ایران اسرائیل جنگ اور پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اگر ایران اسرائیل جنگ بڑھتی ہے تو اس وقت پاکستان کہاں کھڑا ہوگا یہ آج کل کا اہم سوال ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا اسرائیل اس جنگ سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ امریکا کیا چاہتا ہے؟ امریکا چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اسرئیل کو غالب حیثیت حاصل ہو جائے۔ دیکھا جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ عرب ممالک کے وہ حکمران جو اپنے ملک میں سیاسی طور پر مضبوط ہوں اور اسرائیل سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہیں وہاں کی قیادت تبدیل کی جائے اور اس ملک کی سیاسی و معاشی پوزیشن اتنی کمزور کردی جائے کہ وہ امریکی سامراج کے اطاعت گزار بن کر رہیں اور اسرائیل کو کسی قسم کے چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ عراق ایک مضبوط ملک تھا معاشی حالات بھی اچھے تھے صدام حسین آمر تھے لیکن امریکی شفقت کے سائے میں تھے۔ پہلے ایران سے آٹھ سالہ جنگ میں اس کی عسکری قوت کمزور ی گئی۔ پھر ایک دن اسرائیل نے اس کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کردیا عراق کی سعودی عرب سے دوستی مثالی نہ تھی بلکہ اکثر تنائو کی کیفیت رہتی تھی۔ صدام حسین نے امریکی سفیر کی شے پر کویت میں اپنی فوج داخل کردی سعودی عرب کی سلامتی کے نام پر امریکا نے اپنی فوج عرب سرزمین پر اُتار دی جو اس کی اور اسرائیل کی دیرینہ خواہش تھی پھر عراقی افواج سے کویت کو آزاد کرایا گیا اس اٹھا پٹخ میں صدام حسین کی سیاسی پوزیشن بہت کمزور ہوگئی۔ پھر امریکا کی طرف سے جھوٹا الزام لگایا گیا کہ عراق کے پاس اب بھی ایٹمی مواد ہے۔ اقوام متحدہ کی ٹیم نے عراق کا چپہ چپہ چھان مارا کچھ نہ ملا پھر صدام کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا صدام حسین روپوش ہوگئے کچھ عرصے بعد وہ گرفتار ہوئے پھر ایک دن امریکا نے اپنے چہیتے صدام حسین عید الاضحیٰ کی صبح پھانسی دے دی۔
اسی طرح کا حشر لیبیا کے کرنل قذافی کا ہوا جنہوں نے امریکی خوشنودی کی خاطر اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کردیا پھر ان کے خلاف اپوزیشن کو فعال کیا گیا اور ایک دن انہیں برسر عام قتل کردیا گیا، اس طرح دوسری وکٹ بھی گرگئی اب شام لبنان اور یمن رہ گئے کچھ عرصے کے لیے مصر اسرائیل کے لیے خطرناک ہوگیا تھا جب مصر میں اخوان المسلمین کے مرسی کی حکومت تھی پھر ایک دن مرسی کے وزیر دفاع جنرل سیسی نے مرسی کا تختہ الٹ دیا تحریک چلی ہزاروں اخوانی نوجوان ٹینکوں کے تلے کچل دیے گئے بہرحال مصر کا کانٹا بھی نکل گیا۔ لبنان میں تو ویسے ہی رجیم تبدیل ہوگئی۔ اب ایک ملک شام رہ گیا تھا 2024 میں شامی حکمرانوں کے خلاف بچی کھچی جہادی تنظیموں نے تحریک چلائی اور ایک لکھے ہوئے اسکرپٹ کے مطابق شامی حکمران روس فرار ہوگئے۔ یمن کی سرحد تو اسرائیل سے نہیں ملتی وہ امریکی بحری جہازوں پر میزائل مارتے رہتے ہیں۔ آج کل بھی وہ ایران کی حمایت میں امریکی بحری جہازوں پر میزائل برساتے رہتے ہیں۔ اب اس کا فائدہ اسرائیل کو یہ پہنچ رہا ہے کہ ایرن سے جو میزائل اسرائیل کو مارے جارہے ہیں پہلے مرحلے میں یہ میزائل راستے میں دو تین اسلامی ممالک آتے ہیں وہ اس کو بے اثر کرنے کی کوشش ہوتی ہے وہاں بچ گئے تو اسرائیل پہنچ کر تہہ در تہہ حفاظتی بند کو توڑتے ہوئے آئرن ڈوم کو چکمہ دیتے پھر کوئی عمارت تباہ ہوتی ہے۔
اسرائیل کے ایران پر حملے کے تین مقاصد بتائے جارہے ہیں پہلا ایران کے نیوکلیئر اثاثوں کو تباہ کرنا، دوسرا ایران کی رجیم تبدیل کرنا اور تیسرا ایران کو مذاکرات کی میز پر لے کر آنا اب درج بالا طویل تمہید تناظر میں آپ خود انداز لگا سکتے ہیں اسرائیل اور امریکا کی ترجیح اوّل ایرانی رجیم کی تبدیلی ہے یہ خبریں بھی سنی ہوں گی کہ اس درمیان میں سابق شہنشاہ ایران کے صاحبزادے نے دوران جنگ نیتن یاہو سے دو ملاقاتیں کی ہیں۔ ایران کا اپنا اندرون ملک جو انٹیلی جنس نظام ہے وہ نہایت کمزور ہے یہ جنگ سے کئی ماہ پہلے اسرائیل کے اندر موساد کے ایجنٹوں نے مہینوں کی کوششوں اور کاشوں سے ڈرونز کا اسٹوریج ایران میں بنارکھا تھا پھر کئی موساد کے ایجنٹس پکڑے گئے۔ اس کمزور نظام کے باعث کئی اہم جنگی شخصیات، سائنسدان اور حکومت کے اہم عہدیدار کی موساد کے ایجنٹوں نے ٹارگٹ کلنگ کردی جس کی وجہ سے ایران کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس وقت ایران کو اندر غداروں سے اور باہر اسرائیل سے جنگ کرنا پڑ رہی ہے۔ اسی لیے اسرائیل کی طرف سے یہ دھمکی بھی آرہی ہے کہ وہ آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کردے گا۔ اسرائیل نے ایرانی عوام سے اپنی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی، ان موساد کے ایجنٹوں میں وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو سابق شہنشاہ ایران کے وفادار ہوں اور کچھ حکومت مخالف بھی ہو سکتے ہیں ان کمزوریوں کے باوجود ایران نے اسرائیل پر جو بھر پور بیلسٹک میزائل سے تابڑ توڑ حملے کیے ہیں اس نے پورے اسرائیل میں خوف کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔ نیتن یاہو سمیت پوری قوم کئی دنوں سے بنکروں میں رہ رہی ہے ایسے میں اسرائیل چاہتا ہے کہ امریکا اس جنگ میں اعلانیہ کود پڑے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جو بیانات آئے ہیں ان سے اس کی نیت کا ٹھیک سے اندازہ لگانا مشکل ہے کبھی تو وہ کہتے ہیں اسرائیلی حملے سے امریکا کا کوئی تعلق نہیں ہے کبھی وہ کہتے ہیں کہ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کروایا ایران اور اسرائیل کے درمیان بھی سیز فائر کرا سکتے ہیں۔ G-7 ممالک کی منافقت اور جی حضوری دیکھیے کہ انہوں نے ظالم اور ننگی جارحیت کا ارتکاب کرنے والے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ایران اسرائیل کی اس جنگ میں پاکستان بہت ٹھیک پوزیشن پر کھڑا ہے۔ جب اسرائیل نے حملہ کیا تو پاکستان کے دونوں ایوانوں میں ایران کے حق میں اور اسرائیل کی مذمت میں قراردادیں منظور کی گئیں۔ پاکستان نے کھل کے ایران کی حمایت کا اعلان کیا یہی وجہ ہے کہ ایرانی اسمبلی کے اجلاس میں تشکر تشکر۔ پاکستان پاکستان کے نعرے لگائے گئے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن کچھ فیک نیوز اور کچھ سوشل میڈیا کے ایکٹوسٹ جوش و جذبات میں جو خبریں دے رہے ہیں اس نازک موقع پر بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ میں کسی کا ویلاگ میں سن رہا تھا کہ برطانیہ کا ایک اخبار ڈیلی میل ہے جس میں خبر شائع ہوئی ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران پر ایٹم بم استعمال کیا تو جواب میں پاکستان اسرائیل پر ایٹمی حملہ کرسکتا ہے۔ ایسے حساس اور نازک موقع پر خبریں سوچ سمجھ کر دینی چاہئیں۔
ڈونل ٹرمپ G-7 کا اجلاس چھوڑ کر چلے گئے اور انہوں نے ایران کو دھمکی دی ہے کہ مذاکرات کے پردے میں ہم نے جو ڈکٹیشن دی ہے اس پر ایران دستخط کردے ورنہ پھر جو کچھ ہوگا ایران اس کا سوچ بھی نہیں سکتا جواب میں ایران نے جرأت مندانہ موقف اختیار کیا ہے کہ پہلے بمباری بند کی جائے پھر ہم مذاکرات میں شریک ہوں گے۔ بمباری کے سائے میں کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ دراصل اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ امریکا اس جنگ میں شامل ہوجائے اگر امریکا اس جنگ میں برا ہ راست شریک ہوگیا تو پھر روس اور چین بھی ایران کی حمایت میں سامنے آجائیں گے اور اس طرح تیسری عالمی جنگ کے خدشات بڑھ جائیں گے۔ اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ ایران کے جو زیر زمین ایٹمی پلانٹ ہے اسے صرف امریکا تباہ کرسکتا ہے اس لیے کہ امریکا کے پاس ہی ایسا جہاز اور بم موجود ہے جس سے یہ کام ہوسکتا ہے لیکن اس کے ما بعد اثرات کیا ہوں گے کسی نے کچھ سوچا کہ اگر تابکاری اثرات پھیل گئے تو کتنی تباہی ہوگی اب یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے عقل و شعور کا امتحان ہے۔
اب اس سوال پر بات کریں کہ جنگ بڑھتی ہے تو پاکستان کہاں کھڑا ہوگا اس کو جواب وزیر دفاع خواجہ آصف نے بہت اچھا بیان دیا ہے کہ اگر اسرائیل کامیاب ہوگیا تو اس کا اگلا نشانہ پاکستان ہوگا بالکل اسی طرح کہ جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو پوری دنیا یہ کہہ رہی تھی روس افغانستان میں کامیاب ہوگیا تو اگلا نشانہ پاکستان ہوگا پھر اس کے بعد پاکستان نے جو کچھ کیا وہ ہماری تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ روس افغانستان سے پاکستان کی طرف آنے کے بجائے واپس چلا گیا بس اسی تاریخ کو دہرانے کی ضرورت ہے فرق صرف یہ ہوگا کہ پہلے والی تاریخ میں امریکا کی حمایت حاصل تھی اس والی میں چین کی ہوگی۔ باقی اللہ تعالیٰ تو ہمارا محافظ ہے ہی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور اسرائیل چاہتا ہے کہ اسرائیل کی اسرائیل کے اسرائیل نے کہ امریکا امریکا کی ایران کی موساد کے سکتے ہیں کی حمایت ایران کو ایران اس ایران کے ہیں اس اور اس ایک دن
پڑھیں:
امریکا، اسلامی جمہوریہ ایران اور اسرائیل کی جنگ کا حصہ نہ بنے، روس کا انتباہ
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے امریکہ کو متنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران میں امریکی فوجی کارروائی امریکہ کا انتہائی خطرناک قدم ہو گا جس کے بہت غیر متوقع اور منفی نتائج سامنے آئیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ روس نے امریکہ کو ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی ایران کے خلاف شروع کی گئی جنگ میں شامل نہ ہو، یہ انتباہ اس وقت کیا گیا ہے جب امریکہ کے اس جنگ میں کودنے کے بارے میں مختلف خبریں اور موقف پیش کیے جارہے ہیں۔ روس ایران کے اہم ترین اتحادیوں میں سے ایک ہے، دونوں ملکوں کے درمیان گہرا تزویراتی اور فوجی تعاون و شراکت داری موجود ہے، ایران پر اسرائیلی حملوں کے باوجود روس نے اس تناظر میں ایران کو بظاہر کوئی مدد نہیں دی ہے، ولادی میر پیوٹن خود کو ایک ایسے ثالث کے طور پیش کر رہے ہیں جو خود جنگ کا حصہ بنا ہو۔ اب روس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہم امریکہ کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس جنگی ماحول میں نہ شامل ہو۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زاہروف نے امریکہ کو متنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران میں امریکی فوجی کارروائی امریکہ کا انتہائی خطرناک قدم ہو گا جس کے بہت غیر متوقع اور منفی نتائج سامنے آئیں گے۔ اس سے قبل ٹرمپ اسرائیل ایران جنگ کے حوالے سے روسی ثالثی کی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر چکے ہیں، ٹرمپ کا یہ ثالثی مسترد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ روس پہلے اپنا یوکرین کے ساتھ جھگڑا ختم کرے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ ٹرمپ کے روسی ثالثی کی تجویز مسترد کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ہے، یہ پیش کش تو ان ملکوں کو کی گئی تھی جو اس جنگ کے براہ راست فریق ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال سے متعلق میڈیا رپورٹس صرف قیاس آرائیاں ہیں، لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ ایک تباہ کن پیش رفت ہوگی۔
یاد رہے کہ روس کی طرف سے یہ انتباہ پیوٹن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے فون پر اس معاملے میں ہونے والے تبادلہ خیال کے دوران کیا ہے اور دونوں راہنماؤں نے اسرائیل کی ایران کے خلاف جارحیت کی مذمت کی ہے۔صدر پیوٹن کے معاون یوری اوشاکوف نے صحافیوں کو دونوں راہنماؤں کی فون پر ہونے والی گفتگو کے بعد بریف کیا تھا کہ ماسکو اور بیجنگ کا خیال ہے کہ دشمنی کا خاتمہ سیاسی اور سفارتی طریقوں سے کیا جانا چاہئے۔
صدر پیوٹن کا رات گئے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ ایران کے روس کے ساتھ فوجی معاہدات ہونے کے باوجود ایران نے اسرائیلی حملے کے بعد بھی روس سے کوئی فوجی مدد نہیں مانگی ہے، ہمارے ایرانی دوست نے اس بارے میں ہم سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ اس سوال پر کہ اگر ایرانی سپریم لیڈر کو قتل کیا جاتا ہے تو روس کا کیا رد عمل ہو گا، پیوٹن نے کہا کہ میں اس امکان کے بارے بات بھی نہیں کرنا چاہتا، اگر ایران نے انسانی بنیادوں پر روس سے کوئی مدد مانگی تو میں ضرور بھیجوں گا۔