UrduPoint:
2025-09-17@23:57:20 GMT

بھارت کی دو ریاستیں آم پر کیوں لڑ رہی ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

بھارت کی دو ریاستیں آم پر کیوں لڑ رہی ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جون 2025ء) سات جون کو آندھرا پردیش کے چتوڑ کے ضلع کلکٹر کی طرف سے جاری کردہ ایک حکم کے ذریعے، ریاستی حکومت نے دیگر ریاستوں کے رسیلے 'طوطا پری' آموں کے ضلع میں داخلے پر پابندی عائد کر دی، اس فیصلے نے پڑوسی ریاست کرناٹک کے ساتھ تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔

پاکستانی آم اب بھارتی درختوں پر اگیں گے

کرناٹک کی چیف سکریٹری شالنی رجنیش نے 10 جون کو لکھے ایک خط میں، اور وزیر اعلیٰ سدارامیا کی جانب سے 11 جون کو لکھے گئے ایک خط میں، اپنے آندھرا پردیش کے ہم منصبوں، کے وجیانند اور این چندرا بابو نائیڈو سے بالترتیب اس حکم کو واپس لینے کے لیے کہا۔

انہوں نے کہا کہ چتوڑ کے ضلع کلکٹر کے حکم کی وجہ سے کرناٹک میں آم کے کاشتکاروں کو کافی پریشانی ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

طوطا پری آم کی خصوصیت

طوطا پری، جسے بنگلور یا سنیدرشا بھی کہا جاتا ہے، آندھرا پردیش، کرناٹک اور تمل ناڈو کے سرحدی اضلاع میں اگائی جانے والی آم کی ایک قسم ہے۔

یہ اپنی لمبی شکل اور طوطے کی چونچ نما نوک کے لیے جانا جاتا ہے۔

اس میں رس اور گودا بہت زیادہ ہوتا ہے۔ طوطا پری آم کو بالخصوص ڈبہ بند مینگو ڈرنکس میں استعمال کیا جاتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں نے پاکستان میں ’آم کی فصل خراب کر دی‘

ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت فوڈ اینڈ بیوریج پروسیسرز یہ آم براہ راست کسانوں سے خریدتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آندھرا پردیش کے چتوڑ ضلع میں آم کی پروسیسنگ اور گودا نکالنے والی متعدد کمپنیاں ہیں، جو مقامی بازاروں سے طوطا پری آم خریدتی ہیں۔

t تنازع کا سبب

چتوڑ کے ضلعی عہدیداروں نے ریونیو، جنگلات، مارکیٹنگ اور پولیس محکموں کے تعاون سے کرناٹک کے طوطا پری آموں کے ضلعے میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی ہے۔ وجہ ہے کرناٹک کے آم آندھرا پردیش میں اگائے جانے والے آم سے سستے ہیں۔

’سلاد کے لیے پھلوں کے بادشاہ کی قربانی‘

آندھرا پردیش حکومت کے ایک سرکاری اہلکار نے بھارتی میڈیا کو بتایا، "ہر سال، آندھرا حکومت اس قیمت کا اعلان کرتی ہے جس پر پروسیسرز کو طوطا پری آم خریدنا چاہیے۔

"

ایشوریا رائے، نریندر مودی اور سچن ٹنڈولکر آم کس کی محنت کا پھل؟

انہوں نے بتایا،"اس سال ریاستی حکومت نے 8 روپے فی کلو کی قیمت کا اعلان کیا ہے۔ کم قیمت اور زیادہ سپلائی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے کسانوں کو اضافی 4 روپے فی کلو فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔"

آندھرا پردیش حکومت کا دعویٰ ہے کہ کرناٹک میں، تاہم، قیمت صرف 5 سے 6 روپے فی کلو ہے۔

آندھرا پردیش حکومت کے اہلکاروں کا کہنا تھا،"اگر ہم (کرناٹک) کے آموں کو آندھرا پردیش کی منڈی تک پہنچنے دیتے ہیں، تو پروسیس کرنے والے ان آموں کو ریاست میں اگائے جانے والے آموں پر ترجیح دیں گے۔ اس سے آندھرا کے کسانوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔"

تقریباً دو سو بیس لاکھ ٹن آموں کی خریداری متوقع ہے، حکومت ان آموں پر تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ روپے خرچ کرنے والی ہے۔

بڑھتا ہوا تعطل

اس اچانک اور یک طرفہ اقدام سے کرناٹک میں آم کے کاشتکاروں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خاص طور پر سرحدی علاقوں کے وہ لوگ جو کافی مقدار میں طوطا پری آم کی کاشت کرتے ہیں۔ یہ کسان طویل عرصے سے چتوڑ کے پروسیسنگ اور گودا نکالنے والے یونٹوں کے ساتھ کاربار کررہے ہیں۔

کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا نے کہا، "موجودہ پابندی نے ایک اچھی طرح سے قائم سپلائی چین میں خلل ڈالا ہے اور فصل کے بعد کے اہم نقصانات کا خطرہ لاحق ہے، جس سے ہزاروں کسانوں کی روزی روٹی متاثر ہو رہی ہے"۔

کرناٹک کی چیف سکریٹری شالنی رجنیش کے خط میں بھی ایسے ہی خدشات کی بازگشت ہے۔ دونوں خطوط میں کہا گیا ہے کہ کرناٹک کے کسان جوابی اقدامات کر سکتے ہیں۔ جس میں آندھرا پردیش سے کرناٹک تک سرحد کے پار سبزیوں اور دیگر زرعی اجناس کی فروخت کو روکنا شامل ہے، جس سے "بین ریاستی کشیدگی بڑھے گی۔"

یہ تعطل اس تناظر میں سامنے آیا ہے کہ دو ہمسایہ ریاستوں میں ایک دوسرے کی مخالف جماعتوں کی حکومت ہے۔

کرناٹک میں کانگریس برسراقتدار ہے، جب کہ آندھرا پردیش میں تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کی قیادت والی حکومت ہے، جو مرکز میں بی جے پی کی زیرقیادت قومی جمہوری اتحاد میں کلیدی اتحادی ہے۔

آندھرا پردیش حکومت نے کرناٹک کے خطوط کا سرکاری طور پر ابھی تک جواب نہیں دیا ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پردیش حکومت کرناٹک میں کرناٹک کے سے کرناٹک حکومت نے کے ضلع

پڑھیں:

مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟

دنیا کے بیشتر ممالک میں آج بھی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دی جاتی ہے حالانکہ وہ مساوی کام کر رہی ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں خواتین کھلاڑیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا، اقوام متحدہ نے کیا حل بتایا؟

اقوام متحدہ کے ادارے یو این ویمن نے ’مساوی اجرت کے عالمی دن‘ کے موقعے پر حکومتوں، آجروں اور محنت کش تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاشی ناانصافی کے خاتمے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اوسطاً خواتین کو دنیا بھر میں مردوں کے مقابلے میں 20 فیصد کم تنخواہ دی جاتی ہے جب کہ اقلیتی نسلی گروہوں، معذور خواتین اور مہاجر خواتین کے ساتھ یہ فرق اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے: مخصوص ایام میں خواتین ایتھلیٹس کو درپیش چیلنجز: کھیل کے میدان میں ایک پوشیدہ آزمائش

اجرت یا تنخواہ کی یہ تفریق نہ صرف خواتین کی معاشی خودمختاری کو متاثر کرتی ہے بلکہ جامع اور پائیدار ترقی کے راستے میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

یہ صرف صنفی فرق نہیں، انسانی حقوق کا مسئلہ ہے

یو این ویمن نے واضح کیا ہے کہ مساوی اجرت محض ایک سماجی یا معاشی مطالبہ نہیں بلکہ ایک بنیادی انسانی حق ہے جس کی توثیق آئی ایل او کنونشن 100 اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں کی گئی ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ جب خواتین کو کم اجرت دی جاتی ہے تو یہ نہ صرف معاشی امتیاز ہے بلکہ انصاف، برابری اور باہمی تعاون کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔

مزید پڑھیں: دنیا میں کتنی خواتین جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار، المناک حقائق

30 سال قبل، حکومتوں نے بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن میں مساوی اجرت کے لیے قانون سازی اور عملدرآمد کا وعدہ کیا تھا جسے بعد ازاں پائیدار ترقی کے 2030 ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔

مگر اب جبکہ سنہ 2030 صرف 5 سال دور ہے یو این ویمن نے زور دیا ہے کہ رفتار بڑھائی جائے۔

حل کیا ہے؟ اقوام متحدہ کی سفارشات

یو این ویمن نے درج ذیل ٹھوس اقدامات کی تجویز دی ہے۔ ان اقدامات میں شامل ہے کہ حکومتیں مضبوط قوانین اور پالیسیاں متعارف کرائیں جو اجرت میں صنفی تفریق کو ختم کریں، آجر ادارے شفاف تنخواہی نظام اپنائیں اور صنفی مساوات پر مبنی آڈٹ کرائیں، محنت کش تنظیمیں اجتماعی سودے بازی اور سماجی مکالمے کو فروغ دیں اور تحقیقاتی ادارے اور نجی شعبہ ڈیٹا شفافیت اور احتساب میں کردار ادا کریں۔

یو این ویمن، عالمی ادارہ محنت اور او ای سی ڈی کے ساتھ مل کر ’مساوی اجرت اتحاد ‘ کی قیادت کر رہا ہے جو اس عالمی مسئلے کے حل کے لیے سرکاری و نجی سطح پر شراکت داری کو فروغ دیتا ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ وعدے کو عمل میں بدلا جائے

یو این ویمن نے عالمی رہنماؤں کو یاد دلایا ہے کہ اجرت میں برابری کی مخالفت دراصل انصاف کے اصولوں پر حملہ ہے۔

ادارے نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متعلقہ فریقین جراتمندانہ اقدامات کے ساتھ اس ناہمواری کو ختم کرنے کے لیے دوبارہ پرعزم ہوں تاکہ خواتین کو بھی وہی معاشی احترام ملے جو مردوں کو حاصل ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خواتین سے امتیازی سلوک خواتین سے ناروا سلوک خواتین کی کم اجرت خواتین کے ساتھ غیر مساوی سلوک مرد عورت میں تفریق

متعلقہ مضامین

  • اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں شدید بارش اور لینڈ سلائیڈنگ ‘18 افراد ہلاک
  • مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
  • ’میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟‘
  • حکومت سیلاب متاثرین کے لیے عالمی امداد کی اپیل کیوں نہیں کر رہی؟
  • سکھوں نے کینیڈا میں بھارتی قونصلیٹ کے گھیراؤ کا اعلان کیوں کیا؟
  • صبا قمر کی شادی کی خبریں کیوں زیر گردش ہیں؟ حیران کن وجہ سامنے آگئی
  • سچ بولنے والوں پر کالے قانون "پی ایس اے" کیوں عائد کئے جارہے ہیں، آغا سید روح اللہ مہدی
  • سامعہ حجاب نے حسن زاہد کو کیوں معاف کیا؟ ٹک ٹاکر نے سب کچھ بتادیا
  • بھارتی حکومت نے سکھ یاتریوں کو بابا گورونانک کی برسی پر آنے سے روک دیا
  • پاک بھارت میچ کے بعد سلمان آغا پوسٹ میچ پریزنٹیشن میں کیوں نہیں گئے؟ وجہ سامنے آگئی