Express News:
2025-09-18@15:58:26 GMT

معیشت کا استحکام، مربوط حکمت عملی کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

کسی بھی ملک کی معیشت کے استحکام میں اس کی ایمانداری، خود انحصاری اور مربوط حکمت عملی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بصورت دیگر ملک قرضوں اور بیرونی امداد پر انحصارکرنے لگتا ہے، جس کے کئی مضر اثرات ملکی معیشت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

پاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں میں جکڑا ہوا ملک ہے۔ آئی ایم ایف خود کو ایک غیر جانبدار ادارہ قرار دیتا ہے، لیکن کئی معاشی ماہرین اور نقاد اسے مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکا کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ادارہ سمجھتے ہیں۔

اس کی پالیسیوں کا جھکاؤ اکثر سرمایہ دارانہ نظام کی طرف ہوتا ہے، اور اس کی شرائط اکثر ترقی پذیر ممالک کی سماجی فلاحی اسکیموں کو متاثرکرتی ہیں۔ چنانچہ یہ سوال ابھرتا ہے کہ آیا آئی ایم ایف واقعی غیر جانبدار ہے یا وہ عالمی طاقتوں کے معاشی ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے۔

پاکستان میں آئی ایم ایف کا کردار ایک پیچیدہ اور متنازعہ موضوع رہا ہے۔ ہم نے کئی بار آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے اور ہر بار ان قرضوں کے ساتھ سخت معاشی شرائط بھی عائد کی گئی ہیں۔ اِن پالیسیوں کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی دیکھی گئی ہے۔

بظاہر تو ان اقدامات کا مقصد معیشت کو مستحکم کرنا ہے، لیکن عام شہری کے لیے ان کے نتائج پریشان کن ہوتے ہیں۔ غربت میں اضافہ اور روزگارکے مواقع میں کمی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کو چاہیے کہ وہ صرف اعداد و شمار پر نہیں بلکہ انسانی پہلوؤں پر بھی توجہ دے۔

اس کی پالیسیوں میں معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ سماجی تحفظ کی ضمانت بھی ہونی چاہیے۔ قرض کی شرائط میں لچک اور مقامی ضروریات کو سمجھنے کا جذبہ شامل ہونا چاہیے تاکہ عوام پر براہ راست بوجھ نہ پڑے۔

پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ایسی راہ پر گامزن ہے، جہاں بیرونی قرضے قومی بجٹ کا مستقل حصہ بن چکے ہیں۔ یہ قرضے زیادہ تر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیے جاتے ہیں، جن میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اور سب سے اہم، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) شامل ہیں۔

ہر سال حکومت پاکستان کو اپنے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے، درآمدات کی ادائیگی، زرمبادلہ کے ذخائرکو سنبھالنے اور پرانے قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف معیشت پر بوجھ بنتا جا رہا ہے، بلکہ قومی خودمختاری کے لیے بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔

قرض لینے کی ایک بڑی وجہ ملک کی غیر متوازن درآمد و برآمد کی پالیسی ہے۔ ہم زیادہ تر اپنی ضروریات کے لیے بیرونی اشیاء پر انحصارکرتے ہیں، جن میں مشینری، پٹرولیم مصنوعات، اور دیگر صنعتی خام مال شامل ہیں، جب کہ برآمدات محدود پیمانے پر ہوتی ہیں۔

ٹیکس نظام کا غیر مؤثر ہونا، سرکاری اداروں میں کرپشن، توانائی کے بحران اور پالیسیوں میں تسلسل کی کمی وہ مسائل ہیں جو قرض لینے کی مجبوری کو جنم دیتے ہیں۔درآمدات (Imports) اور برآمدات (Exports) میں توازن پیدا کرنا کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے نہایت اہم ہے، کیونکہ اس سے تجارتی خسارہ (Trade Deficit) یا تجارتی فائدہ (Trade Surplus) متعین ہوتا ہے۔

ایک پائیدار معیشت کے لیے ضروری ہے کہ درآمدات اور برآمدات کے درمیان توازن برقرار رکھا جائے۔ یہ توازن مختلف پالیسیوں، اصلاحات اور اقدامات کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں توازن پیدا کرنے کے لیے مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے، جیسے برآمدات کو فروغ دینا، صنعتی پیداوار میں اضافہ، مقامی صنعتوں کو فروغ دے کر برآمدی اشیاء کی پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے۔ برآمدی سبسڈی اور مراعات: حکومت برآمد کنندگان کو سبسڈی، ٹیکس میں چھوٹ اور آسان قرضوں کی سہولت دینی چاہیے۔

نئی منڈیوں کی تلاش: بین الاقوامی سطح پر نئی منڈیاں تلاش کی جائیں جہاں ملکی مصنوعات کو فروغ دیا جا سکے۔ معیار میں بہتری: مصنوعات کے معیار کو عالمی معیار کے مطابق بنا کر ان کی مانگ بڑھائی جا سکتی ہے۔

توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو فروغ دیا جائے تاکہ درآمدی ایندھن پر انحصارکم ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی اصلاحات کے ذریعے دیہی معیشت کو مستحکم کرنا ضروری ہے تاکہ ملک اپنی غذائی ضروریات خود پوری کر سکے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات قرضوں کا استعمال غیر پیداواری منصوبوں یا انتظامی اخراجات پرکیا جاتا ہے، جس سے نہ تو معیشت میں کوئی پائیدار بہتری آتی ہے اور نہ ہی عوام کو کوئی براہ راست فائدہ پہنچتا ہے۔ دوسری طرف، قرضوں پر سود کی ادائیگی ملکی آمدنی کا ایک بڑا حصہ کھا جاتی ہے، جس سے ترقیاتی کام مزید متاثر ہوتے ہیں۔

صورتِ حال سے نکلنے کے لیے صرف وقتی اقدامات کافی نہیں بلکہ طویل مدت کے لیے ایک جامع، دور اندیش اور خود انحصاری پر مبنی پالیسی درکار ہے۔ سب سے پہلے، برآمدات میں نمایاں اضافہ ضروری ہے۔ اس کے لیے زرعی، صنعتی اور آئی ٹی کے شعبوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔

نوجوانوں کو فنی تعلیم اور ڈیجیٹل ہنر سکھا کر عالمی منڈی میں متحرک کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا، مالی شفافیت کو یقینی بنانا اور حکومتی فضول خرچی کو کم کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم بحیثیت قوم اس امر کو تسلیم کر لیں کہ بیرونی قرضہ ایک عارضی سہارا ہے، مستقل حل نہیں، تو ہم ایک ایسے راستے کی طرف بڑھ سکتے ہیں جہاں خود انحصاری، شفافیت اور دیانت داری پر مبنی معیشت فروغ پاسکے گی۔

قرض سے نجات دراصل ایک ذہنی و فکری تبدیلی کا نام ہے، جو اس وقت ممکن ہے جب قیادت، ادارے اور عوام مل کر یہ فیصلہ کریں کہ اب ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے، نہ کہ دوسروں کے سہارے زندگی گزارنی ہے۔ دس جون کو اس سال کا بجٹ پیش کیا جائے گا۔ اگر اس کی نوعیت گزشتہ سال کی مانند رہی، تو مہنگائی میں اضافہ، ٹیکسوں کا بوجھ اور ترقیاتی منصوبوں میں کمی جیسے عوامل عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ طویل المدتی معاشی حکمت عملی اختیارکرے تاکہ آئی ایم ایف پر انحصار ختم ہو سکے۔ اس میں ٹیکس نظام کی بہتری، برآمدات میں اضافہ، زرعی اور صنعتی ترقی، مقامی سرمایہ کاری کے فروغ اور بدعنوانی کے خاتمے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرکے پاکستان انسانی وسائل کو بہتر بنا سکتا ہے، جو معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔دس جون کو اس سال کا بجٹ پیش کیا گیا، اس کی نوعیت گزشتہ سال کی مانند رہنے سے مہنگائی میں اضافہ، ٹیکسوں کا بوجھ اور ترقیاتی منصوبوں میں کمی جیسے عوامل عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دے، مہنگائی پر قابو پانے کے لیے موثر حکمتِ عملی اپنائے اور ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دے تاکہ عوام کو حقیقی ریلیف میسر آسکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف حکمت عملی میں اضافہ درا مدات برا مدات کی معیشت کو فروغ کے لیے کیا جا

پڑھیں:

پاک سعودیہ اسٹریٹجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ (SDMA)خطے اور دنیا میں امن و استحکام کا ضامن

ویب ڈیسک: پاک سعودیہ اسٹریٹجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ (SDMA)ایک تاریخی معاہدہ ہے جو خطے اور دنیا میں امن و استحکام کا ضامن ہے،اس معاہدے پر دستخط دراصل کیا معنی رکھتے ہیں ،ذیل میں درج اہم نکات نے معاہدے کی اہمیت شفاف الفاظ میں اجاگر  کر دی ہے۔

  1.پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اس تاریخی اور نہایت اہم اسٹریٹجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ (SDMA) پر دستخط اس کی اسٹریٹجک نوعیت کو ظاہر کرتے ہیں،اصل نکتہ یہ سمجھنا  ضروری ہے کہ اس میں اسٹریٹجک کیا ہے، نہ کہ پروپیگنڈا کرنے والوں کی گمراہ کن باتوں میں آیا جائے، اسٹریٹجک پہلو یہ ہے کہ یہ معاہدہ کئی اہم نکات پر محیط ہے جن میں عسکری تعلقات، معاشی تعاون، جغرافیائی و علاقائی سلامتی اور عوامی روابط شامل ہیں۔

پاکستان میں مشرق ڈیجیٹل بینک کا آغاز، امارات سے پاکستانی مفت ترسیلات زر بھیج سکیں گے  

  2. اس تاریخی معاہدے کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہ صرف اوپر سے نیچے (Top to Bottom) نہیں بلکہ نیچے سے اوپر (Bottom to Top) بھی ہے۔

  3.نیچے سے اوپر (Bottom to Top) کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام کے درمیان دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں جو اس معاہدے کے ذریعے مزید مضبوط ہوں گے، یہ معاہدہ صرف دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان عہد و پیمان نہیں بلکہ عوام کی محبت اور لگن سے پھوٹنے والا رشتہ ہے، جسے سمجھنا نہایت ضروری ہے۔

کویتی شہریت سے محروم افراد کے لیے بڑی خوشخبری

  4. اگر ہم ماضی میں کسی بھی دو ممالک کے درمیان ہونے والے ایسے تاریخی معاہدوں کا جائزہ لیں تو ان کے لیے دو بنیادی شرائط رہی ہیں کہ فریقین ذمہ دار (Responsible) ہوں اور قابل (Capable) بھی، پاکستان اور سعودی عرب کا بھی یہی معاملہ ہے کہ دونوں ممالک اپنی صلاحیت اور بصیرت کے ساتھ ہمیشہ اپنے جغرافیائی سیاسی اقدامات میں اعلیٰ درجے کی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔

  5. وہ چند نام نہاد دانشور جو اس معاہدے کو اپنی بے جا سوچ کے ذریعے موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ یہ سب صرف چند لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے جان بوجھ کر کر رہے ہیں۔

گوجرانوالہ میں فوڈ پوائزننگ سے ایک اور بچی جاں بحق،  تعداد 4 ہوگئی  

  6. پاکستان اور سعودی عرب نے ہمیشہ خطرات کے دائرے کو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ سنبھالا ہے اور مستقبل میں بھی خطے اور عالمی سطح پر اسی ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔

  7.  معاہدہ دونوں اسٹریٹجک شراکت داروں کے وزن میں مزید اضافہ کرتا  تاکہ سلامتی کے شعبے میں درپیش چیلنجز اور خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے، یہ سلامتی انسانی تحفظ سے لے کر قومی سلامتی تک ہر پہلو پر محیط ہے۔

اڑنے والی کاریں آزمائشی پرواز کے دوران آپس میں ٹکرا گئیں  

  8.  یہ تاریخی معاہدہ ان دشمنوں کو روکنے اور باز رکھنے کا ذریعہ ہے جو ان دو برادر ممالک کے خلاف بلااشتعال جارحیت کا سوچتے ہیں، خاص طور پر ایسے دشمن جن میں تکبر اور اسٹریٹجک غرور پایا جاتا ہے،  اس لئے یہ تاریخی معاہدہ خطے اور دنیا میں امن و استحکام کا ضامن ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جولائی اور اگست کے  درمیان ملکی تجارتی خسارے میں خاطر خواہ اضافہ ریکارڈ
  • پاک سعودیہ اسٹریٹجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ (SDMA)خطے اور دنیا میں امن و استحکام کا ضامن
  •  وزیرِ تجارت جام کمال کی تہران میںایران کے اول نائب صدر سے ملاقات
  • ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں مالی سال 9.9فیصد اضافہ
  • سیلاب نقصانات، پہلے تخمینہ پھر ریلیف کیلئے حکمت عملی: وزیراعظم
  • پاکستان کی بنیاد جمہوریت‘ ترقی اور استحکام کا یہی راستہ: حافظ عبدالکریم
  • سیلاب کے نقصانات کا مکمل تخمینہ لگنے کے بعد بحالی کے کاموں کی حکمت عملی بنائی جائیگی، وزیراعظم
  • سیلاب کے نقصانات کا مکمل تخمینہ لگنے کے بعد بحالی کے کاموں کی حکمت عملی بنائی جائے گی، وزیراعظم
  • وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت سیلابی نقصانات کا جائزہ اجلاس، بحالی کے لیے مؤثر حکمتِ عملی کی ہدایت
  • پشاور، اتحاد امت و استحکام پاکستان کانفرنس