ایران میں امریکی فوجی مداخلت کے سنگین نتائج ناقابل پیشگوئی ہوں گے، روس کا انتباہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
روس کی وزارت خارجہ نے جمعرات کے روز امریکا کو خبردار کیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے تناظر میں ایران کے خلاف کسی قسم کی فوجی مداخلت سے گریز کرے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری فضائی جنگ شدت اختیار کر چکی ہے اور امریکا کے اس تنازعے میں شامل ہونے کی قیاس آرائیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ایران کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا، روسی صدر پیوٹن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے ایک بیان میں مشرقِ وسطیٰ میں موجود امریکی افواج کی جانب سے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کے امکان کا عندیہ دیا، اور ساتھ ہی تہران سے ’بلا شرط ہتھیار ڈالنے‘ کا مطالبہ بھی کیا، جس سے صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی۔
امریکا فوجی مداخلت سے گریز کرےروس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے جمعرات کو کہا:
ہم خاص طور پر واشنگٹن کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ اس صورتحال میں فوجی مداخلت سے گریز کرے۔ امریکا کی جانب سے ایسا کوئی قدم انتہائی خطرناک ہوگا جس کے نتائج سنگین اور ناقابلِ پیش گوئی ہوں گے۔
یہ انتباہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے چینی صدر شی جن پنگ سے فون پر گفتگو کی، جس میں دونوں رہنماؤں نے اسرائیلی کارروائیوں کی شدید مذمت کی اور فوری جنگ بندی پر زور دیا۔
کریملن کے بیان کے مطابق دونوں رہنما اسرائیل کے اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
مسئلہ سیاسی و سفارتی طریقوں سے حل ہونا چاہیےروسی صدر کے خارجہ امور کے مشیر یوری اوشاکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ ماسکو اور بیجنگ دونوں کا ماننا ہے کہ یہ تنازع صرف اور صرف سیاسی و سفارتی طریقوں سے حل ہونا چاہیے۔
روس، ایران کے ساتھ قریبی عسکری تعلقات رکھتا ہے، خاص طور پر یوکرین پر حملے کے بعد دونوں ممالک کے روابط مزید مضبوط ہوئے ہیں، لیکن ماسکو اسرائیل کے ساتھ بھی متوازن تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
ایران سے رابطے میں ہوں، پیوٹنپیوٹن نے یہ بھی واضح کیا کہ اگرچہ اسرائیل کی بمباری کے بعد ایران سے رابطے میں ہیں، مگر ایران نے روس سے کسی قسم کی فوجی مدد کی درخواست نہیں کی۔
ان کے بقول ہمارے ایرانی دوستوں نے اس حوالے سے ہم سے کچھ نہیں کہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنوری میں ایران کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا، وہ دفاعی معاہدہ نہیں بلکہ تعاون کی نوعیت کا ہے، جس کے تحت دونوں فریق ایک دوسرے کو فوجی مدد دینے کے پابند نہیں۔
آیت اللہ خامنہ ایجب پیوٹن سے پوچھا گیا کہ اگر آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کر دیا گیا تو روس کا ردعمل کیا ہوگا، تو انہوں نے جواب دیا:
’میں ایسی کسی صورتحال پر بات کرنا بھی نہیں چاہتا۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکا ایران پیوٹن روس روسی صدر کریملن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا ایران پیوٹن فوجی مداخلت ایران کے
پڑھیں:
امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل کی مسلسل حمایت اور مشرق وسطیٰ میں فوجی اڈے برقرار رکھنے پر امریکا کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ امریکی کبھی کبھار یہ کہتے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں لیکن جب تک وہ ملعون صیہونی ریاست (اسرائیل) کی حمایت جاری رکھیں گے اور مشرق وسطیٰ میں اپنے فوجی اڈے اور مداخلت ختم نہیں کریں گے اس وقت تک کسی تعاون کی گنجائش نہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی پیشکش کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا اور ایسے ملک سے تعلقات قائم نہیں کرسکتا جو خطے میں بدامنی اور اسرائیل کی حمایت کا ذمہ دار ہو۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔
گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ جب ایران تیار ہوگا تو امریکا بات چیت اور تعاون کے لیے تیار ہے، ہمارے لیے دوستی اور تعاون کے دروازے کھلے ہیں۔
خیال رہے کہ ایران اور امریکا کے تعلقات 2018 میں ٹرمپ کے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کے بعد سے مسلسل کشیدہ ہیں۔