Daily Mumtaz:
2025-07-31@20:03:57 GMT
ممکن ہے ہم اسرائیل ایران جنگ میں شامل ہوجائیں، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ممکن ہے ہم اسرائیل ایران جنگ میں شامل ہوجائیں۔
امریکی ٹی وی کی سینئر صحافی ریچل اسکاٹ سے آف کیمرہ گفتگو میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکا فی الحال اسرائیل ایران جنگ میں شامل نہیں ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ امید ہے ایران اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ ہو جائے گا، ایران اور اسرائیل جنگ بندی کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے جی 7 اجلاس میں شرکت کے لیے روانگی سے پہلے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو بھی کی۔
امریکا نے اسرائیل سے ایران پر حملے روکنے کا کہا ہے یا نہیں؟ اس سوال پر ٹرمپ نے جواب دینے سے گریز کیا اور کہا کہ امریکا اسرائیل کے دفاع میں اس کی حمایت جاری رکھے گا۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
صدر ٹرمپ کا بھارتی مصنوعات پر 25 ٹیرف عائد کرنے کا عندیہ
وا شنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 جولائی ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی مصنوعات پر 25 ٹیرف عائد کرنے کا عندیہ دیا ہے ایئر فورس ون پر صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے جا رہے ہیں؟جس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کے خیال میں ایسا ہونے والا ہے. امریکی صدر نے کہا کہ بھارت میرا دوست ہے انہوں نے میری درخواست پر پاکستان کے ساتھ جنگ بھی ختم کی مگر بھارت کے ساتھ معاہدہ طے نہیں پایا ہے.(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ بھارت ایک اچھا دوست رہا ہے لیکن کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں بھارت نے کہیں زیادہ ٹیرف لگائے ہیں یاد رہے کہ امریکی صدر نے متعدد ممالک پر یکم اگست سے اضافی ٹیرف لگانے کی دھمکی دی ہے امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی معاہدے اور یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین کے ساتھ سکاٹ لینڈ میں مذاکرات کے بعدصدر ٹرمپ نے اعلان کیاتھا کہ یورپی یونین سے امریکہ برآمد کی جانے والی تمام اشیا پر 15 فیصد ٹیرف عائد ہو گا. اس سے قبل امریکہ دیگر کئی ممالک بشمول جاپان، برطانیہ، انڈونیشیا اور کمبوڈیا کے ساتھ کامیابی سے تجارتی معاہدے طے کر چکا ہے تاہم اب بھی کئی مشکل مذاکرات رہتے ہیں جن میں چین، میکسیکو اور کینیڈا کے ساتھ ممکنہ تجارتی معاہدے شامل ہیں. یورپی یونین کے ساتھ معاہدے پر اتحاد کے دو اہم ممالک فرانس اور اٹلی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں اٹلی کی وزیراعظم جارجیا میلونی نے صحافیوں سے گفتگو میں معاہدے کو غیرمنصفانہ اور دھونس قراردیا انہوں نے کہا کہ اٹلی معاہدے کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد اپنا تفصیلی ردعمل دے گا دوسری جانب فرانس کے وزیرتجارت بھی ردعمل میں معاہدے پر عدم اطیمنان کا اظہار کرچکے ہیں. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فرانس اور اٹلی کے علاوہ یورپی یونین کے رکن کئی ممالک اس معاہدے پر خوش نہیں ہیں اور معاہدے پر نظرثانی کے لیے امریکا اور یورپی یونین کے درمیان دوبارہ مذکرات کا امکان ہے تاہم مجوزہ معاہدے میں یورپی یونین روس سے تیل اور گیس خریدنے کی صورت میں یونین کے رکن ممالک پر امریکی پابندیاں اثراندازنہیں ہونگی. دوسری جانب امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا دنیا میں اپنا اعتماد ختم کررہا ہے اور تاثردیا جارہا ہے کیونکہ امریکا نے پانچ سال کے اندر ہی کینیڈا اور میکسیو سمیت خطے کے ممالک کے درمیان طے پانے والے اٹلانٹک تجارتی معاہدے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کرلی صدر کلنٹن کی کابینہ میں وزیرلیبراور ماہراقتصادی امور پروفیسررابرٹ ریچ کا کہنا ہے کہ تجارتی جنگ میں نقصان امریکا اور امریکی شہریوں کا ہی ہوگا عالمی برداری میں امریکا کی طویل مدت سے بنائی ساکھ متاثرہورہی ہے دوسری جانب امریکا میں چھوٹے کاروبار سے لے کر اربوں پتی کارپوریشنزتک کا بڑی حد تک انحصار چین پر ہے اور عالمی منڈیوں میں چین کو اجارہ داری قائم کرنے میں خود واشنگٹن نے مدد دی تھی . انہوں نے کہا کہ یورپ ‘جاپان‘کوریا‘کینیڈا‘آسٹریلیا ‘میکسیو سمیت دنیا بھر میں دیگر اتحادیوں کے ساتھ تجارتی تعلقات میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کے نتائج صرف تجارت تک محدودنہیں رہیں گے بلکہ جاپان جیسے ملک جو اپنے دفاع میں امریکا پر انحصار کرتے ہیں وہ دفاعی معاملات پر بھی ترجیحات کو تبدیل کرنے کے بارے میں سوچیں گے. جاپان میں سابق امریکی سفیر اور صدر اوبامہ کے عہد میں وائٹ ہاﺅس کے چیف آف سٹاف کے طو ر پر خدمات انجام دینے والے امریکی ماہر راحم ایمانوئل بھی پروفیسر ریچ سے اتفاق کرتے ہیں ان کا کہنا ہے جاپان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے اور سرمایہ کاری کے لیے انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان متعدداہم معاہدوں کو یقینی بنایا ان کا خیال ہے کہ ٹوکیو کے ساتھ تعلقات امریکا کے لیے انتہائی اہم ہیں ملکوں کے درمیان تجارتی عدم توازن رہتا ہے مگر اسے سخت گیر پالسیوں کی بجائے دوستانہ اندازمیں سفارتی چینلزکے ذریعے حل کیا جانا چاہیے. سابق سفیر ایمانوئل کے نزدیک سفارتی چینلزکے ذریعے بات چیت زیادہ مفید ہوتی ہے اور دوست ممالک کے ساتھ رازدرانہ سفارتی چینلزکے ذریعے ہی مذکرات ہونے چاہیں تھے مگر کھلے عام میڈیا پر نام لے کر تنقید کرنے سے یقینی طور پر بہت سارے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہے .