مخصوص نشستیں کیس؛ سیاسی مسائل خود حل کریں، ججز نے اصلاحات نہیں کرنی، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ سیاسی مسائل خود حل کریں، ججز نے اسلاحات نہیں کرنی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی، جس میں پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سماعت کے آغاز پر ریمارکس دیے کہ جتنی باتیں آپ آج کر رہے وہ مرکزی کیس میں کرنی تھیں۔ مرکزی کیس میں آپ نے کہا نشستیں ان کو دے دو۔ 2018 کے اخبارات کا کارٹون یاد آیا، ایک رنگ میں 1 ریسلرز تھے۔ دو میں سے ایک کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جب تک سیاسی لوگ مسائل خود حل نہیں کریں گے، ہم نہیں کرسکتے۔ ججز نے نظام کی اصلاحات نہیں کرنی۔ یہ حقائق آپ نے تو مرکزی کیس میں پیش نہیں کیے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ابھی آپ نے ایک فہرست پیش کی، جو پہلے نہیں تھی۔ یہ فہرست پہلے کہاں تھی؟۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ ساری چیزیں ہم نے یہاں وہاں سے دیکھیں۔ ہم نے ریکارڈ خود منگوایا اور کہا غلط ہوا۔ سپریم کورٹ میں 3 بینچز الیکشن مقدمات سن رہے تھے۔ 99 فیصد مقدمات کے فیصلے آپ کے حق میں ہوئے۔ کل آپ کہہ رہے تھے ہم الیکشن کے دوران عدالت نہیں آسکتے تھے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کے سارے دلائل کا مرکز الیکشن کمیشن ہے۔ آپ کے مطابق الیکشن کمیشن نے ہمارے ساتھ غلط کیا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت کو 41 امیدواران کے پی ٹی آئی نہ لکھنے کہ وجہ بتانا چاہتا ہوں۔ الیکشن کمشنر پنجاب کا فیصلہ تھا کہ پی ٹی آئی والوں کے کاغذات منظور نہیں ہوں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں الیکشن کمیشن کا تو کام ہی نہیں۔ کاغذات نامزدگی پر فیصلہ آر اوز نے کرنا ہوتا ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ آر اوز کا بھی تاثر تھا کہ کاغذات منظور نہیں ہوں گے۔ ایک غیر یقینی کی صورتحال تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میچور سیاسی جماعتیں غیر یقینی صورتحال کا مقابلہ کرتیں ہیں۔ کل آپ نے کہا 12، 14 سال کے بچے گرفتار ہوتے تھے، آپ ٹافیاں دینے جاتے تھے۔ کسی بچے کا باپ کورٹ نہیں آیا، کوئی پریس کلپنگ نہیں دی گئی۔ اس قسم کا بیان ہمارے اور قوم کے لیے سرپرائز تھا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ قوم کے لیے تو یہ سرپرائز نہیں تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلی مرتبہ ہی اس طرح کی بات کی گئی، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں اس بیان پر معذرت چاہتا ہوں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ غلط فیصلہ نظر ثانی کا کوئی گراونڈ نہیں ہے ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نظر ثانی داخل کرنے والوں کے گراونڈز کیا ہیں ، جس پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ ان کا گراونڈ ہے کہ ریلیز اس کو دیا گیا جو فریق نہیں تھا ۔
جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ کیا یہ غلط فیصلہ تھا غلطی تھی یا سوچ سمجھ کر فیصلہ دیا گیا ، جس پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ سوچ سمجھ کر فیصلہ دیا گیا ہے غلطی نہیں تھی ۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس مقدمے میں جس کا حوالہ دے رہے ہیں سفارشات ناقص تھیں ۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ خورشید بھنڈر کیس میں سارا غیر آئینی سپر اسٹرکچر ختم کر دیا تھا ۔ اس فیصلے کے باعث 90 سے زائد جج فارغ ہوئے تھے ۔ سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ جب ان کے سامنے غیر آئینی باتیں آئیں تو وہ اسے ٹھیک کرنے کی ہدایت دیں ۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ 3نومبر 2007کا اقدام غیر آئینی ہے ۔ آرٹیکل 185/3 کی اپیل سنتے ہوئے عدالت 184/3 کا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ ہائی کورٹ کے پاس 199سی میں بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے ہر حکم دینے کا اختیار ہے ۔ پیر صابر شاہ کیس میں کیا ہوا تھا وہ بھی بتاتا ہوں ۔ آرٹیکل 199میں متاثرہ شخص کا درخواست گزار ہونا ضروری ہے لیکن 184 میں نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے آپ کو الیکشن سے پہلے 100 فیصد انصاف دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں جو حقائق بیان کیے گئے وہ آپ نے پیش نہیں کیے تھے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں فہرست بنائی ہم نے لیکن وہ تو ہمارے سامنے نہیں تھی۔ کیا قانونی شواہد موجود تھے؟۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور 2 بنچز سے 99۔9 کاغذات نامزدگی کے مقدمات پی ٹی آئی کے حق میں آئے تھے۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اس مقدمے میں فریق عوام پاکستان ہے۔ کئی ایسے مقدمات ہیں جن سے یہ طے ہوتا ہے کہ جہاں عام عوام کا تعلق ہو وہ مفاد عامہ کا مقدمہ ہوتا ہے۔ آرٹیکل 185 تھری میں اپیل آرٹیکل 199 کا تسلسل ہوتی ہے جو بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ہے۔
سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ یہ عدالت اپیل میں مفاد عامہ کے معاملے میں آرٹیکل 184 تھری اور ساتھ آرٹیکل 187 کا دائرہ اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ پیر صابر شاہ کیس میں ججز نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف براہ راست سپریم کورٹ میں اپیل کا نکتہ طے کیا۔ پیر صابر شاہ کیس میں ججز نے طے کیا کہ مکمل انصاف اور آرٹیکل 184 تھری کا دائرہ اختیار استعمال ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جوڈیشل ریویو کے لیے دائرہ اختیار استعمال کرنے کا مکمل اختیار ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 185 تھری کا ایک دائرہ اختیار ہے۔ اس کیس میں کم از کم پورے جج کو پتا تو ہوتا ہے کہ کون سا دائرہ اختیار ہے۔ موجودہ کیس میں تو بس فریقین اور عدالت کا معاملہ ہے۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یہ عدالت اور فریقین کا نہیں عوام کے جمہوری حق ہے جس کی خلاف ورزی ہوئی۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ نے یہ سب عدالت کے سامنے پہلے نہیں رکھا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ اسمبلی میں درست نمائندگی ہونی چاہیے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا مخصوص نشستیں خالی نہ رکھی جانے پر کوئی آئینی پابندی ہے؟ ، جس پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ عدالت نے قرار دے دیا کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رکھی جا سکتیں ہم تو اس پر منحصر ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کون سے بنیادی حقوق اس کیس میں متاثر ہوئے تھے؟ جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال کیا کہ کیا کوئی عدالت کسی امیدوار اور سیاسی جماعت کے چھوڑے گئے خلا کو پر کر سکتی ہے؟ اگر کسی کے ساتھ دھاندلی ہو اور وہ درخواست دائر کرنے میں غلطیاں کرے تو عدالت اس کو موقع دے سکتی ہے؟ کیا عدالت فریقین کی غلطیوں کو دُور کر سکتی ہے؟
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اس کیس میں ایک صورتحال پیدا کی گئی جو پی ٹی آئی نے نہیں کی۔ ہمارے سامنے دیوار کھڑی کر دی جائے اور میں اس کو گرا دوں تو یہ سوال ہو گا کہ دیوار کیوں گرائی یا یہ کہ کھڑی کس نے کی؟
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم آپ کو شنوائی کا حق دے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کچھ بھی کہتے جائیں۔ دیوار آپ نے کھڑی کی، آپ سنی اتحاد کونسل میں گئے اور وہ عدالت میں آئے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ اگلے انتخابات کی تیاری کریں، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایسے ہی حالات رہے تو اگلے انتخابات بھی ایسے ہی ہوں گے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ آئین کی پابند ہے۔ اگر کوئی فیصلہ غیر آئینی ہے تو عدالت اس کو واپس لے سکتی ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میری نظر میں اکثریتی فیصلہ غیر آئینی نہیں تھا۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جس پر سلمان اکرم راجا نے سلمان اکرم راجا نے کہ ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے الیکشن کمیشن دائرہ اختیار نے کہا کہ آپ کر سکتی ہے اختیار ہے پی ٹی آئی کیس میں ہوتا ہے تھا کہ کے لیے
پڑھیں:
مخصوص نشستیں نظرثانی کیس: ’یہاں تو پی ٹی آئی پر قبضہ سنی اتحاد کونسل کا ہے‘، جسٹسم امین الدین خان
مخصوص نشستیں نظرثانی کیس: ’یہاں تو پی ٹی آئی پر قبضہ سنی اتحاد کونسل کا ہے‘، جسٹسم امین الدین خان WhatsAppFacebookTwitter 0 17 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے دیے گئے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر گیارہ رکنی آئینی بینچ نے منگل کو بھی سماعت کی۔ بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے ہیں جبکہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے تفصیلی دلائل دیے۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے استفسار کیا، ’آج آپ دلائل مکمل کریں گے؟ اگر آج مکمل نہ کیے تو یہ نہ ہو کہ گھر میں داخلہ ہی بند ہو جائے۔‘ اس پر فیصل صدیقی نے برجستہ جواب دیا کہ ’گھر میں داخلہ تو ویسے بھی بند ہو چکا ہے۔‘
عدالت میں وکیل اور ججز کے درمیان دلائل کے دوران طنز و مزاح کے ساتھ گہری قانونی بحث بھی جاری رہی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ ’آپ کو یہ خیال کہاں سے آیا کہ عدالتی اختیارات کم ہوئے ہیں؟‘ وکیل نے کہا، ’مجھے کوئی خیال نہیں آیا‘، جس پر بینچ میں قہقہے سنائی دیے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ آئین میں ترمیم کا کوئی مقصد ضرور تھا، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا، ’187 کو 175 کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہوگا۔ میری نظر میں عدالتی اختیارات پر اچھا خاصا تقسیم پڑا ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا، ’پرانا 187 اور نیا 187 پڑھیں، فرق واضح ہے۔‘ جبکہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ’نہ ترمیم نہ 184 تین آپ کے کیس سے متعلق ہے۔“ تاہم وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ’سارا کیس ہی اسی سے متعلق ہے۔‘
دلائل کے دوران جسٹس امین الدین نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’اگر آپ نے دلائل ختم نہ کیے تو ہم ختم کریں گے۔‘ ساتھ ہی ریمارکس دیے، ’میرے سوال پر پھر آپ کہتے ہیں وحی نازل ہوتی ہے؟‘
عدالت نے اہم سوال اٹھایا کہ ’کیا 185 میں 187 استعمال ہو سکتی ہے؟‘ اس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ’175(2) سپریم کورٹ کو اختیارات دیتا ہے۔‘
عدالت نے استفسار کیا، ’کیا سپریم کورٹ میں 185 میں مقدمہ آیا تھا؟ اور جس دائرہ اختیار میں فیصلہ ہوا کیا وہاں اختیار تھا؟‘ فیصل صدیقی نے کہا، ’پشاور ہائیکورٹ کے پاس پی ٹی آئی کو انصاف دینے کا آپشن ہی نہیں تھا، جبکہ سپریم کورٹ کے پاس مکمل اختیار ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا، ’کیا مکمل انصاف فراہمی میں فریق بنے بغیر ریلیف دیا جا سکتا ہے؟‘ وکیل نے کہا، ’بلکل سر، آپ کا اپنا فیصلہ موجود ہے۔‘
فیصل صدیقی نے زور دیا کہ مخصوص نشستوں کا مقدمہ پہلے سے سپریم کورٹ میں زیر التواء تھا، اور ہائیکورٹ نے خود کہا کہ ’اگر پی ٹی آئی ہوتی تو ہم فیصلہ دیتے۔‘
عدالت نے سوالات کیے کہ ’کیا سنی اتحاد کونسل میں شامل افراد نے کبھی اس سے انکار کیا؟‘ جسٹس امین الدین نے کہا، ’یہاں تو پی ٹی آئی پر قبضہ سنی اتحاد کونسل کا ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا، ’بلوچستان میں دو فریقین کے درمیان جھگڑا ہوتا تھا تو زمین سرکار کی نکلتی تھی۔‘ اور مزید کہا، ’سرکار ہمارے سامنے نہ بھی ہو تو زمین ہم سرکار کو دیتے تھے کہ اس کی ملکیت ہے۔‘
عدالت نے پوچھا، ’جن لوگوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے کہ ہم آزاد ہیں، ان کی آزادی کیسے سلب کریں؟‘ فیصل صدیقی نے جواب دیا، ’وہ تواپنے گھر چلے گئے جہاں سے نکالا گیا تھا۔‘
عدالت نے الیکشن کمیشن حکام کو روسٹرم پر طلب کیا اور استفسار کیا، ’کیا آپ نے 39 امیدواروں کو نوٹیفکیشن جاری کیا؟‘ الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ ’نوٹیفکیشن عدالتی حکم پر جاری کیا گیا۔‘
فیصل صدیقی نے الزام لگایا کہ ’الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا، جو کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔‘ وکیل نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’میں سپریم کورٹ کے مستقبل کو لیکر پریشان ہوں۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے الیکشن کمیشن سے پوچھا، ’آپ نے 39 ممبران کے تناسب سے مخصوص نشستیں دیں؟‘ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا، ’ہم 39 کی حد تک مخصوص نشستیں نہیں دے سکتے، یہ تو باقاعدہ فارمولا ہوتا ہے۔‘
جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا کہ ’اگر فارمولا ہوتا ہے تو باقی جماعتوں کو مخصوص نشستیں کیوں دیں؟‘ جسٹس مندوخیل نے کہا، ’فیصلہ ہو لینے دیتے، پھر سب کو مخصوص نشستیں دیتے۔‘
فیصل صدیقی نے زور دیا، ’یہ پی ٹی آئی کے ساتھ ناانصافی ہے۔‘
سماعت کے اختتام پر جسٹس مندوخیل نے کہا، ’یہ سب ہمارے ادارے ہیں، آج میں بیٹھا ہوں، کل کوئی اور بیٹھے گا۔‘ فیصل صدیقی نے جواب دیا، ’میرے خیال میں اگر کوئی رول ایکٹ اور آئین کے خلاف ہو تو اسے ماننا ضروری ہے جب تک کالعدم نہ ہو جائے۔‘
جسٹس مندوخیل نے کہا، ’پھر تو الیکشن کمیشن نے بھی ایسا ہی کیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ میرے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کو لتاڑیں۔‘
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد: اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کی طالبہ کا قاتل گرفتار اسلام آباد: اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کی طالبہ کا قاتل گرفتار ایران کا اسرائیل پرنیا میزائل حملہ، ایک اسرائیلی ہلاک،20 زخمی سمندر پار پاکستانی ہی ملک کے اصل اور حقیقی سفیر ہیں، فیلڈ مارشل عاصم منیر پاکستان، سعودیہ سمیت 20 ممالک کی ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت نفرت انگیز بیانیے کی روک تھام: پاکستان کا اقوام متحدہ سے عملی اقدامات کا مطالبہ اسرائیل ایران کشیدگی: ٹرمپ کا جی7 اعلامیے پر دستخط سے انکار کر دیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم