Express News:
2025-06-20@16:03:35 GMT

زندہ ہے بھٹو زندہ ہے!

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ تو کچھ لوگ اپنی متعصبانہ اور تنگ نظر سوچ کی وجہ سے اس بات کا مذاق اڑاتے ہیں اور وہ اپنے اس رویے پر غور بھی نہیں کرتے۔

یہ لوگ تاریخ سے نابلد ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ انسانی سیاسی تاریخ میں بڑے بڑے رہنما پیدا ہوئے، جو مقبولیت کی انتہا پر تھے اور جنہوں نے تاریخ کی کایا پلٹ دینے والے انقلابات برپا کیے لیکن تاریخ نے وقت کے ساتھ ان کے سیاسی فلسفہ کو غلط ثابت کیا اور وہ سیاسی طور پر مر چکے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے انتہاپسندی اور اشتعال انگیزی کو ہوا دے کر عوامی حمایت یا مقبولیت حاصل کی اور اس عوامی حمایت سے جو تبدیلی یا انتشار برپا کیا، وہ انہی رہنماؤں، ان کی سیاسی جماعتوں اور خود عوام کےلیے تباہ کن ثابت ہوا۔ ان رہنماؤں میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کرنے والے، قوم پرست اور مذہبی سوچ کے حامل سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ فوجی طالع آزما بھی شامل تھے۔

تاریخ میں چند سیاسی رہنما ایسے ہیں، جن کا سیاسی فلسفہ آج بھی زندہ اور کارگر (Relevant) ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ آج بھی اپنی سیاسی سوچ اور اپچ (Approach) کی وجہ سے مکانی اور زمانی طور پر زندہ ہیں۔ ان میں سے ایک شہید ذوالفقار علی بھٹو بھی ہیں۔ یہ وہ رہنما ہیں، جنہیں تاریخ کا بہت گہرا ادراک تھا اور انہوں نے تاریخ کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا سیاسی ویژن دیا۔

شہید بھٹو کا سیاسی ویژن تین بنیادی اصولوں پر استوار ہے۔ پہلا بنیادی اصول یہ ہے کہ اپنے ملک اور اپنی قوم کے مفادات کو خارجی سیاست میں ہمیشہ مقدم رکھا جائے۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ داخلی طور پر بنیادی مسائل کو حل کیا جائے اور اس کےلیے محروم اور کچلے ہوئے طبقات، قومیتوں اور گروہوں کو ان کے حقوق دلوائے جائیں۔ ان کے وسائل پر ان کا حق تسلیم کیا جائے، انہیں معاشی طور پر مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں شہری آزادیوں سمیت تمام بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں۔ تیسرا بنیادی اصول یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کےلیے طویل اور صبر آزما جمہوری جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے، جو پُرامن ہونے کے ساتھ ساتھ پائیدار بھی ہے اور مرحلہ وار پیش رفت اور فتوحات کا پیش خیمہ بھی ہے۔

جمہوری جدوجہد کا راستہ تباہ کن مہم جوئی یا انتشار کے راستے سے بہتر ہے۔ مہم جوئی اور انتشار کا راستہ سامراجی اور عوام دشمن قوتوں کے فائدے میں ہوتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے عوام سے وہ بھی چھن جاتا ہے، جو اس نے پُرامن جمہوری جدوجہد سے حاصل کیا ہوتا ہے۔ اس لیے سامراجی اور عوام دشمن قوتیں پُرامن جمہوری جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے والوں سے ہمیشہ خوف زدہ رہتی ہیں اور انہیں اپنے قہر کا نشانہ بناتی ہیں۔ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بے مثل قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں۔

پیپلز پارٹی کی پُرامن جمہوری جدوجہد اور قربانیوں کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آج اگر پاکستان میں ایک وفاقی پارلیمانی جمہوری آئین ہے، جمہوریت ہے، وفاقی اکائیوں اور عوام کو کچھ ملا ہے تو وہ شہید بھٹو اور ان کے سیاسی ویژن پر عمل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی وجہ سے ملا ہے۔ شہید بھٹو کے سیاسی ویژن کی بنیاد پر پیپلز پارٹی آج بھی عوام کی حقیقی نمائندہ جماعت کے طور پر جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور ابھی تک کارگر ہے۔ اس لیے بھٹو آج بھی زندہ ہے۔

شہید بھٹو کے سیاسی ویژن اور فلسفے کو سمجھنا ہے تو ان کی تحریروں، انٹرویوز اور تقریروں کا بہت گہرائی کے ساتھ مطالعہ ضروری ہے۔ 30 نومبر 1967 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے تاسیسی اجلاس میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تحریر کردہ ’’بنیادی دستاویزات‘‘ پیش کیں، جو پارٹی نے منظور کرلیں۔ ان بنیادی دستاویزات میں یہ قرار دیا گیا کہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ پھر ان بنیادی دستاویزات کی توضیح کےلیے شہید بھٹو نے اپریل 1968 میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک تفصیلی پروگرام تحریر کیا، جس میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان ایک بھنور میں پھنس گیا ہے۔ جب ہم اپنی قومی زندگی کے گزشتہ 20 سال پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک خطرناک رحجان نظر آتا ہے، جو بین الاقوامی اور برصغیر کے مسائل سے مل کر پیدا ہوا ہے۔ یہ سوچنا غیر معقول ہوگا کہ یہ بحران موجودہ دور کا روزمرہ کا بحران ہے یا قدرتی عمل کا نتیجہ ہے۔ اس غالب منفی رحجان کو پلٹنا ہوگا۔

ذوالفقار علی بھٹو شہید جیسا عالم اور مدبر سیاست دان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ حالات کو بین الاقوامی اور تاریخی تناظر میں دیکھتے تھے۔ ان کی سوچ سطحی نہیں بلکہ گہری تھی۔ جس زمانے میں انہوں نے پارٹی بنائی، اس زمانے میں عالمی اشتراکی تحریک بہت مضبوط تھی اور سوشلسٹ انقلابات برپا ہورہے تھے لیکن شہید بھٹو کی نظر مستقبل پر تھی۔ انہیں پتہ تھا کہ اس اشتراکی تحریک کا انجام کیا ہوگا۔ اس لیے انہوں نے ملک میں اشتراکی آمریت کا نعرہ لگانے کے بجائے جمہوریت کو اپنی سیاست قرار دیا، جس پر بالآخر اشتراکی (سوشلسٹ) ممالک کو بھی آنا تھا لیکن بڑی تباہی کے بعد۔

شہید بھٹو نے سوشلزم کو سیاست نہیں بلکہ اپنی معیشت قرار دیا۔ بنیادی دستاویزات اور پارٹی پروگرام میں انہوں نے اس کی مدلل وضاحت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سرمایہ داری وہ نہیں ہے، جو یورپ اور دیگر سرمایہ دار ممالک میں ہے۔ وہاں کی سرمایہ داری جمہوریت اور شہری آزادیوں کی حامی ہے جبکہ پاکستان میں سرمایہ داری کے نام پر صرف 22 خاندان سرمایہ لوٹ رہے ہیں اور وہ عوام کے جمہوری حقوق کے مخالف اور آمریت نواز ہیں۔ وہ اپنے کارخانوں کو گنجائش کے مطابق نہیں چلاتے اور نہ ہی مزید صنعت کاری ہونے دیتے ہیں۔ وہ صنعتوں کے نام پر ریاستی سرمایہ قرضوں کے نام پر ہڑپ کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے محنت کشوں کےلیے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا نہیں ہو رہے اور ملک کی اکثریتی دیہی آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے۔

بنیادی دستاویزات میں نجی سرمایہ کاری کی مخالفت بھی نہیں کی گئی بلکہ یہ لکھا گیا کہ ’’نجی سرمایہ کاری کی اجازت محض قابلیت، ہنرمندی اور جائز نفع رسانی کے اصولوں پر ہوگی، نہ کہ بڑے خاندانوں کی سرپرستی اور نوکر شاہی کی ناجائز دھڑے بندیوں کی بنا پر۔ نجی سرمایہ کاری اس حد تک نفع اندوز ہوسکتی ہے جبکہ محنت کش طبقہ اس کی نفع رسانی میں برابر کا شریک ہو۔ شہید بھٹو سوشلزم کے حامی تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ سوشلزم محض ایک آرڈر یا آمریت سے نافذ نہیں ہوتا ۔ غیر طبقاتی اور سوشلسٹ معاشرے کے قیام اور سرمایہ دارانہ استحصال سے نجات کےلیے انسان کو تاریخی مرحلوں سے گزرنا ہے ۔ یہ سفر عوام دوست سیاسی پروگرام کے تحت جمہوریت سے ہی طے ہوسکے گا۔ 

ایک اور بڑا کارنامہ شہید بھٹو کا یہ ہے کہ انہوں نے 1973 کے دستور کے ذریعے پاکستان کو نہ صرف وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام حکومت دیا بلکہ وفاقی اکائیوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دے کر ان کا احساس محرومی ختم کیا۔ شہید بھٹو نے پاکستان کو غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی دی ، جس کی وضاحت انہوں نے اپنی کتاب ’’آزادی موہوم‘‘ ( Myth of Independence) میں کی۔ وہ پاکستان کو امریکی مفادات کی بھینٹ چڑھانے کے مخالف تھے اور اسے چین کے قریب لانے کی وکالت کرتے رہے لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ چین سے تعلقات میں بھی پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھا جائے۔

انہوں نے یہ کہہ کر ہر بحران کا تاریخی طور پر ایک آزمودہ حل بتادیا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ ہر بحران میں عوام سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ یہ بھٹو ازم ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور نظریہ کارگر نہیں۔ لیکن افسوس کہ شہید بھٹو کے فلسفے اور ویژن کے برعکس کیا گیا ۔ عالمی طاقتوں کے کھیل میں پاکستان کو جھونک کر کبھی فوجی حکومتیں قائم کی گئیں اور کبھی نسلی، لسانی، علاقائی، مذہبی اور نام نہاد سیاسی انتہا پسندی کو فروغ دے کر پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا ۔

آج ملک پھر اسی بھنور میں پھنسا ہوا ہے، جس کی نشاندہی شہید بھٹو نے اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں کی تھی۔ شہید بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملک کو بحران سے نکالنے کےلیے شہید بھٹو کے سیاسی فلسفے پر عمل کیا اور اپنی جان قربان کردی اور اب بلاول بھٹو زرداری اس فلسفے کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔

شہید بھٹو کے الفاظ میں بلاول بھٹو عوام کے ساتھ روابط قائم کرکے اور ان کی آرزؤوں اور تمناؤں کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرکے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ شہید بھٹو آج بھی زندہ ہیں اور رہنمائی کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ایک آمر کے ہاتھوں مرنا پسند کیا، تاریخ کے ہاتھوں نہیں۔ ان کے سیاسی فلسفے کو تاریخ نے بھی درست ثابت کیا ہے۔ آج کے حالات میں پھر شہید بھٹو سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بنیادی دستاویزات جمہوری جدوجہد شہید بھٹو کے شہید بھٹو نے پیپلز پارٹی سیاسی ویژن پاکستان کو کی وجہ سے کا راستہ انہوں نے کے سیاسی یہ ہے کہ ہیں اور زندہ ہے رہے ہیں کے ساتھ اور ان ہے اور آج بھی اور اس

پڑھیں:

عمران خان اگر معافی مانگ لیں تب بھی اب انہیں کبھی اقتدار نہیں ملے گا ، خواجہ آصف

 

اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اگر معافی مانگ لیں تب بھی اب انہیں کبھی اقتدار نہیں ملے گا۔

عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیردفاع خواجہ آصف نے سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ’نام نہاد ہائبرڈ نظام‘ ناکام رہا کیونکہ اُس وقت سیاسی اور عسکری قیادت میں ہم آہنگی کا فقدان تھا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ موجودہ حکومت اور عسکری ادارے باہم مشاورت اور ہم آہنگی سے ملک کو بحران سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے نہ صرف ریاستی اداروں کے خلاف جرائم کیے بلکہ اب وہ معافی مانگنے کے باوجود دوبارہ اقتدار میں آنے کے قابل نہیں رہے۔

انہوں نے کہا ’اگر وہ معافی مانگیں تب بھی انہیں دوبارہ اقتدار نہیں ملے گا، کیونکہ انہوں نے نہ صرف سیاسی بلکہ قومی سلامتی کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔‘

اوورسیز پاکستانیوں کی تعریف
خواجہ آصف نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی خدمات کو سراہا اور بتایا کہ سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے رواں سال مارچ میں 4 ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلات زر بھیجی گئیں،انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے کنونشن منعقد کرنے کی حمایت کی۔

وزیر دفاع نے بلوچستان میں بدامنی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بندوق کے زور پر مسائل حل نہیں کیے جاسکتے، بلکہ سیاسی مذاکرات کے ذریعے پائیدار امن ممکن ہے۔

نواز شریف کی صحت سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم لندن میں روزانہ کی بنیاد پر علاج کرا رہے ہیں اور ان سے ان کی ملاقات بھی ہوئی ہے۔

’ہائبرڈ ماڈل‘ وقتی حل ہے، آئینی نہیں
: وزیر دفاع نے کہا پاکستان میں موجودہ ’ہائبرڈ ماڈل‘ایک عارضی بندوبست ہے جو معاشی اور حکومتی مسائل کے حل تک نافذ العمل رہے گا، تاہم یہ ماڈل آئینی طور پر رائج نہیں بلکہ عارضی حل ہے۔

خواجہ آصف سے سوال کیا گیا کہ کیا اس ماڈل کو اس لیے قبول کیا گیا ہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت کے درمیان ٹکراؤ سے بچا جا سکے؟ تو انہوں نے کہا ’جب تک ہم مسائل سے باہر نہیں نکل جاتے، یہ ماڈل رہے گا۔‘

ہائبرڈ ماڈل میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کی شراکت داری ہے
انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ اس ہائبرڈ ماڈل میں اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ طاقت حاصل ہے، اور وضاحت کی کہ یہ ایک ’مشترکہ‘ نظام ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کی شراکت داری ہے، ہم اقتدار کے ڈھانچے میں شریک ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ فوجی قیادت ’انتہائی خلوص‘ سے سیاسی قیادت کی بات سنتی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف کسی بیرونی دباؤ کے بغیر خود فیصلے کرتے ہیں، البتہ تمام سطحوں پر اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت کی جاتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان فیصلوں پر ہمیشہ مکمل اتفاق رائے پایا گیا ہے اور کوئی اختلاف موجود نہیں۔

خواجہ آصف نے جمعرات کو ایکس پر اپنے بیان میں عالمی، علاقائی اور معاشی سطح پر پاکستان کی حالیہ کامیابیوں کا سہرا بھی موجودہ ہائبرڈ ماڈل کے سر باندھا۔

انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ تناؤ اور پاکستان و امریکہ کے تعلقات میں بہتری کو اس ماڈل کا ثمر قرار دیا۔

آرمی چیف کی امریکی صدر سے ملاقات اہم
وزیردفاع نے آرمی چیف کی امریکی صدر سے ملاقات کو ایک ’اہم سنگِ میل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی 78 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی امریکی صدر نے پاکستانی فوجی سربراہ کو مدعو کیا اور ملاقات کی۔‘

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ معاشی بحالی اور بھارت کی شکست وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل (جنرل) عاصم منیر کی قیادت کی بدولت ممکن ہوئی۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • عمران خان اگر معافی مانگ لیں تب بھی اب انہیں کبھی اقتدار نہیں ملے گا ، خواجہ آصف
  • سیاسی بحرانوں کا حل مذاکرات ہیں‘مرکزی شوریٰ جماعت اسلامی
  • شہید بینظیر بھٹو کی سالگرہ؛ ملک بھر میں تیاریوں کا آغاز ہو گیا
  • پاکستان تصادم سے گریز چاہتا ہے، بھارت سے مذاکرات مجبوری نہیں، بلاول
  • پاکستان نہ تو تصادم چاہتا ہے اور نہ ہی بھارت سے بات کے لیے بے چین ہے، بلاول بھٹو
  • پاکستان نہ تو تصادم چاہتا ہے اور نہ ہی بھارت سے مکالمے کیلئے بے چین ہے؛ بلاول بھٹو
  • پاکستان تصادم چاہتا ہے اور نہ ہی بھارت سے مذاکرات کیلئے بے چین ہیں، بلاول بھٹو
  • لیبیا کے قریب تارکین وطن کی ایک اور کشتی کو حادثہ، کم از کم پانچ پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کا خدشہ
  • بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ ضروری کیوں؟