data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایران کے جوہری پروگرام پر اسرائیل کے حالیہ حملوں میں نطنز، فردو اور اصفہان سمیت کئی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔

غیر ملکی خبررساں اداروں کے مطابق، ماہرین کا کہنا ہے کہ ان حملوں سے وقتی نقصان ضرور ہوا ہے، تاہم ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ناکارہ بنانا اسرائیل کے لیے ممکن نہ تھا۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے مطابق، سیٹلائٹ تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ نطنز کے جوہری مرکز کے زیر زمین حصے کو ممکنہ طور پر براہ راست نقصان پہنچا ہے۔ وہاں ہزاروں سینٹری فیوجز نصب تھے۔ زمین کے اوپر موجود بجلی کا بنیادی نظام بھی تباہ ہو چکا ہے۔

فردو میں واقع زیرزمین افزودگی کا پلانٹ، جو ایران کی یورینیم افزودگی کا دوسرا بڑا مرکز ہے، کسی بڑے نقصان سے محفوظ رہا ہے۔

اصفہان میں، آئی اے ای اے کے مطابق، چار اہم تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے: مرکزی کیمیکل لیبارٹری، یورینیم کنورژن پلانٹ، تہران ری ایکٹر فیول مینوفیکچرنگ پلانٹ، اور ایک زیر تعمیر میٹل پروسیسنگ یونٹ۔

اصفہان کے جوہری کمپلیکس کے آس پاس بڑی مقدار میں افزودہ یورینیم کے موجود ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ سے وابستہ علی واعظ کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے یہ مواد پہلے ہی کسی خفیہ مقام پر منتقل کر دیا ہے تو اسرائیلی کارروائی کا اثر محدود ہو سکتا ہے۔

اسرائیل نے بوشہر کے ایٹمی بجلی گھر اور تہران ریسرچ ری ایکٹر کو نشانہ نہیں بنایا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان حملوں سے ایران کا جوہری پروگرام وقتی طور پر ضرور متاثر ہوا ہے، لیکن اسے مکمل طور پر ختم کرنا مشکل ہے۔ ایران کے مضبوط اور زیر زمین جوہری مراکز کو تباہ کرنے کے لیے اسرائیل کو ممکنہ طور پر امریکہ جیسی طاقت کی مدد درکار ہوگی۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسرائیلی کارروائیوں میں کئی ایرانی ایٹمی سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، تاہم ایران نے جو سائنسی تجربہ اور مہارت حاصل کر رکھی ہے، اسے ختم کرنا ممکن نہیں۔

آئی اے ای اے کے مطابق فی الوقت تابکاری کی سطح میں کوئی اضافہ ریکارڈ نہیں ہوا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران کی موجودہ یورینیم افزودگی کی تنصیبات پر حملے سے تابکاری پھیلنے کا امکان کم ہے، لیکن اگر بوشہر کے ایٹمی بجلی گھر کو نشانہ بنایا گیا ہوتا تو اس کے ماحولیاتی اثرات شدید ہو سکتے تھے۔

آئی اے ای اے کے سربراہ نے اسرائیلی حملوں کے بعد بیان میں کہا کہ جوہری تنصیبات کو کبھی بھی حملوں کا ہدف نہیں بنانا چاہیے، کیونکہ ایسے اقدامات ایرانی عوام، خطے اور عالمی سطح پر خطرناک نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: آئی اے ای اے کو نشانہ کے جوہری کے مطابق

پڑھیں:

ہم اب بھی یورینیم افزودہ کرنیکی صلاحیت رکھتے ہیں، سید عباس عراقچی

اپنے ایک انٹرویو میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جب تک ڈونلڈ ٹرامپ ہم سے یورینیم کی مکمل افزودگی بند کرنے کا مطالبہ کرتے رہیں گے اس وقت تک کوئی معاہدہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے امریکہ و اسرائیل کی ایران کے خلاف مسلط کردہ 12 روزہ جنگ کے بعد فنانشیل ٹائمز کے ساتھ گفتگو کی۔ جس میں انہوں نے صیہونی و امریکی جارحیت کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ذکر کیا۔ اس بارے میں انہوں نے کہا کہ ایران، گزشتہ مہینے ہونے والی جنگ میں پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ چاہتا ہے اور امریکہ کو چاہئے کہ وہ 12 روزہ جنگ میں ایران کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کرے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو جواب دینا چاہئے کہ مذاکرات کے دوران ہم پر حملہ کیوں کیا؟۔ انہیں اس بات کی بھی یقین دہانی کرانی چاہئے کہ مستقبل میں دوبارہ ایسا نہیں ہو گا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ جنگ کے دوران اور بعد میں، میرے اور امریکی نمائندے "اسٹیون ویٹکاف" کے درمیان پیغامات کا تبادلہ ہوا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایران کے جوہری بحران کا کوئی درمیانی حل تلاش کرنا چاہئے۔ بات چیت کا راستہ دشوار ہے لیکن ناممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیون ویٹکاف نے مجھے یقین دلانے کی کوشش کی اور دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کی۔ لیکن ہمیں ان کی جانب سے اعتماد بڑھانے کے لئے حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات میں مالی معاوضے کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضمانت بھی شامل ہو کہ مذاکرات کے دوران دوبارہ ایران پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔  

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ میرا پیغام پیچیدہ نہیں۔ حالیہ حملے نے ثابت کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام کا کوئی فوجی حل نہیں۔ تاہم مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ایران کے پُرامن جوہری پروگرام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، اپنے پُرامن اور غیر فوجی جوہری پروگرام پر قائم ہے۔ ہم اس پروگرام کے حوالے سے اپنی آئیڈیالوجی تبدیل نہیں کرے گیں۔ جس کی بنیاد رہبر معظم آیت اللہ "سید علی خامنہ ای" کے 20 سالہ پُرانے فتوے پر ہے، جس میں انہوں نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو حرام قرار دیا۔ سید عباس عراقچی نے مزید کہا کہ جنگ نے امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرامپ" کے بارے میں عدم اعتماد کو بڑھا دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرامپ نے 2015ء میں اپنے پہلے دور صدارت میں بھی ایرانی جوہری معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا، جو ایران نے "باراک اوباما" کی حکومت اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایران اب بھی یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عمارتیں دوبارہ تعمیر کی جا سکتی ہیں۔ مشینیں تبدیل کی جا سکتی ہیں کیونکہ اس کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ ہمارے پاس بڑی تعداد میں سائنسدان اور ٹیکنیشن ہیں جو پہلے بھی ان تنصیبات پر کام کر چکے ہیں۔ اب یہ حالات پر منحصر ہے کہ ہم کب اور کیسے افزودگی کا عمل دوبارہ شروع کرتے ہیں۔
  سید عباس عراقچی نے کہا کہ جب تک ڈونلڈ ٹرامپ ہم سے یورینیم کی مکمل افزودگی بند کرنے کا مطالبہ کرتے رہیں گے اس وقت تک کوئی معاہدہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر واشنگٹن کو ہمارے بارے میں کوئی خدشات ہیں تو وہ انہیں مذاکرات کے ذریعے پیش کر سکتا ہے۔ آخر میں ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم بات چیت کر سکتے ہیں، وہ اپنے دلائل دے سکتے ہیں اور ہم بھی انہیں اپنے دلائل دیں گے۔ لیکن اگر افزودگی بالکل بند کر دی جائے تو ہمارے پاس بات کرنے کو کچھ باقی نہیں بچے گا۔

متعلقہ مضامین

  • پاک ایران اسلامی اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوششیں ناکام ہوں گی، ایرانی صدر مسعود پزشکیان
  • غزہ: بھوک نے مزید 12 افراد کی جان لے لی، اسرائیلی حملوں میں 100سے زائد فلسطینی شہید
  • مجھے نہیں پتہ کس کو کتنا نقصان ہوا، یہ صرف اسلام آباد کے ڈرائنگ رومزکی گفتگو تھی، مفتاح اسماعیل کی وضاحت
  • ایران کی ایٹمی طاقت بننے کی صلاحیت ختم کردی ہے، ٹرمپ
  • القاعدہ کمزور، ٹی ٹی پی مضبوط اور داعش فوری خطرہ بن چکی ہے، یو این او
  • غزہ، فلسطینی مجاہدین کا قابض اسرائیلی فوج کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ
  • ایاز صادق کی ایرانی ہم منصب سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات مزید مستحکم بنانے پر اتفاق
  • غزہ: امداد کے منتظر شہریوں پر اسرائیلی فوج کی اندھادھند فائرنگ، مزید 35 فلسطینی شہید
  • ہم اب بھی یورینیم افزودہ کرنیکی صلاحیت رکھتے ہیں، سید عباس عراقچی
  • خیبرپختونخوا: تیز بارشوں کے باعث بالائی علاقوں میں گلیشیائی جھلیں پھٹنے کا خطرہ