سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے 3 ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 3 ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی جانب سے دائر کردہ درخواستیں مسترد کردیں۔
عدالت نے تین، دو کے تناسب سے جاری کردہ مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ صدر مملکت سنیارٹی کے معاملے کو جتنی جلد ممکن ہو طے کریں، جب تک صدر مملکت سینارٹی طے نہیں کرتے قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر ہی امور سرانجام دیتے رہیں گے۔
نجی چینل کے مطابق جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
وقفے کے بعد سماعت کے آغاز میں آئینی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی درخواستوں کو مسترد کردیا۔
عدالت نے تین، دو کے تناسب سے سنائے گئے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں ہے۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز کے تبادلے کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار نہیں دے رہے، صدر مملکت سنیارٹی کے معاملے کو جتنی جلد ممکن ہو طے کریں۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ جب تک صدر مملکت سینارٹی طے نہیں کرتے، قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر ہی امور سرانجام دیتے رہیں گے، عدالت نے ججز کی سینارٹی کا معاملہ صدر پاکستان کو واپس ریمانڈ کردیا۔
جمعرات کو سماعت کے آغاز میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے وکیل ادریس اشرف نے دلائل سمیٹتے ہوئے کہا کہ ججز ٹرانسفر غیر قانونی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں سیاسی تبادلے کیے گئے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور سینئر قانون دان منیر اے ملک نے جواب الجواب میں دلائل دیے، تمام وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا تھا کہ ججز ٹرانسفر کے خلاف کیس کا مختصر فیصلہ آج سنائیں گے۔
واضح رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے دیگر ہائی کورٹس سے ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیے جانے کے بعد عدالت عالیہ کے 5 ججز نے سنیارٹی کے معاملے پر رواں سال 20 فروری کو سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سینئر وکلا منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کے توسط سے آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت دائر 49 صفحات پر مشتمل درخواست میں استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ قرار دے کہ صدر کو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات حاصل نہیں ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے نظر ثانی شدہ سنیارٹی لسٹ میں ججز کے عہدوں کو کم کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے گزشتہ فیصلوں پر اعتماد کا اظہار کیا تھا، جس میں بھارتی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی شامل ہے جس میں تقرریوں سے تبادلوں کو الگ کیا گیا تھا۔
نجی چینل کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے سنیارٹی لسٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی تھی۔
یہ فیصلہ ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق آئینی دفعات اور عدالتی مثالوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد جاری کیا گیا تھا۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا، جب وزارت قانون و انصاف نے یکم فروری کو ایک نوٹی فکیشن جاری کیا جس میں 3 موجودہ ججز جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کا ان کے متعلقہ ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیا گیا تھا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائی کورٹ اسلام ا باد ہائیکورٹ سپریم کورٹ صدر مملکت چیف جسٹس کورٹ میں عدالت نے گیا تھا کورٹ کے ججز کے کے بعد ججز کا کہ ججز
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج طارق جہانگیری‘ محسن اختر کیانی، بابر ستار، ثمن رفعت اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے سپریم کورٹ میں درخواست دائرکری
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 ستمبر ۔2025 )اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری نے بطور جج فرائض کی ادائیگی سے روکنے کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے درخواست دائر کر دی ہے جس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ، رجسٹرار اور وفاق کو فریق بنایا گیا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے مبینہ جعلی ڈگری کیس میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج کام کرنے سے روکنے کاحکم جاری کیا تھا.(جاری ہے)
عدالت عالیہ نے کہا تھا کہ جب تک سپریم جوڈیشل کونسل مبینہ جعلی ڈگری کے معاملے کا فیصلہ نہیں کرتی تب تک جسٹس طارق محمود جہانگیری جوڈیشل ورک نہیں کریں گے جمعہ کے روز جسٹس طارق محمود جہانگیری سائلین کے گیٹ سے کارڈ لے کر سپریم کورٹ آئے ان کے ہمراہ جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس ثمن رفعت اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق بھی موجود تھے. رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کی جانب سے انفرادی طور پر اپیلیں دائر کی گئیں جسٹس محسن اختر کیانی نے صحافیوں سے گفتگو میں علیحدہ درخواستوں کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ حالیہ رولز کے مطابق ایک درخواست میں فریق نہیں بن سکتے اس لیے ہم الگ الگ اپیلیں دائر کر رہے ہیں جج صاحبان کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ یہ درخواست ایک آخری چارہ ہے بطور غیر جانب دار منصف جنہیں شہریوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے ججوں کا کام مقدمہ بازی کرنا نہیں ہوتا لیکن یہ غیر معمولی حالات ہیں اور ایک بڑا سوالیہ نشان موجود ہے کہ آیا ہم قانون کی حکمرانی کے تحت چل رہے ہیں یا افراد کی حکمرانی کے تحت اسی لیے یہ درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے تاکہ بطور عدلیہ کے اراکین اور بطور پاکستان کے شہری،کچھ سیدھے سادے جواب حاصل کیے جا سکیں. درخواست میں استدعا کی گئی کہ قرار دیا جائے کہ ہائی کورٹ کا کوئی جج صرف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ہی اپنے عدالتی فرائض کی انجام دہی سے روکا جا سکتا ہے اور کسی جج کو عہدے سے ہٹانے کے لیے ”کو وارانٹو “کی رِٹ دائر کرنا آئین کے آرٹیکل 199(1) کو آرٹیکل 209(7) کے ساتھ ملا کر پڑھنے کی صورت میں قابل سماعت نہیں ہے. درخواست میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت کسی سنگل بینچ کے عبوری احکامات کے خلاف اپیل نہیں سن سکتی اور نہ ہی وہ سنگل بینچ کی کارروائیوں پر اس طرح کنٹرول حاصل کر سکتی ہے جیسے وہ کوئی ماتحت عدالت یا ٹریبونل ہو درخواست میں کہا گیا کہ درخواست گزار جج یہ سوالات اپنے آپ یا اپنے ادارے کو متنازع بنانے کے لیے نہیں اٹھا رہے بلکہ اس بات کو سمجھنے کے لیے اٹھا رہے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے اس فریضے کو پورا کر سکتے ہیں جو آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت آئین اور قانون کی اطاعت کا تقاضا کرتا ہے ساتھ ہی وہ اپنے اس حلف کے پابند ہیں جس کے مطابق وہ آئین کا تحفظ، حفاظت اور دفاع کریں گے اور ہر شخص کے ساتھ بلا خوف و خطر، بلا امتیاز، بلا جھکاو¿ اور بلا عناد قانون کے مطابق انصاف کریں گے. اسلام آبادہائی کورٹ کے ججوں نے گذشتہ برس چھ ججوں کے سپریم کورٹ کو لکھے گئے خطوط کو بھی درخواست کا حصہ بنایا ہے یہ پانچوں جج اپنی درخواستوں کی ذاتی حیثیت میں سپریم کورٹ میں پیروی کریں گے درخواستوں میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے اختیارات سے تجاوز، بینچوں کو مرضی کے مطابق تشکیل دینا، ہائی کورٹ رولز کو نظر انداز کرنا، مرضی کے ججوں کو نوازنا اور باقی ججوں کے ساتھ امتیازی رویے کے قانونی سوالات اٹھائے گئے ہیں جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کے خلاف اسلام آباد بار اور وکلا نے احتجاج کی کال بھی دی جبکہ چیف جسٹس اسلام آباد کورٹ جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ بھی دیا.