معیشت کا استحکام، مربوط حکمت عملی کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
کسی بھی ملک کی معیشت کے استحکام میں اس کی ایمانداری، خود انحصاری اور مربوط حکمت عملی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بصورت دیگر ملک قرضوں اور بیرونی امداد پر انحصارکرنے لگتا ہے، جس کے کئی مضر اثرات ملکی معیشت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
پاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں میں جکڑا ہوا ملک ہے۔ آئی ایم ایف خود کو ایک غیر جانبدار ادارہ قرار دیتا ہے، لیکن کئی معاشی ماہرین اور نقاد اسے مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکا کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ادارہ سمجھتے ہیں۔
اس کی پالیسیوں کا جھکاؤ اکثر سرمایہ دارانہ نظام کی طرف ہوتا ہے، اور اس کی شرائط اکثر ترقی پذیر ممالک کی سماجی فلاحی اسکیموں کو متاثرکرتی ہیں۔ چنانچہ یہ سوال ابھرتا ہے کہ آیا آئی ایم ایف واقعی غیر جانبدار ہے یا وہ عالمی طاقتوں کے معاشی ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کا کردار ایک پیچیدہ اور متنازعہ موضوع رہا ہے۔ ہم نے کئی بار آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے اور ہر بار ان قرضوں کے ساتھ سخت معاشی شرائط بھی عائد کی گئی ہیں۔ اِن پالیسیوں کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی دیکھی گئی ہے۔
بظاہر تو ان اقدامات کا مقصد معیشت کو مستحکم کرنا ہے، لیکن عام شہری کے لیے ان کے نتائج پریشان کن ہوتے ہیں۔ غربت میں اضافہ اور روزگارکے مواقع میں کمی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کو چاہیے کہ وہ صرف اعداد و شمار پر نہیں بلکہ انسانی پہلوؤں پر بھی توجہ دے۔
اس کی پالیسیوں میں معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ سماجی تحفظ کی ضمانت بھی ہونی چاہیے۔ قرض کی شرائط میں لچک اور مقامی ضروریات کو سمجھنے کا جذبہ شامل ہونا چاہیے تاکہ عوام پر براہ راست بوجھ نہ پڑے۔
پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ایسی راہ پر گامزن ہے، جہاں بیرونی قرضے قومی بجٹ کا مستقل حصہ بن چکے ہیں۔ یہ قرضے زیادہ تر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیے جاتے ہیں، جن میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اور سب سے اہم، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) شامل ہیں۔
ہر سال حکومت پاکستان کو اپنے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے، درآمدات کی ادائیگی، زرمبادلہ کے ذخائرکو سنبھالنے اور پرانے قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف معیشت پر بوجھ بنتا جا رہا ہے، بلکہ قومی خودمختاری کے لیے بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔
قرض لینے کی ایک بڑی وجہ ملک کی غیر متوازن درآمد و برآمد کی پالیسی ہے۔ ہم زیادہ تر اپنی ضروریات کے لیے بیرونی اشیاء پر انحصارکرتے ہیں، جن میں مشینری، پٹرولیم مصنوعات، اور دیگر صنعتی خام مال شامل ہیں، جب کہ برآمدات محدود پیمانے پر ہوتی ہیں۔
ٹیکس نظام کا غیر مؤثر ہونا، سرکاری اداروں میں کرپشن، توانائی کے بحران اور پالیسیوں میں تسلسل کی کمی وہ مسائل ہیں جو قرض لینے کی مجبوری کو جنم دیتے ہیں۔درآمدات (Imports) اور برآمدات (Exports) میں توازن پیدا کرنا کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے نہایت اہم ہے، کیونکہ اس سے تجارتی خسارہ (Trade Deficit) یا تجارتی فائدہ (Trade Surplus) متعین ہوتا ہے۔
ایک پائیدار معیشت کے لیے ضروری ہے کہ درآمدات اور برآمدات کے درمیان توازن برقرار رکھا جائے۔ یہ توازن مختلف پالیسیوں، اصلاحات اور اقدامات کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں توازن پیدا کرنے کے لیے مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے، جیسے برآمدات کو فروغ دینا، صنعتی پیداوار میں اضافہ، مقامی صنعتوں کو فروغ دے کر برآمدی اشیاء کی پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے۔ برآمدی سبسڈی اور مراعات: حکومت برآمد کنندگان کو سبسڈی، ٹیکس میں چھوٹ اور آسان قرضوں کی سہولت دینی چاہیے۔
نئی منڈیوں کی تلاش: بین الاقوامی سطح پر نئی منڈیاں تلاش کی جائیں جہاں ملکی مصنوعات کو فروغ دیا جا سکے۔ معیار میں بہتری: مصنوعات کے معیار کو عالمی معیار کے مطابق بنا کر ان کی مانگ بڑھائی جا سکتی ہے۔
توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو فروغ دیا جائے تاکہ درآمدی ایندھن پر انحصارکم ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی اصلاحات کے ذریعے دیہی معیشت کو مستحکم کرنا ضروری ہے تاکہ ملک اپنی غذائی ضروریات خود پوری کر سکے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات قرضوں کا استعمال غیر پیداواری منصوبوں یا انتظامی اخراجات پرکیا جاتا ہے، جس سے نہ تو معیشت میں کوئی پائیدار بہتری آتی ہے اور نہ ہی عوام کو کوئی براہ راست فائدہ پہنچتا ہے۔ دوسری طرف، قرضوں پر سود کی ادائیگی ملکی آمدنی کا ایک بڑا حصہ کھا جاتی ہے، جس سے ترقیاتی کام مزید متاثر ہوتے ہیں۔
صورتِ حال سے نکلنے کے لیے صرف وقتی اقدامات کافی نہیں بلکہ طویل مدت کے لیے ایک جامع، دور اندیش اور خود انحصاری پر مبنی پالیسی درکار ہے۔ سب سے پہلے، برآمدات میں نمایاں اضافہ ضروری ہے۔ اس کے لیے زرعی، صنعتی اور آئی ٹی کے شعبوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔
نوجوانوں کو فنی تعلیم اور ڈیجیٹل ہنر سکھا کر عالمی منڈی میں متحرک کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا، مالی شفافیت کو یقینی بنانا اور حکومتی فضول خرچی کو کم کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم بحیثیت قوم اس امر کو تسلیم کر لیں کہ بیرونی قرضہ ایک عارضی سہارا ہے، مستقل حل نہیں، تو ہم ایک ایسے راستے کی طرف بڑھ سکتے ہیں جہاں خود انحصاری، شفافیت اور دیانت داری پر مبنی معیشت فروغ پاسکے گی۔
قرض سے نجات دراصل ایک ذہنی و فکری تبدیلی کا نام ہے، جو اس وقت ممکن ہے جب قیادت، ادارے اور عوام مل کر یہ فیصلہ کریں کہ اب ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے، نہ کہ دوسروں کے سہارے زندگی گزارنی ہے۔ دس جون کو اس سال کا بجٹ پیش کیا جائے گا۔ اگر اس کی نوعیت گزشتہ سال کی مانند رہی، تو مہنگائی میں اضافہ، ٹیکسوں کا بوجھ اور ترقیاتی منصوبوں میں کمی جیسے عوامل عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ طویل المدتی معاشی حکمت عملی اختیارکرے تاکہ آئی ایم ایف پر انحصار ختم ہو سکے۔ اس میں ٹیکس نظام کی بہتری، برآمدات میں اضافہ، زرعی اور صنعتی ترقی، مقامی سرمایہ کاری کے فروغ اور بدعنوانی کے خاتمے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرکے پاکستان انسانی وسائل کو بہتر بنا سکتا ہے، جو معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔دس جون کو اس سال کا بجٹ پیش کیا گیا، اس کی نوعیت گزشتہ سال کی مانند رہنے سے مہنگائی میں اضافہ، ٹیکسوں کا بوجھ اور ترقیاتی منصوبوں میں کمی جیسے عوامل عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دے، مہنگائی پر قابو پانے کے لیے موثر حکمتِ عملی اپنائے اور ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دے تاکہ عوام کو حقیقی ریلیف میسر آسکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف حکمت عملی میں اضافہ درا مدات برا مدات کی معیشت کو فروغ کے لیے کیا جا
پڑھیں:
’’امہ کی بے عملی نے اسرائیل کو حملے کا حوصلہ دیا‘‘ سینٹ، قومی اسمبلی میں متفقہ مذمتی قرارداد
اسلام آباد+کراچی (وقائع نگار+سٹاف رپورٹر) قومی اسمبلی اور سینٹ نے ایران پر اسرائیلی حملوں کیخلاف قرارداد منظور کر لی۔ قومی اسمبلی میں نوید قمر اور سینٹ میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے قرارداد مذمت پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ عالمی برادری اور مسلم امہ دو سال سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا تماشہ دیکھ رہی تھی۔ مسلم امہ کی بے عملی نے اسرائیل کو خود مختار مسلم ملک پر حملے کا حوصلہ دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان اسرائیل کی طرف سے ایران کے خلاف بلاجواز اور ناجائز جارحیت کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اسرائیلی حملہ ایرانی ریاست کی سالمیت کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ متن میں کہا گیا ہے کہ ایران پر حملہ بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی ہے۔ حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں کی بھی واضح خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل نے مسلسل جارحیت سے مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کو سنگین خطرات میں ڈال دیا۔ قرارداد میں واضح کیا گیا کہ پاکستان ایران کی حکومت، پارلیمنٹ اور عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ ایوان فوری طور پر سلامتی کونسل اور او آئی سی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ سلامتی کونسل اور او آئی سی ایران پر جارحیت کو فوری طورپر روکیں۔ اسرائیلی حملے کے خلاف قرارداد پر بحث کے دوران راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ اسرائیل امریکہ کا ناجائز بچہ ہے، فلسطینیوں پر حملے کے بعد اسرائیل کا حوصلہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس نے ایران پر حملہ کر دیا۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ اسرائیل کا وجود ہی ناجائز تھا، امن کے لئے خطرہ بن رہا ہے۔ بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ ایران پر حملہ تاریخ کا المناک واقعہ ہے۔ ہم اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ عرب لیگ کی کانفرنس فوری بلائی جائے۔ اسرائیل علاقائی سالمیت کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔ صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست تھی، ہے اور رہے گی۔ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر دو ممالک ہیں، ایک ایران اور دوسرا پاکستان۔ نیتن یاہو بھی مودی کی طرح پاکستان کے خلاف کسی سازش سے باز نہیں آئے گا۔ نیتن یاہو کو عالمی عدالت انصاف سے سزا دلوائی جائے اور اسے پھانسی دے کر لاش کو عبرتناک مثال بنایا جائے۔ سینٹ میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کے متن میں تحریر کیا گیا کہ اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی کنونشن کی خلاف ورزی کی۔ اسرائیل کا اقدام جنگی جرم ہے۔ خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں بچوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ اجلاس کے دوران اسرائیل کے ایران پر حملے کے خلاف پیش کی گئی مذمتی قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ علاوہ ازیں پاکستان نے ایران کے خلاف اسرائیل کی بلاجواز اور غیرقانونی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی حملے ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ ایرانی عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ تہران کو دفاع کا حق حاصل ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حملے اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت ایران کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان ایرانی عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور اسرائیل کی کھلی اشتعال انگیزیوں کی دوٹوک انداز میں مذمت کرتا ہے۔ اسرائیلی جارحیت اور اشتعال انگیزی پورے خطے، امن، سلامتی اور استحکام کے لیے سنگین خطرہ اور شدید تشویش کا باعث ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کا تحفظ کریں۔ اسرائیلی جارحیت کو فوری طور پر روکا اور حملہ آور کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔پنجاب‘سندھ اور خیبر پی کے اسمبلیوں نے بھی قراردادیں پاس کر لیں۔ قراردادوں میں ایران پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی گئی۔