چینی کی قلت دور کرنے کیلئے 5 لاکھ ٹن درآمد کرنے کا حکومتی فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے حکومت نے بڑا قدم اٹھایا ہے۔ وزارت غذائی تحفظ نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کی جائے گی۔ یہ فیصلہ عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے تاکہ بازار میں چینی کی دستیابی یقینی بنائی جا سکے اور قیمتوں میں استحکام پیدا ہو۔
وزارت نے وضاحت کی کہ بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ملک میں چینی کی قلت ہے، جو بالکل غلط ہے۔ ان کے مطابق ملک میں چینی کے کافی ذخائر موجود ہیں، اور جب اضافی اسٹاک مارکیٹ میں آ جائے گا تو قیمتیں بھی نیچے آئیں گی۔ حکومت کی پالیسی کے مطابق اب زرعی اجناس کو ڈی ریگولیٹ کر دیا گیا ہے، یعنی اب ان کی قیمتوں، درآمد اور برآمد کا تعین مارکیٹ فورسز کرتی ہیں۔
وزارت کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں جب چینی کے ذخائر وافر تھے تو اس کی برآمد کی اجازت دی گئی تھی، مگر اس بار بھی برآمد پر کسی قسم کی سبسڈی نہیں دی گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مارکیٹ کو خود مختار طریقے سے چلانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
چینی کی قیمت میں حالیہ اضافہ رمضان سے پہلے شروع ہوا تھا، جب یہ 140 روپے فی کلو فروخت ہو رہی تھی، لیکن رمضان کے بعد اس کی قیمت 180 روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔ اس شدید اضافے کے باوجود شوگر ملز مالکان نے حکومت کی جانب سے قیمت کم کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔
اسی تناظر میں حکومت نے ذخیرہ اندوزوں اور سٹہ بازوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے تاکہ مصنوعی قلت اور ناجائز منافع خوری پر قابو پایا جا سکے۔ عوام کی بنیادی ضرورت کی یہ شے حکومت کے لیے بھی ایک امتحان بن چکی ہے، اور آنے والے دنوں میں درآمدی چینی کے باعث مارکیٹ میں کچھ بہتری کی امید کی جا رہی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: چینی کی
پڑھیں:
چین: تمام تر حکومتی سہولیات کے باوجود چینی مزید بچے پیدا کرنے کو تیار نہیں، کیوں؟
چین کی معیشت اس وقت مختلف پیچیدہ چیلنجز سے دوچار ہے، جن میں سب سے سنگین آبادی میں کمی کا بحران ہے۔ 2025 میں تیسری مرتبہ مسلسل آبادی میں کمی ریکارڈ کی گئی، جس نے حکومت کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ صدر شی جن پنگ نے آبادی کے اس گرتے رجحان کو ’قومی سلامتی کا مسئلہ‘ قرار دیا ہے۔
تازہ اعداد و شمار تشویشناکجنوری 2025 میں جاری کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ سال کے دوران چین کی آبادی میں 13 لاکھ 90 ہزار افراد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ چین میں شادیوں کی شرح بھی تاریخی حد تک کم ہو چکی ہے، اور ریٹائرمنٹ کی عمر بتدریج بڑھائی جا رہی ہے تاکہ کام کرنے والی آبادی کو برقرار رکھا جا سکے۔
پالیسیوں کا بوجھ، عوام کی بے بسیچین کی سابق ایک بچے کی پالیسی (1979–2015) کا خمیازہ آج کی نسل کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ پالیسی اگرچہ اس وقت ضروری سمجھی گئی، مگر اس کے اثرات اب سامنے آ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے چین کی آبادی میں 6 دہائیوں بعد پہلی بار کمی
2016 میں 2 بچوں کی اجازت دی گئی، اور 2021 میں 3 بچوں کی پالیسی کا اعلان ہوا، مگر نتائج مایوس کن رہے۔
کیوں نہیں بڑھ رہے بچے؟چینی عوام بچوں کی پیدائش سے گریزاں نظر آ رہے ہیں، جس کی چند بڑی وجوہات یہ ہیں:
تعلیم اور صحت کے اخراجات میں اضافہ۔
رہن سہن کے شعبے میں مہنگائی، خاص طور پر شہری علاقوں میں۔
کیریئر پر دباؤ اور کام کے طویل اوقات۔
رہائش کا بحران اور جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ۔
بچوں کی دیکھ بھال کے ناکافی انتظامات۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق، 60 فیصد نوجوان خواتین کا کہنا ہے کہ بچوں کا خرچ برداشت سے باہر ہے جب کہ 45 فیصد مردوں نے کیریئر کی غیر یقینی صورتحالکو بنیادی وجہ قرار دیا۔
حکومتی اقداماتچینی حکومت نے آبادی بڑھانے کے لیے کئی مراعاتی پالیسیاں متعارف کرائی ہیں، جیسے:
ٹیکس میں چھوٹ،
سرکاری ملازمین کے لیے زچگی/پدری چھٹی میں اضافہ،
نرسریوں اور ڈے کیئر مراکز کی تعمیر،
بچوں کی تعلیم پر سبسڈی،
شادی اور پیدائش کے لیے مالی مراعات۔
تاہم، ماہرین کہتے ہیں کہ جب تک معاشی دباؤ اور سماجی ساخت میں بڑی تبدیلیاں نہیں آتیں، اس قسم کی اسکیمیں زیادہ دیر تک مؤثر ثابت نہیں ہوں گی۔
یہ بھی پڑھیں چین: بچہ پیدا کریں اور حکومت سے 1،500 ڈالر لے لیں، بیک ڈیٹ کی بھی سہولت
اقتصادی خدشاتچین کی آبادی کا بڑھاپے کی طرف تیزی سے بڑھنا، اس کے مستقبل کی اقتصادی ترقی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق، اگر چین میں ورک فورس کی کمی کا یہی رجحان رہا، تو 2035 تک سالانہ اقتصادی ترقی کی شرح 3 فیصد سے بھی نیچے آ سکتی ہے۔
معروف چینی ماہر اقتصادیات یانگ فنگ کہتے ہیں:
’چین کے پاس وقت کم ہے، اگر حکومت نے اب بھی مؤثر خاندانی معاونت فراہم نہ کی، تو آبادی کا یہ مسئلہ ایک مستقل بحران بن جائے گا۔‘
کیا چین بوڑھا ہونے سے پہلے امیر ہو پائے گا؟یہ وہ سوال ہے جو آج ہر پالیسی ساز اور ماہر معاشیات کے ذہن میں ہے۔ اگر آبادی کی شرح پیدائش کو نہ روکا گیا، تو ممکن ہے چین اپنی صنعتی ترقی اور عالمی برتری کو برقرار نہ رکھ سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
چین کی آبادی میں کمی