت سے کام لے تو پاکستان ایک بار پھر ترقی، امن اور استحکام کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ اسی صورت میں پاکستان نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیاب ہو گا بلکہ ایک باوقار اور ترقی یافتہ ریاست کی حیثیت سے ابھرے گا۔