وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین کا وژن نوجوانوں کی خوشحالی اور باصلاحیت بنانا ہے۔ خواجہ رمیض حسن
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 جون2025ء) مسلم لیگ ق کے رہنما خواجہ رمیض حسن پریس ریلیز میں کہا کہ پاکستان مسلم لیگ کا وژن عوامی ترقی اور انہیں قومی وسائل سے مستفید کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین پاکستانی سیاست میں شائستگی اور وضع داری میں اپنی مثال نہیں رکھتے۔
(جاری ہے)
چوہدری سالک حسین چوہدری شجاعت حسین کے جانشین کی حیثیت سے اپنی خاندانی روایات کو بہترین انداز میں نبھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز وہیومن ریسورس ڈوویلپمنٹ ہنر مند نوجوانوں کو اقوامِ عالم میں نمایاں مقام دلوانے اور خودمختار بنانے کے لیے خصوصی کردار کررہے ہیںوفاقی وزیر چوہدری سالک حسین کا وژن نوجوانوں کی خوشحالی اور باصلاحیت بنانا ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
’پاکستانی ٹیلنٹ اور چینی ٹیکنالوجی ناقابلِ تسخیر دیوار ہیں‘: مشاہد حسین سید
پاک چین انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے پاکستانی ٹیلنٹ اور چینی ٹیکنالوجی کو جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کےلیے ایک ناقابلِ شکست دیوار قرار دیا ہے۔
مشاہد حسین سید نے یہ بات پاکستان اور چین کے تعلقات کی مضبوطی اور مستقبل کی مشترکہ تعمیر کے موضوع پر اسلام آباد میں پاک-چین انسٹیٹیوٹ (PCI) کے زیرِ اہتمام اہم ڈائیلاگ کا انعقاد کے موقع پر کہی۔
’فرینڈز آف سلک روڈ‘ کے بینر تلے ہونے والے اس اجلاس میں سیاسی قائدین، سفارتکاروں، اراکینِ پارلیمنٹ، طلبہ، ماہرین اور چینی وفد نے شرکت کی۔ مکالمے کا موضوع تھا: ’’پاکستان اور چین کے درمیان باہمی تفہیم کو مضبوط بنانا اور ہمسایہ ممالک کے لیے مشترکہ مستقبل کی بنیاد رکھنا‘‘۔
اس موقع پر مقررین نے ’’آئرن برادرز‘‘ کے طو پر معروف پاکستان اور چین کے تاریخی تعلقات کو خراجِ تحسین پیش کیا اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کو امن، خوشحالی اور علاقائی رابطے کےلیے ایک طاقتور محرک قرار دیا۔
ڈائیلاگ میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے انٹرنیشنل ڈپارٹمنٹ (IDCPC) کا اعلیٰ سطحی پانچ رکنی وفد شریک ہوا جس کی قیادت ترجمان اور چیف آف انفارمیشن، سفیر ہو ژاؤ منگ نے کی۔
ڈائیلاگ کے آغاز میں PCI کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور مکالمے کے ناظم مصطفیٰ حیدر سید نے کہا کہ پاکستان اور چین کی دوستی صرف سفارتی یا مفاداتی نوعیت کی نہیں بلکہ یہ ایک تاریخی، اعتماد پر مبنی اور خطے کی مجموعی ترقی کے عزم سے جُڑی رفاقت ہے۔ انہوں نے سرد جنگ کے بیانیے کی واپسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکی کانگریس کے ’’کاؤنٹرنگ پی آر سی انفلوئنس فنڈ‘‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا جو چینی اثرورسوخ کو محدود کرنے کے لیے اربوں ڈالر مختص کرتا ہے۔ ان کے مطابق یہ اقدام ترقی اور مکالمے کے بجائے ٹکراؤ کو ہوا دیتا ہے۔
چیئرمین PCI اور سینیٹر مشاہد حسین سید نے کلیدی خطاب میں کہا کہ ’’دنیا میں اقتصادی و سیاسی طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے، اور یہ ایشیائی صدی کی نوید ہے‘‘۔
انہوں نے چین کے پرامن ابھار کو ترقی پذیر اقوام کے لیے ایک حوصلہ افزا قوت قرار دیا اور بھارت کی حالیہ جارحیت کے دوران پاکستان کی حمایت پر چین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستانی ٹیلنٹ اور چینی ٹیکنالوجی جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کے لیے ایک ناقابلِ شکست دیوار ہیں‘‘۔
اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا اور سرد جنگ جیسے بیانیے کو مسترد کیا۔
چینی وفد کے سربراہ سفیر ہو ژاؤ منگ نے پاکستان کو چینی عوام کے دل میں ’’گہرائی سے نقش‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ’’چین اور پاکستان ایک سکے کے دو رخ ہیں، ایک کے بغیر دوسرا ممکن نہیں‘‘۔ BRI کی عالمی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 150 سے زائد ممالک اس میں شریک ہیں اور یہ منصوبہ نہ صرف چین کی داخلی ترقی بلکہ عالمی رابطے کا بھی ذریعہ ہے۔ انہوں نے نوجوان نسل پر زور دیا کہ وہ دوستی کے اس مشعلے کو روشن رکھیں۔
وزیرِ مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی ڈاکٹر شذرہ منصب علی کھرل نے کہا کہ عالمی نظام واضح طور پر بکھر رہا ہے، جب کہ چین ریاستوں کے درمیان برابری، عدم مداخلت اور کثیر القطبیت کی وکالت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ BRI اس وژن کا عملی مظہر ہے جو معاشی روابط کو تصادم پر ترجیح دیتا ہے۔
سابق سیکرٹری خارجہ، سفیر اعزاز احمد چوہدری نے اس بات پر زور دیا کہ جب دنیا جنگوں اور قوانین کی شکست و ریخت کے دور سے گزر رہی ہے، صدر شی جن پنگ کا ’’ون-ون‘‘ اور باہمی احترام کا نظریہ ایک بہتر عالمی نظام کے لیے امید کی کرن ہے۔
وزیرِ مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ سی پیک کی کامیابی کے لیے سلامتی اور استحکام کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے سافٹ پاور کے ذریعے علاقائی زبانوں میں میڈیا کی توسیع، خصوصاً بلوچی زبان میں نشریات پر زور دیا تاکہ عوامی روابط کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے افغانستان کو بھی سی پیک میں شامل کرنے کی تجویز دی، جسے انہوں نے مشترکہ مستقبل کے وژن کا فطری تسلسل قرار دیا۔
اس اجلاس میں ملک بھر کی جامعات سے طلبہ، اسکالرز، میڈیا نمائندگان، تھنک ٹینکس اور سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں کے نمائندے شریک تھے۔ اس موقع پر پاک-چین سافٹ پاور کو مشترکہ طور پر فروغ دینے کے لیے تجاویز بھی پیش کی گئیں اور آئندہ چین میں ہونے والی کانفرنسز اور تقریبات پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔