بی جے پی غریبی نہیں غریبوں کو ختم کرنا چاہتی ہے، دیویندر یادو
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
کانگریس لیڈر کے مطابق بدعنوانی کیوجہ سے 40-30 سالوں سے جھگیوں میں رہ رہے لوگوں کو مکان نہیں ملے اور اب انہیں بھی اجاڑا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی کانگریس کے صدر دیویندر یادو نے پارٹی لیڈران کے ساتھ کالکاجی حلقہ اسمبلی کے گووندپوری میں مودی کی بلڈوزر کارروائی کے بعد بے گھر ہوئے لوگوں سے ملاقات کی۔ دراصل دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) نے مبینہ طور پر 350 سے زائد ناجائز مکانوں کو منہدم کر دیا ہے۔ انہوں نے اس کارروائی میں بے گھر ہوئے لوگوں کو یقین دلایا کہ کانگریس ان کی ہر ممکن مدد کرے گی، اگر ان کے حقوق کے لئے حکومت سے بھی لڑنا پڑے تو پیچھے نہیں ہٹے گی۔ دیویندر یادو کے مطابق بدعنوانی کی وجہ سے 40-30 سالوں سے جھگیوں میں رہ رہے لوگوں کو مکان نہیں ملے اور اب انہیں بھی اجاڑا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کی وجہ سے ہی ان کے ناموں کو چھوڑ دیا گیا تھا، دوبارہ سروے کرا کر ان کے ناموں کو شامل کیا جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کے حکم پر حکومت کی لاپرواہی اور بدعنوانی کی وجہ سے 1984ء اور 1995ء سے جھگیوں میں رہنے والوں کو مکان نہیں مل پایا ہے۔
بلڈوزر کارروائی کے بعد بے گھر ہوئے لوگوں سے ملنے والوں میں دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر دیویندر یادو کے ساتھ سابق ریاستی صدر سبھاش چوپڑا، دہلی پردیش خاتون صدر پشپا سنگھ، خواتین ضلع صدر کانتا شرما اور دھرم پال ٹھکر سمیت علاقائی لیڈر بھی موجود تھے۔ کانگریس دہلی صدر نے کہا کہ بی جے پی غریبوں کے خلاف دوہری پالیسی اپنا رہی ہے۔ ایک طرف وزیراعلیٰ ریکھا گپتا بیان دیتی ہیں کہ دہلی میں کسی بھی جھگی کو بغیر کسی متبادل انتظام کے نہیں اجاڑے گی اور دوسری جانب حکومت کے ہی افسران عدالت کے حکم کا حوالہ دے کر راتوں رات غریبوں کے گھروں کو اجاڑ رہے ہیں۔ بی جے پی غریبی نہیں غریبوں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ 2020ء کے اسمبلی انتخاب سے قبل وزیراعظم نریندر مودی نے کانگریس کے ذریعہ شروع کی گئی "جہاں جھگی وہیں مکان" اسکیم کے تحت یہاں بنائے مکانات کی چابیاں دے کر کہا تھا کہ کسی کو اجاڑا نہیں جائے گا۔
دیویندر یادو نے بتایا کہ 2011ء میں جب دہلی میں انہدامی کارروائی چل رہی تھی تو اس وقت کی کانگریس حکومت نے فوری طور پر دہلی میں آرڈیننس لاکر لاکھوں لوگوں کو بے گھر ہونے سے بچایا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے بی جے پی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کانگریس کے ذریعہ 2011ء میں لائے گئے آرڈیننس کی طرز پر فوراً ایک آرڈیننس لائے، تاکہ دہلی میں اجاڑے جا رہے لاکھوں جھگی والوں کو راحت مل سکے۔ حکومت کی انہدامی کارروائی کی وجہ سے دہلی کے جھگی والوں میں افراتفری کا ماحول ہے اور وہ بہت زیادہ ڈرے ہوئے ہیں۔ دیویندر یادو نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جتنے بھی مکان منہدم کئے گئے ہیں، ان کے مکینوں کو ایسی جگہ پر رکھا جانا چاہیئے کہ ان کی روزی روٹی کی حفاظت ہو سکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دیویندر یادو بدعنوانی کی کی وجہ سے لوگوں کو انہوں نے دہلی میں بی جے پی بے گھر
پڑھیں:
جرائم پر جبراً مجبور ہونے والے افراد کو قانوی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 جولائی 2025ء) عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ لوگوں کو جبراً جرائم پر مجبور کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اور مربوط اقدامات اٹھائیں اور متاثرین کو تحفظ، انصاف اور طویل مدتی مدد کی فراہمی یقینی بنائیں۔
آن لائن دھوکہ دہی سے منشیات کی سمگلنگ اور چوری تک ایسے بہت سے جرائم دانستہ ہی نہیں کیے جاتے بلکہ ایسا کرنے والوں کو خود بھی بڑے مجرم گروہوں کی جانب سے دھوکے اور استحصال کا سامنا ہوتا ہے۔
منظم جرائم میں ملوث گروہ تارکین وطن، بچوں اور نوجوانوں سمیت کمزور لوگوں کو دھوکے، دھمکیوں اور تشدد کے ذریعے جرائم کے ارتکاب پر مجبور کرتے ہیں۔ Tweet URLایسے متاثرین کو عموماً نوکری کے جھوٹے وعدوں کے ذریعے مجرمانہ سرگرمیوں پر مجبور کیا جاتا ہے جنہیں درپیش حالات جدید غلامی کے مترادف ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
'آئی او ایم' نے اسے انسانی سمگلنگ کا ایسا خوفناک پہلو قرار دیا ہے جس پر کماحقہ توجہ نہیں دی جاتی۔ادارے کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پوپ نے کہا ہے کہ انسانی سمگلنگ انسانی حقوق کا بحران ہے۔ اس نے بہت بڑے عالمی کاروبار کی صورت اختیار کر لی ہے جس سے بدعنوانی کو فروغ ملتا ہے، خوف پھیلتا ہے اور یہ انتہائی کمزور لوگوں کی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔
استحصال کا شکار لوگوں کو سزا دینے کے بجائیے تحفظ فراہم کرنا ہو گا اور ایسا کیے بغیر انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے پیش رفت ممکن نہیں ہو گی۔لامتناہی استحصاللوگوں کو دھوکہ دہی سے جرائم پر مجبور کرنے کا مسئلہ تیزی سے وسعت اختیار کر رہا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا جیسے خطے ایسے جرائم کا گڑھ ہیں جہاں ہزاروں لوگوں کو دھوکہ دہی کے مراکز میں رکھا جاتا ہے۔
یہ لوگ تنہا رہتے ہیں، انہیں بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کا اپنی زندگی پر اختیار چھین لیا جاتا ہے۔جرائم پیشہ گروہوں کے چنگل سے بچنے یا فرار ہونے کے باوجود ان میں بہت سے لوگوں کے نام کے ساتھ جرم کا دھبہ موجود رہتا ہے، انہیں سماجی بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نظام ان کے ساتھ متاثرین کے بجائے مجرموں کا سا برتاؤ کرتا ہے۔
اس طرح استحصال کا خاتمہ ہونے کے بعد بھی ان کی لوگوں کی تکالیف ختم نہیں ہوتیں۔انسانی سمگلنگ کی یہ قسم منظم جرائم کا ایک بڑا محرک بھی ہے جس سے اندازاً سالانہ 40 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ سمگلر ناصرف لوگوں کو جرائم پر مجبور کر کے منافع کماتے ہیں بلکہ متاثرین کو مجرم قرار دینے والا نظام انصاف بھی انہیں فائدہ پہنچاتا ہے۔ جب متاثرین کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی ہے تو انہیں ضروری مدد مہیا نہیں کی جاتی جبکہ نظام کی ناکامی اور بے عملی بڑے مجرموں کو تحفظ دیتی ہے۔
مجرم نہیں، متاثرین'آئی او ایم' نے حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ متاثرین کو سزا نہ دینے کے اصولوں کو برقرار رکھیں اور انہیں تحفظ، قانونی معاونت اور سماج میں کارآمد کردار ادا کرنے کی صلاحیت کے حصول میں مدد فراہم کریں۔ جرائم پر مجبور کیے جانے والے ان لوگوں کو مجرموں کے بجائے متاثرہ سمجھنا اخلاقی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ انسانی سمگلنگ کے گروہوں کا قلع قمع کرنے کے ضمن میں تزویراتی ضرورت بھی ہے۔
انسانی سمگلنگ کے متاثرین میں ایک تہائی تعداد بچوں کی ہوتی ہے اور ان میں سے 78 فیصد کو جبری مشقت یا جنسی استحصال کے لیے سمگل کیا جاتا ہے۔ مسلح تنازعات، قدرتی آفات اور غربت کے باعث ایسے حالات جنم لیتے ہیں جن سے لاکھوں ایسے لوگوں کے لیے استحصال کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جو پہلے ہی مشکل حالات سے دوچار ہوتے ہیں۔
'آئی او ایم' نے حکومتوں، بین الاقوامی شراکت داروں اور عام لوگوں پر اس مسئلے کے خلاف اجتماعی اقدامات کے لیے زور دیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ متاثرین کو تحفظ، انصاف اور طویل مدتی مدد کی فراہمی ضروری ہے۔ انہیں ایسے لوگ سمجھا جانا چاہیے جن کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے اور جن کے مستقبل کا دارومدار وقار اور انصاف کے لیے حکومتوں اور معاشروں کے عزم پر ہے۔