سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں پی ٹی آئی کو نہ دینے سے متعلق فیصلے پر نظرثانی کی درخواستوں پر سماعت جسٹس سید امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی فل کورٹ آئینی بینچ نے کی، جہاں کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل پیش کیے۔

دلائل کے آغاز میں سلمان اکرم راجا نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ 2 ججوں اور 8 ججوں کے فیصلے کے نکات پر روشنی ڈالیں گے۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ نے مرکزی کیس میں یہ دلائل نہیں دیے، ہم نے خود حقائق نکال کر لکھے۔

جسٹس مندوخیل نے سلمان راجا کے گذشتہ روز کے شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، آپ کا کل کا شعر میرے دماغ میں چلتا رہا، اس پر مجھے 2018 کے انتخابات کا وہ کارٹون یاد آ گیا جس میں ایک باکسر کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور دوسرا آزاد تھا۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت بینیفشری رہی ہے۔ ججز مصلح نہیں ہو سکتے، یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن اور آر اوز کے کردار نے غیر یقینی صورتِحال پیدا کی، جس میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو انتخابات سے باہر رکھا گیا۔ میری بہن کے امیدواروں کی فہرست تو عدالت کے سامنے تھی ہی نہیں۔ جسٹس امین الدین نے سوال کیا کہ کیا قانونی شواہد موجود تھے؟۔ اس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یہ مقدمہ عوام پاکستان کا ہے، بنیادی حقوق اور مفاد عامہ کا مسئلہ ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے فارمولا طلب کرلیا، پُرامید ہیں مخصوص نشستیں ہمیں ہی ملیں گی، بیرسٹر گوہر خان

جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا عدالت کسی سیاسی جماعت کے چھوڑے گئے خلا کو خود پُر کر سکتی ہے؟ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا، کیا مخصوص نشستیں خالی نہ رکھنے پر کوئی آئینی پابندی ہے؟

عدالتی مکالمے کے دوران جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آپ دیر سے آئے اور درست بھی نہیں آئے۔ آپ نے آتے ہی کہا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دی جائیں۔ عدالت نے تو آپ کو الیکشن سے قبل انصاف فراہم کیا تھا۔ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ ہم دیوار سے ٹکرا کر گرے تو سوال یہ ہونا چاہیے کہ دیوار کس نے کھڑی کی؟

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم شنوائی کا حق دے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کچھ بھی کہتے جائیں۔ آپ نے خود دیوار کھڑی کی اور پھر سنی اتحاد کونسل کے ذریعے عدالت میں آئے۔ سماعت کے اختتام پر عدالت نے کیس کی کارروائی کل تک ملتوی کردی۔ وکیل سلمان اکرم راجہ کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پی ٹی آئی جسٹس جمال خان مندوخیل سپریم کورٹ سلمان اکرم راجا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستیں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی جسٹس جمال خان مندوخیل سپریم کورٹ سلمان اکرم راجا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستیں سلمان اکرم راجا نے مخصوص نشستیں سپریم کورٹ کیا کہ

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس: سپریم کورٹ کا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی سننے کا فیصلہ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی اور تبادلے سے متعلق اہم آئینی مقدمے کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کی۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ججز کے تبادلے کے لیے ایڈوائس وفاقی کابینہ دے سکتی ہے اور مصطفیٰ ایمپکس فیصلے کے مطابق ’وفاقی حکومت‘ سے مراد بھی ’کابینہ‘ ہی ہے۔

جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا مصطفیٰ ایمپکس فیصلے کے بعد آئین کے آرٹیکل 48 میں استعمال ہونے والا لفظ ’وزیرِاعظم‘ غیر مؤثر ہو چکا ہے؟

یہ بھی پڑھیں:

عدالت نے کہا کہ درخواست گزار وکلاء نے سنیارٹی اور حلف سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے فیصلے پر تفصیلی دلائل نہیں دیے اور نہ ہی فیصلے میں کسی غیر قانونی پہلو کی نشاندہی کی گئی۔

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کراچی بار کی نمائندگی کرتے ہوئے جواب الجواب دلائل کا آغاز کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کی ذیلی شقیں تبادلے سے متعلق ہیں، اور مستقل ٹرانسفر آئینی طور پر ممکن نہیں۔

فیصل صدیقی کے مطابق تبادلہ نئی تقرری نہیں ہوتا، اور عارضی تبادلہ کے باوجود جج کی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی، انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر خاموشی ممکن نہیں کیونکہ اس کیس میں تین سابق چیف جسٹسز، موجودہ چیف جسٹس، وزیراعظم اور صدر بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں:

فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ ایسا ہے جیسے اندھا آدمی اندھیرے کمرے میں ایک ایسے سوراخ کو تلاش کر رہا ہو جو پہلے ہی چھپا ہوا ہو، انہوں نے اس نکتے پر زور دیا کہ آرٹیکل 194 کے الفاظ اس کیس کی کلید ہیں اور ٹرانسفر کی صورت میں جج کو نیا حلف لینا پڑے گا، تاہم یہ تقرری نہیں بلکہ ایک عارضی منتقلی ہے۔

جسٹس مظہر نے سوال کیا کہ اگر جج دوبارہ حلف لے تو کیا وہ جونیئر ہو جائے گا؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ ایسا نہیں، اور جج واپس جا کر اپنی پرانی سنیارٹی پر ہی برقرار رہتا ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے ریپریزنٹیشن میں تبادلے پر آنے والے ججز کو ’ڈیپوٹیشنسٹ‘ قرار دیا، جس پر افسوس کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی سماعت میں شامل کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کل سنا جائے گا، منیر اے ملک نے کہا کہ وہ ایڈووکیٹ جنرل کے دلائل کا الگ سے جواب دیں گے، جبکہ فیصل صدیقی نے بھی جواب الجواب کے لیے دوبارہ موقع مانگا۔

وکیل فیصل صدیقی نے کراچی بار کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنا جواب الجواب مکمل کر لیا ہے، کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل ادریس اشرف کل اپنے دلائل کا آغاز کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ:’’صدر کو اختیار حاصل ہے‘‘ ججز ٹرانسفر آئین و قانون کے مطابق قرار
  • مخصوص نشستیں کیس؛ سیاسی مسائل خود حل کریں، ججز نے اصلاحات نہیں کرنی، سپریم کورٹ
  • مخصوص نشستیں کیس: آپ دیر سے آئے مگر درست نہیں آئے، عدالت کا وکیل سے مکالمہ
  • سپریم کورٹ کے ججز بغیر اجازت بیرون ملک نہیں جا سکیں گے :چیف جسٹس چھٹی دینے اور ختم کرنے کے مجاز ہونگے ،نوٹیفکیشن سب نیو پر
  • مخصوص نشستیں کیس؛ سپریم کورٹ آئینی بینچ کے وکیل سلمان اکرم سے اہم سوالات
  • سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں کی سماعت کا آغاز، لائیو کوریج جاری
  • 39 اراکین کی حد تک پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کے فیصلے پر عملدرآمد کی استدعا مسترد
  •   مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس: کیا تیسرے فریق کو ریلیف دیا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ میں آئینی بحث جاری
  • ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس: سپریم کورٹ کا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی سننے کا فیصلہ