Express News:
2025-11-04@04:42:58 GMT

زندہ ہے بھٹو زندہ ہے!

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ تو کچھ لوگ اپنی متعصبانہ اور تنگ نظر سوچ کی وجہ سے اس بات کا مذاق اڑاتے ہیں اور وہ اپنے اس رویے پر غور بھی نہیں کرتے۔

یہ لوگ تاریخ سے نابلد ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ انسانی سیاسی تاریخ میں بڑے بڑے رہنما پیدا ہوئے، جو مقبولیت کی انتہا پر تھے اور جنہوں نے تاریخ کی کایا پلٹ دینے والے انقلابات برپا کیے لیکن تاریخ نے وقت کے ساتھ ان کے سیاسی فلسفہ کو غلط ثابت کیا اور وہ سیاسی طور پر مر چکے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے انتہاپسندی اور اشتعال انگیزی کو ہوا دے کر عوامی حمایت یا مقبولیت حاصل کی اور اس عوامی حمایت سے جو تبدیلی یا انتشار برپا کیا، وہ انہی رہنماؤں، ان کی سیاسی جماعتوں اور خود عوام کےلیے تباہ کن ثابت ہوا۔ ان رہنماؤں میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کرنے والے، قوم پرست اور مذہبی سوچ کے حامل سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ فوجی طالع آزما بھی شامل تھے۔

تاریخ میں چند سیاسی رہنما ایسے ہیں، جن کا سیاسی فلسفہ آج بھی زندہ اور کارگر (Relevant) ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ آج بھی اپنی سیاسی سوچ اور اپچ (Approach) کی وجہ سے مکانی اور زمانی طور پر زندہ ہیں۔ ان میں سے ایک شہید ذوالفقار علی بھٹو بھی ہیں۔ یہ وہ رہنما ہیں، جنہیں تاریخ کا بہت گہرا ادراک تھا اور انہوں نے تاریخ کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا سیاسی ویژن دیا۔

شہید بھٹو کا سیاسی ویژن تین بنیادی اصولوں پر استوار ہے۔ پہلا بنیادی اصول یہ ہے کہ اپنے ملک اور اپنی قوم کے مفادات کو خارجی سیاست میں ہمیشہ مقدم رکھا جائے۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ داخلی طور پر بنیادی مسائل کو حل کیا جائے اور اس کےلیے محروم اور کچلے ہوئے طبقات، قومیتوں اور گروہوں کو ان کے حقوق دلوائے جائیں۔ ان کے وسائل پر ان کا حق تسلیم کیا جائے، انہیں معاشی طور پر مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں شہری آزادیوں سمیت تمام بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں۔ تیسرا بنیادی اصول یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کےلیے طویل اور صبر آزما جمہوری جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے، جو پُرامن ہونے کے ساتھ ساتھ پائیدار بھی ہے اور مرحلہ وار پیش رفت اور فتوحات کا پیش خیمہ بھی ہے۔

جمہوری جدوجہد کا راستہ تباہ کن مہم جوئی یا انتشار کے راستے سے بہتر ہے۔ مہم جوئی اور انتشار کا راستہ سامراجی اور عوام دشمن قوتوں کے فائدے میں ہوتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے عوام سے وہ بھی چھن جاتا ہے، جو اس نے پُرامن جمہوری جدوجہد سے حاصل کیا ہوتا ہے۔ اس لیے سامراجی اور عوام دشمن قوتیں پُرامن جمہوری جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے والوں سے ہمیشہ خوف زدہ رہتی ہیں اور انہیں اپنے قہر کا نشانہ بناتی ہیں۔ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بے مثل قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں۔

پیپلز پارٹی کی پُرامن جمہوری جدوجہد اور قربانیوں کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آج اگر پاکستان میں ایک وفاقی پارلیمانی جمہوری آئین ہے، جمہوریت ہے، وفاقی اکائیوں اور عوام کو کچھ ملا ہے تو وہ شہید بھٹو اور ان کے سیاسی ویژن پر عمل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی وجہ سے ملا ہے۔ شہید بھٹو کے سیاسی ویژن کی بنیاد پر پیپلز پارٹی آج بھی عوام کی حقیقی نمائندہ جماعت کے طور پر جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور ابھی تک کارگر ہے۔ اس لیے بھٹو آج بھی زندہ ہے۔

شہید بھٹو کے سیاسی ویژن اور فلسفے کو سمجھنا ہے تو ان کی تحریروں، انٹرویوز اور تقریروں کا بہت گہرائی کے ساتھ مطالعہ ضروری ہے۔ 30 نومبر 1967 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے تاسیسی اجلاس میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تحریر کردہ ’’بنیادی دستاویزات‘‘ پیش کیں، جو پارٹی نے منظور کرلیں۔ ان بنیادی دستاویزات میں یہ قرار دیا گیا کہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ پھر ان بنیادی دستاویزات کی توضیح کےلیے شہید بھٹو نے اپریل 1968 میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک تفصیلی پروگرام تحریر کیا، جس میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان ایک بھنور میں پھنس گیا ہے۔ جب ہم اپنی قومی زندگی کے گزشتہ 20 سال پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک خطرناک رحجان نظر آتا ہے، جو بین الاقوامی اور برصغیر کے مسائل سے مل کر پیدا ہوا ہے۔ یہ سوچنا غیر معقول ہوگا کہ یہ بحران موجودہ دور کا روزمرہ کا بحران ہے یا قدرتی عمل کا نتیجہ ہے۔ اس غالب منفی رحجان کو پلٹنا ہوگا۔

ذوالفقار علی بھٹو شہید جیسا عالم اور مدبر سیاست دان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ حالات کو بین الاقوامی اور تاریخی تناظر میں دیکھتے تھے۔ ان کی سوچ سطحی نہیں بلکہ گہری تھی۔ جس زمانے میں انہوں نے پارٹی بنائی، اس زمانے میں عالمی اشتراکی تحریک بہت مضبوط تھی اور سوشلسٹ انقلابات برپا ہورہے تھے لیکن شہید بھٹو کی نظر مستقبل پر تھی۔ انہیں پتہ تھا کہ اس اشتراکی تحریک کا انجام کیا ہوگا۔ اس لیے انہوں نے ملک میں اشتراکی آمریت کا نعرہ لگانے کے بجائے جمہوریت کو اپنی سیاست قرار دیا، جس پر بالآخر اشتراکی (سوشلسٹ) ممالک کو بھی آنا تھا لیکن بڑی تباہی کے بعد۔

شہید بھٹو نے سوشلزم کو سیاست نہیں بلکہ اپنی معیشت قرار دیا۔ بنیادی دستاویزات اور پارٹی پروگرام میں انہوں نے اس کی مدلل وضاحت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سرمایہ داری وہ نہیں ہے، جو یورپ اور دیگر سرمایہ دار ممالک میں ہے۔ وہاں کی سرمایہ داری جمہوریت اور شہری آزادیوں کی حامی ہے جبکہ پاکستان میں سرمایہ داری کے نام پر صرف 22 خاندان سرمایہ لوٹ رہے ہیں اور وہ عوام کے جمہوری حقوق کے مخالف اور آمریت نواز ہیں۔ وہ اپنے کارخانوں کو گنجائش کے مطابق نہیں چلاتے اور نہ ہی مزید صنعت کاری ہونے دیتے ہیں۔ وہ صنعتوں کے نام پر ریاستی سرمایہ قرضوں کے نام پر ہڑپ کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے محنت کشوں کےلیے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا نہیں ہو رہے اور ملک کی اکثریتی دیہی آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے۔

بنیادی دستاویزات میں نجی سرمایہ کاری کی مخالفت بھی نہیں کی گئی بلکہ یہ لکھا گیا کہ ’’نجی سرمایہ کاری کی اجازت محض قابلیت، ہنرمندی اور جائز نفع رسانی کے اصولوں پر ہوگی، نہ کہ بڑے خاندانوں کی سرپرستی اور نوکر شاہی کی ناجائز دھڑے بندیوں کی بنا پر۔ نجی سرمایہ کاری اس حد تک نفع اندوز ہوسکتی ہے جبکہ محنت کش طبقہ اس کی نفع رسانی میں برابر کا شریک ہو۔ شہید بھٹو سوشلزم کے حامی تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ سوشلزم محض ایک آرڈر یا آمریت سے نافذ نہیں ہوتا ۔ غیر طبقاتی اور سوشلسٹ معاشرے کے قیام اور سرمایہ دارانہ استحصال سے نجات کےلیے انسان کو تاریخی مرحلوں سے گزرنا ہے ۔ یہ سفر عوام دوست سیاسی پروگرام کے تحت جمہوریت سے ہی طے ہوسکے گا۔ 

ایک اور بڑا کارنامہ شہید بھٹو کا یہ ہے کہ انہوں نے 1973 کے دستور کے ذریعے پاکستان کو نہ صرف وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام حکومت دیا بلکہ وفاقی اکائیوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دے کر ان کا احساس محرومی ختم کیا۔ شہید بھٹو نے پاکستان کو غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی دی ، جس کی وضاحت انہوں نے اپنی کتاب ’’آزادی موہوم‘‘ ( Myth of Independence) میں کی۔ وہ پاکستان کو امریکی مفادات کی بھینٹ چڑھانے کے مخالف تھے اور اسے چین کے قریب لانے کی وکالت کرتے رہے لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ چین سے تعلقات میں بھی پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھا جائے۔

انہوں نے یہ کہہ کر ہر بحران کا تاریخی طور پر ایک آزمودہ حل بتادیا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ ہر بحران میں عوام سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ یہ بھٹو ازم ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور نظریہ کارگر نہیں۔ لیکن افسوس کہ شہید بھٹو کے فلسفے اور ویژن کے برعکس کیا گیا ۔ عالمی طاقتوں کے کھیل میں پاکستان کو جھونک کر کبھی فوجی حکومتیں قائم کی گئیں اور کبھی نسلی، لسانی، علاقائی، مذہبی اور نام نہاد سیاسی انتہا پسندی کو فروغ دے کر پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا ۔

آج ملک پھر اسی بھنور میں پھنسا ہوا ہے، جس کی نشاندہی شہید بھٹو نے اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں کی تھی۔ شہید بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملک کو بحران سے نکالنے کےلیے شہید بھٹو کے سیاسی فلسفے پر عمل کیا اور اپنی جان قربان کردی اور اب بلاول بھٹو زرداری اس فلسفے کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔

شہید بھٹو کے الفاظ میں بلاول بھٹو عوام کے ساتھ روابط قائم کرکے اور ان کی آرزؤوں اور تمناؤں کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرکے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ شہید بھٹو آج بھی زندہ ہیں اور رہنمائی کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ایک آمر کے ہاتھوں مرنا پسند کیا، تاریخ کے ہاتھوں نہیں۔ ان کے سیاسی فلسفے کو تاریخ نے بھی درست ثابت کیا ہے۔ آج کے حالات میں پھر شہید بھٹو سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بنیادی دستاویزات جمہوری جدوجہد شہید بھٹو کے شہید بھٹو نے پیپلز پارٹی سیاسی ویژن پاکستان کو کی وجہ سے کا راستہ انہوں نے کے سیاسی یہ ہے کہ ہیں اور زندہ ہے رہے ہیں کے ساتھ اور ان ہے اور آج بھی اور اس

پڑھیں:

اسرائیل کے غزہ،لبنان میں تازہ حملے ، 7 شہید, کارروائیوں سے متعلق امریکاکو آگاہ کرتے ہیں اجازت نہیں مانگتے‘ نیتن یاہو

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-01-12

 

غزہ /تل ابیب (مانیٹرنگ ڈیسک/ صباح نیوز) اسرائیلی فوج کی جانب سے گزشتہ روز بھی غزہ اورلبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں جاری رہیں، جہاںقابض فوج نے   مزید 7 اور کو شہید کردیا۔ غزہ میں 3اور لبنان میں 4 شہید ہوئے۔ عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے مختلف علاقوں میں فلسطینیوں کو نشانہ بنایا، جنگ بندی کے آغاز سے اب تک اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 236 فلسطینی شہید جبکہ 600 زخمی ہوچکے ہیں۔غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے بتایاکہ مغربی علاقے میں اسرائیلی فوج کے حملوں کے باعث تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے مزید 2 فلسطینیوں کی لاشیں نکال لی گئیں۔ خان یونس سمیت دیگر علاقوں میں بھی لاشوں کو نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی مجموعی تعداد 68 ہزار 858 ہوگئی جبکہ ایک لاکھ 70 ہزار 664 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ادھر قابض فوج کی مغربی کنارے میں بھی کارروائیاں جاری رہیں، جہاں گھر گھر تلاشی کے دوران بچوں سمیت 21 فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔دوسری جانب اسرائیلی فوج کی جانب سے لبنان جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں بھی جاری رہیں۔ صہیونی فوج نے جنوبی لبنان میں کار پر ڈرون حملہ کیا جس کے نتیجے میں 4 افراد شہید ہو گئے۔فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ امن معاہدے پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید3 یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کردیں۔اسرائیلی فوج نے ریڈ کراس سے یرغمالیوں کی لاشیں موصول ہونے کی تصدیق کردی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق لاشوں کو شناخت کے عمل کے لیے تل ابیب کے ابوکبیر فرانزک انسٹی ٹیوٹ منتقل کردیا گیا ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس کے پاس اب بھی 8 یرغمالیوں کی لاشیں موجود ہیں۔غزہ میں فلسطینی وزارتِ صحت نے اعلان کیا ہے کہ اسے پیر کے روز قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے 45فلسطینی شہدا کی لاشیں موصول ہوئیں جنہیں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے ذریعے حوالے کیا گیا۔ اس طرح قابض اسرائیل سے موصول ہونے والی شہدا کی لاشوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 270ہوگئی ہے۔اسرائیل کی 2 سالہ جنگ کے بعد غزہ کے بچے بتدریج تباہ شدہ اسکولوں میں  واپس آنے لگے جس کے بعد بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کی نئی امید پیدا ہوگئی۔ عرب میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم ایجنسی (انروا) نے گزشتہ  ہفتے اعلان کیا کہ جنگ بندی کے آغاز کے بعد غزہ میں کچھ اسکول دوبارہ کھول دیے گئے ہیں۔ انروا کے سربراہ فلپ لزارینی نے منگل کو ایکس پر بتایا کہ اب تک غزہ کے 25 ہزار سے زاید بچے عارضی تعلیمی مراکز میں شامل ہو چکے ہیں، جبکہ 3 لاکھ کے قریب بچے آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیم حاصل کریں گے۔عرب میڈیا کے مطابق غزہ کے علاقے نصیرات میں واقع الحصینہ اسکول میں کلاسز دوبارہ شروع ہو چکی ہیں، اگرچہ عمارت میں اب بھی کمروں کی شدید کمی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے بل کی حمایت کردی، بل بدھ کو پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔ترکیہ کے سرکاری خبر رساں ادارے اناطولیہ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے یرغمالیوں اور لاپتا افراد کے کوآرڈینٹر نے کہا کہ وزیراعظم نیتن یاہو ایک ایسے بل کی حمایت کرتے ہیں جس کے تحت فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دی جاسکے گی۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ غزہ میں کی جانے والی کارروائیاں امریکا کو رپورٹ کی جاتی ہیں لیکن کسی قسم کی اجازت نہیں لی جاتی۔کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ غزہ کے کچھ حصوں میں اب بھی حماس کے مراکز موجود ہیں جنہیں مکمل طور پر ختم کیا جا رہا ہے۔ رفح اور خان یونس میں حماس کے مراکز ہیں جنہیں جلد ختم کر دیا جائے گا۔  فلسطینی اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے کہا ہے کہ صہیونی کنیسٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے فلسطینی اسیران کو سزائے موت دینے کے بل کی منظوری اور اسے کنیسٹ میں ووٹنگ کے لیے پیش کرنے کا فیصلہ قابض اسرائیل کے فاشزم اور نسل پرستانہ سوچ کی کھلی عکاسی ہے۔ حماس کے مطابق یہ اقدام بین الاقوامی قوانین، بالخصوص بین الاقوامی انسانی قانون اور تیسرے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق پیر کے روز اپنے بیان میں حماس نے اقوام متحدہ، عالمی برادری اور انسانی و حقوقی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مجرمانہ اور وحشیانہ اقدام کو روکنے کے لیے فوری عملی قدم اٹھائیں۔

مانیٹرنگ ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کے غزہ،لبنان میں تازہ حملے ، 7 شہید, کارروائیوں سے متعلق امریکاکو آگاہ کرتے ہیں اجازت نہیں مانگتے‘ نیتن یاہو
  • 27ویں آئینی ترمیم کے باضابطہ ڈرافٹ پر اب تک کوئی کام شروع نہیں ہوا: وزیر مملکت برائے قانون
  • وزیراعظم نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کےلئے حمایت مانگی، بلاول بھٹو نے تفصیلات جاری کردیں
  • وزیراعظم نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے حمایت مانگی، بلاول بھٹو نے تفصیلات جاری کردیں
  • وزیراعظم نے27 ویں ترمیم کی منظوری کیلئے پیپلزپارٹی کی حمایت مانگی ہے، بلاول بھٹو
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  • پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا، فواد چوہدری
  • سابق وزیر دفاع اور پیپلز پارٹی کے رہنما آفتاب شعبان میرانی انتقال کر گئے
  • کشمیر کا مسئلہ پیپلز پارٹی کے دل کے قریب ہے، شازیہ مری