پاکستان کی ایران کیلئے غیر متزلزل حمایت ’’100؍ فیصد ویسی کی ویسی‘‘
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے درمیان وائٹ ہاؤس میں بدھ کو اعلیٰ سطح پر ہوئی ملاقات کے بعد منظر عام پر آنے والی قیاس آرائیوں کے باوجود، ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کے معاملے پر پاکستان کا موقف ’’100؍ فیصد وہی‘‘ ہے۔ ایک باخبر ذریعے نے اس نمائندے کو بتایا کہ پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات چیت کرتے ہوئے ذریعے نے بتایا کہ وہ اس ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ ہیں جو وائٹ ہاؤس میں ہوئی۔ جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ کیا فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کے بعد ایران اسرائیل تنازع پر پاکستان کا موقف تبدیل ہوا ہے اور کیا پاکستان ایران کی حمایت اسی طرح جاری رکھے گا جیسے پہلے کر رہا تھا، تو ذریعے نے مختصراً لیکن پُر زور جواب دیا ’صد فیصد وہی۔‘ صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی اس ملاقات کے بعد جہاں امریکی صدر نے پاکستانی فیلڈ مارشل کی دل کھول کر تعریف کی وہیں پاکستان کے بعض حلقوں، بالخصوص تحریک انصاف کے حامیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ پیش رفت نہ صرف نئی دہلی میں اضطراب کا باعث بنی بلکہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حامیوں نے ٹرمپ اور پاکستان کی فوجی قیادت پر شدید تنقید کی۔ پارٹی کے بانی چیئرمین سے قربت رکھنے والے ایک رہنما (جو فی الوقت مفرور ہیں) ان افراد میں شامل تھے جو سازشی نظریات کو فروغ دے رہے تھے کہ امریکی دباؤ کے تحت پاکستان کی ایران اسرائیل پالیسی میں ممکنہ تبدیلی آ سکتی ہے۔ تاہم، جمعرات کو دفتر خارجہ نے پاکستان کا دیرینہ موقف دوٹوک الفاظ میں پیش کرکے ان قیاس آرائیوں کو دفن کر دیا۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق، دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے اسرائیل کی ایران کیخلاف کارروائی کو بے بنیاد اور غیر قانونی جارحیت قرار دیا اور اس عمل کی سخت مذمت کی۔ انہوں نے عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ اسرائیلی جارحیت کو فی الفور روکا جائے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل کا محاسبہ کیا جائے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان ’ایران کے عوام کے ساتھ پختہ یکجہتی‘ میں ساتھ ہے اور اسرائیل کی ’’کھلی اشتعال انگیزی‘‘ کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ان کے مطابق، یہ اقدامات نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن و استحکام کیلئے بھی سنگین خطرہ ہیں۔ دفتر خارجہ سے سامنے آنے والے اس واضح اور دوٹوک موقف سے تمام افواہیں اور قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے پھیلائی جا رہی تھیں۔ اگرچہ امریکی صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے درمیان ملاقات نے خطے میں ایک سیاسی ارتعاش ضرور پیدا کیا لیکن اسلام آباد اپنی علاقائی وابستگیوں، بالخصوص ایران کی حمایت کے موقف پر بدستور قائم ہے۔
انصار عباسی
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر پاکستان کی ایران کی ٹرمپ اور
پڑھیں:
امریکا نے بھارت کا چاہ بہار منصوبہ مشکل میں ڈال دیا، چاہ بہار استثنیٰ ختم
امریکا نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ پر بھارت کو دیا گیا پابندیوں سے استثنیٰ ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جس سے نئی دہلی کے اس اسٹریٹجک منصوبے پر براہِ راست اثر پڑ سکتا ہے۔
یہ فیصلہ 29 ستمبر سے نافذ ہوگا اور واشنگٹن کی ایران کے خلاف ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی کا حصہ ہے۔
امریکا کے محکمۂ خارجہ نے کہا ہے کہ استثنیٰ کا خاتمہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے مطابق ہے تاکہ ایران کو عالمی سطح پر تنہا کیا جا سکے۔
اس کے بعد جو بھی ادارے یا افراد چاہ بہار بندرگاہ میں سرگرمیاں جاری رکھیں گے وہ امریکی پابندیوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔
بھارت کے لیے مشکل صورتِ حال
بھارت نے 2024 میں ایران کے ساتھ دس سالہ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت بھارتی کمپنی IPGL نے بندرگاہ پر 12 کروڑ ڈالر لگانے اور مزید 25 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔
چاہ بہار بھارت کے لیے وسطی ایشیا اور افغانستان تک براہِ راست رسائی کا ذریعہ ہے اور اسے پاکستان پر انحصار سے آزادی دیتا ہے۔
امریکی اقدام نئی دہلی کو ایک مشکل پوزیشن میں ڈال رہا ہے کیونکہ اسے واشنگٹن اور تہران دونوں کے ساتھ تعلقات کا توازن رکھنا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پیش رفت چین کے لیے بھی فائدہ مند ہو سکتی ہے، جو پاکستان کی گوادر بندرگاہ پر پہلے ہی اثرورسوخ رکھتا ہے۔
ٹرمپ کا بگرام ایئربیس واپس لینے کا عندیہ
ادھر صدر ٹرمپ نے برطانیہ کے دورے کے دوران اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان میں بگرام ایئربیس دوبارہ حاصل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ ایئربیس 2021 میں امریکا کے انخلا کے بعد طالبان کے قبضے میں چلا گیا تھا۔
ٹرمپ نے کہا کہ ہم اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ طالبان کو بھی ہم سے بہت سی چیزیں درکار ہیں۔
ان کے مطابق یہ بیس چین کے قریب واقع ہے جہاں اس کی ایٹمی سرگرمیاں ہیں، اس لیے اس کی اسٹریٹجک اہمیت بہت زیادہ ہے۔
سابق صدر نے ایک بار پھر بائیڈن انتظامیہ کے افغانستان سے انخلا کو ’ناکام فیصلہ‘ قرار دیا اور کہا کہ اس نے روسی صدر پیوٹن کو یوکرین پر حملے کی ہمت دی۔
فی الحال امریکا اور طالبان کے درمیان بگرام بیس کی واپسی پر براہِ راست مذاکرات کی تصدیق نہیں ہوئی، تاہم حالیہ مہینوں میں دونوں فریقوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور یرغمالیوں کی رہائی پر بات چیت ضرور ہوئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں