رجیم چینج یا پھر نابودی! آخر کیا ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ اگر طول پکڑ جائے گی تو یقیناً اس جنگ میں جہاں اسرائیل کی نابودی ہے، وہاں ساتھ ساتھ امریکہ اور مغربی حکومتوں کی بالا دستی اور اجارہ داری بھی نابود ہوگی۔ غاصب صیہونی گینگ کے تمام مطلوبہ اہداف اسوقت الٹے پڑ چکے ہیں، کیونکہ ایران یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ غاصب صیہونی گینگ کا مقابلہ کرے، نہ صرف اسرائیل کا بلکہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کا بھی مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہرحال ایران میں غاصب صیہونی گینگ کی خواہشات کے مطابق رجیم کی تبدیلی تو ممکن نہیں، لیکن اب اسرائیل کی نابودی واضح امر بن چکی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
امریکہ اور غاصب صیہونی گینگ (اسرائیل) نے جمعہ 13 جون کو ایران میں اس منصوبہ کے ساتھ اپنی پوری طاقت کا استعمال کرتے ہوئے حملہ کیا کہ اب ایران میں رجیم چینج کرنا ہے، یعنی اسلامی انقلاب کے نتیجہ میں قائم ہونے والے پینتالیس سالہ نظام کو ختم کرنا ہے۔ اس بات کی اصل وجہ یہ بنی ہے کہ امریکہ اور غاصب صیہونی گینگ فلسطین، لبنان، یمن اور عراق سمیت دیگر مقامات پر مزاحمت کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ ایران کو ہی توڑ دیا جائے تو مزاحمت ختم ہو جائے گی، لیکن یہ بھی ان کی ایک اور بڑی حماقت اور بھول ہے۔ بہرحال امریکہ اور غاصب صیہونی گینگ نے ایران کے جوہری معاملہ اور جوہری صنعت میں حاصل ہونے والی بیش بہا ترقی کو اپنے لئے خطرہ قرار دے کر ایک نامعقول جواز بنا کر جمعہ 13 جون 2025ء کو ایران پر حملے کیے۔
ان حملوں سے قبل ہی کئی دن سے غاصب صہیونی گینگ کے عہدیدار اور ذرائع ابلاغ مسلسل ایران کو دھمکیاں دے رہے تھے اور ایران بھی امریکہ اور غاصب صیہونی گینگ کی اس سازش سے آگاہ تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ غاصب صیہونی گینگ نے اندرونی انٹیلی جنس یعنی اپنے مخبروں کے ذریعہ حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر ایران پر بڑا حملہ کیا اور خود صیہونی گینگ نے اعتراف کیا کہ ایران پر حملہ کے لئے دو سو جنگی جہاز اور ساڑھے تین سو حملے کئے گئے۔ ان حملوں میں ایران کی اعلیٰ فوجی قیادت بھی شہید ہوئی اور متعدد نیوکلیئر سائنسدان بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن کر شہید ہوگئے۔ اس صورتحال میں غاصب صیہونی گینگ کی منصوبہ بندی تھی کہ ان غیر معمولی حملوں سے ایران کی حکومت کمزور ہو جائے گی اور پھر اندر سے امریکہ اور صیہونی غاصب گینگ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے انارکی پھیلانے کا کام شروع کریں۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایران کی حکومت متزلزل ہو کر گر جائے گی اور امریکہ رضا شاہ پہلوی کی باقیات کو ایران میں واپس لا کر اقتدار سونپ دے گا۔ حالانکہ پہلوی خاندان بھی اس وقت امریکہ کے لئے ایک ٹشو پیپر کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ بات اس خاندان کو کچھ عرصہ میں سمجھ آجائے گی۔ امریکہ نے بھی ایران کو دھمکی لگا دی کہ اگر ہمارے سامنے نہ جھکے تو اب جو ہونے والا ہے، وہ غاصب صیہونی گینگ کے حملوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔ یعنی امریکہ اور صیہونی گینگ چاہتے تھے کہ بس جھٹ پٹ میں ایران میں نظام کی بساط لپیٹ دی جائے۔ بہرحال ایران جو پہلے ہی پینتالیس سالوں سے ایسی سینکڑوں سازشوں کا مقابلہ کرتا رہا ہے، ایک مرتبہ پھر ڈٹ کر کھڑا ہوگیا ہے اور جنگ کے چوتھے روز میں مسلسل مقبوضہ فلسطین میں غاصب صیہونی گینگ کے فوجی اور معاشی اور دیگر حساس ٹھکانے ایران کے میزائلوں کی زد پر آچکے ہیں۔
ایران پر اسرائیل کے بھرپور اور خطرناک حملہ کے بعد نیتن یاہو گھمنڈ سے اعلان کر رہا تھا کہ بس اب پہلوی واپس آرہا ہے اور یہ کہ ایران کا نظام ختم ہونے کو ہے۔ لیکن کچھ گھنٹوں کے اندر ہی ایران نے صورتحال کو تبدیل کر دیا۔ یہ صورتحال ایسے حالات میں تبدیل ہوئی، جب دنیا بھر میں ایران کے حامی بھی شدید پریشانی میں مبتلا تھے کہ اتنے بڑے اور بھیانک حملہ کے بعد ایران خاموش کیوں ہے۔؟ لیکن اب ہر گزرتے دن کے ساتھ نہ صرف ایرانی عوام بلکہ دنیا بھر کے اقوام اور بالخصوص فلسطینی عوام کی خوشیوں کی انتہا نہیں رہی۔ اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ آیا جو کچھ امریکہ اور غاصب صیہونی گینگ نے پلان کیا تھا، یعنی ایران میں رجیم چینج یا پھر اسرائیل کی نابودی۔؟ کیونکہ اس وقت مغربی ذرائع ابلاغ جو ہمیشہ فلسطینی مزاحمت کی صہیونی گینگ کے خلاف کاروائیوں کو سینسر کرتے تھے، اس حد تک مجبور ہوچکے ہیں کہ خود صیہونیوں کا حامی ٹی وی چینل فاکس نیوز بھی ایران کے میزائلوں کی کامیابی کو مخفی نہیں رکھ پا رہا ہے۔
یعنی اس وقت غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل ایران کے انتقام کے نشانہ پر ہے اور اب صیہونی گینگ کا سوال کہ ایران میں رجیم چینج کرنا ہے، نابود ہونے کے ساتھ ساتھ خود اسرائیل کی نابودی کا اشارہ بھی دے رہا ہے۔ غاصب صہیونی رجیم کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اندرونی طور پر تمام جماعتیں جہاں ایک طرف نیتن یاہو کو حکومت سے نکالنے کا مطالبہ کر رہی ہیں، وہاں دوسری طرف ایران کے میزائل غاصب صیہونی حکومت کے ناپاک وجود پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ایک بات تو واضح ہو رہی ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت کا خاتمہ تو ہونا ہی ہونا ہے اور ساتھ ساتھ غاصب صیہونی ریاست کا وجود بھی نابودی کی طرف گامزن ہے۔ ایران کے میزائلوں نے صیہونی آبادکاروں کو بڑا واضح پیغام دیا ہے کہ بہت قبضہ کی زندگی گزار لی ہے، اب بہتر ہے کہ سب لوگ واپس یورپ چلے جائیں اور اپنی زندگی محفوظ کریں۔ یعنی غاصب صیہونی ریاست کا وجود خطرے میں ہے اور نابودی کی طرف گامزن ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ اور غاصب صیہونی گینگ کے تمام اندازے اس بارے میں ناکام ہو رہے ہیں اور اب سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی بقاء کیسے ممکن ہوگی، جو کہ کسی صورت میں ممکن نظر نہیں آرہی ہے۔ بی بی سی نے اسرائیل کی حمایت میں لکھا ہے کہ تقریباً نو کروڑ افراد کی آبادی کے ساتھ ایران میں ہونے والے واقعات پورے مشرقِ وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر اثر انداز ہوں گے۔ لیکن بی بی سی یہ لکھنا بھول گیا ہے کہ ستر لاکھ قابضین کس طرح ایک چھوٹے سے رقبہ میں ایران کے میزائلوں سے امان پائیں گے۔؟ لہذا سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ اگر طول پکڑ جائے گی تو یقیناً اس جنگ میں جہاں اسرائیل کی نابودی ہے، وہاں ساتھ ساتھ امریکہ اور مغربی حکومتوں کی بالا دستی اور اجارہ داری بھی نابود ہوگی۔ غاصب صیہونی گینگ کے تمام مطلوبہ اہداف اس وقت الٹے پڑ چکے ہیں، کیونکہ ایران یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ غاصب صیہونی گینگ کا مقابلہ کرے، نہ صرف اسرائیل کا بلکہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کا بھی مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہرحال ایران میں غاصب صیہونی گینگ کی خواہشات کے مطابق رجیم کی تبدیلی تو ممکن نہیں، لیکن اب اسرائیل کی نابودی واضح امر بن چکی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں غاصب صیہونی گینگ غاصب صیہونی گینگ کی غاصب صیہونی گینگ کے ایران کے میزائلوں اسرائیل کی نابودی امریکہ اور مغربی صلاحیت رکھتا ہے صیہونی گینگ نے کہ امریکہ اور ایران میں ساتھ ساتھ رجیم چینج ایران پر کہ ایران ا رہا ہے جائے گی کے ساتھ ہے کہ ا ہے اور
پڑھیں:
ٹرمپ کا پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ اور تیل کی شراکت داری کا اعلان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 جولائی 2025ء) بدھ کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹروتھ سوشل‘ پر ایک پوسٹ میں کہا، ’’ہم نے ابھی ابھی پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ مکمل کیا ہے جس کے تحت پاکستان اور امریکہ مل کر اس کے وسیع تیل کے ذخائر کو ترقی دیں گے۔‘‘
یہ پیش رفت امریکہ اور پاکستان کے درمیان جاری تجارتی بات چیت میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ ایک امریکی تیل کمپنی کو اس شراکت داری کی قیادت کے لیے منتخب کیا جائے گا، اور اشارہ دیا کہ ممکن ہے کہ مستقبل میں پاکستان کا تیل بھارت کو بھی فروخت کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا، ’’ہم اس وقت ایک کمپنی کے انتخاب کے عمل میں ہیں۔
(جاری ہے)
کون جانتا ہے، شاید ایک دن وہ بھارت کو تیل بیچ رہے ہوں!‘‘
یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکی انتظامیہ نئے تجارتی معاہدوں کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔
ٹرمپ نے لکھا، ’’ہم وائٹ ہاؤس میں آج تجارتی معاہدوں پر بہت مصروف ہیں۔ میں نے کئی ممالک کے رہنماؤں سے بات کی ہے، جن سب نے امریکہ کو ’انتہائی خوش‘ کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ کئی ممالک ٹیرفس میں کمی کی تجویز دے رہے ہیں، جس سے امریکہ کا تجارتی خسارہ کم کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ ٹرمپ نے کہا کہ مکمل رپورٹ مناسب وقت پر جاری کی جائے گی۔
معاہدے کے اثراتیہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان نے حال ہی میں غیر ملکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ڈیجیٹل مصنوعات و خدمات پر پانچ فیصد ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا۔ اسلام آباد کے اس فیصلے کو امریکہ کے ساتھ خیرسگالی کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔
پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے بدھ کو اس استثنیٰ کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کیا، جو کہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے واشنگٹن کے دورے کے موقع پر سامنے آیا۔
اس دورے میں وہ ایک وسیع تر تجارتی معاہدے کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر بات چیت کر رہے ہیں۔گزشتہ ہفتے، نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ امریکہ اور پاکستان ایک تجارتی معاہدے کے بہت قریب ہیں، جو چند دنوں میں طے پا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بات امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کے بعد کہی تھی۔
’آئل اینڈ گیس‘ جرنل کے مطابق پاکستان کے پاس 9 ارب بیرل سے زائد تیل کے ذخائر کا اندازہ ہے۔
یہ خاص طور پر سندھ کے انڈس بیسن میں موجود ہیں لیکن بنیادی ڈھانچے اور سرمایہ کاری کی کمی کے باعث اب تک استعمال میں نہیں آ سکے ہیں۔ٹرمپ کا یہ معاہدہ ان ذخائر کے کھلنے کا باعث بن سکتا ہے، اور امریکہ کو پاکستان کے توانائی شعبے میں کلیدی کردار ادا کرنے کا موقع دے سکتا ہے۔
معاہدے کے جیوپالیٹیکل مضمراتایک امریکی کمپنی کے انتخاب کا عمل نہایت اہم ہو گا، جس کے بارے میں ٹرمپ نے شفاف طریقہ کار کی یقین دہانی کروائی ہے، البتہ کسی حتمی ٹائم لائن کا اعلان نہیں کیا گیا۔
پاکستانی تیل کی بھارت کو ممکنہ فروخت، جو دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل درآمد کنندہ ہے، بھارت کی توانائی لاگت کم کر سکتی ہے، لیکن اس سے امریکہ-پاکستان تعلقات میں بھارت کے دیرینہ موقف کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے مشرق وسطیٰ اور روس کے ساتھ توانائی تعلقات کو ترجیح دی ہے، لہٰذا ٹرمپ کا بیان ممکنہ طور پر تجارتی کشیدگی کم کرنے کی ایک کوشش کہی جا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اٹلانٹک کونسل میں خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ ’’امن کی پائیدار ساخت چاہتا ہے، اور تجارتی تعلقات اس سمت میں ایک پل ثابت ہو سکتے ہیں، اگرچہ مسئلہ کشمیر ایک مستقل رکاوٹ ہے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین