ایران اسرائیل جنگ اور پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اگر ایران اسرائیل جنگ بڑھتی ہے تو اس وقت پاکستان کہاں کھڑا ہوگا یہ آج کل کا اہم سوال ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا اسرائیل اس جنگ سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ امریکا کیا چاہتا ہے؟ امریکا چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اسرئیل کو غالب حیثیت حاصل ہو جائے۔ دیکھا جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ عرب ممالک کے وہ حکمران جو اپنے ملک میں سیاسی طور پر مضبوط ہوں اور اسرائیل سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہیں وہاں کی قیادت تبدیل کی جائے اور اس ملک کی سیاسی و معاشی پوزیشن اتنی کمزور کردی جائے کہ وہ امریکی سامراج کے اطاعت گزار بن کر رہیں اور اسرائیل کو کسی قسم کے چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ عراق ایک مضبوط ملک تھا معاشی حالات بھی اچھے تھے صدام حسین آمر تھے لیکن امریکی شفقت کے سائے میں تھے۔ پہلے ایران سے آٹھ سالہ جنگ میں اس کی عسکری قوت کمزور ی گئی۔ پھر ایک دن اسرائیل نے اس کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کردیا عراق کی سعودی عرب سے دوستی مثالی نہ تھی بلکہ اکثر تنائو کی کیفیت رہتی تھی۔ صدام حسین نے امریکی سفیر کی شے پر کویت میں اپنی فوج داخل کردی سعودی عرب کی سلامتی کے نام پر امریکا نے اپنی فوج عرب سرزمین پر اُتار دی جو اس کی اور اسرائیل کی دیرینہ خواہش تھی پھر عراقی افواج سے کویت کو آزاد کرایا گیا اس اٹھا پٹخ میں صدام حسین کی سیاسی پوزیشن بہت کمزور ہوگئی۔ پھر امریکا کی طرف سے جھوٹا الزام لگایا گیا کہ عراق کے پاس اب بھی ایٹمی مواد ہے۔ اقوام متحدہ کی ٹیم نے عراق کا چپہ چپہ چھان مارا کچھ نہ ملا پھر صدام کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا صدام حسین روپوش ہوگئے کچھ عرصے بعد وہ گرفتار ہوئے پھر ایک دن امریکا نے اپنے چہیتے صدام حسین عید الاضحیٰ کی صبح پھانسی دے دی۔
اسی طرح کا حشر لیبیا کے کرنل قذافی کا ہوا جنہوں نے امریکی خوشنودی کی خاطر اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کردیا پھر ان کے خلاف اپوزیشن کو فعال کیا گیا اور ایک دن انہیں برسر عام قتل کردیا گیا، اس طرح دوسری وکٹ بھی گرگئی اب شام لبنان اور یمن رہ گئے کچھ عرصے کے لیے مصر اسرائیل کے لیے خطرناک ہوگیا تھا جب مصر میں اخوان المسلمین کے مرسی کی حکومت تھی پھر ایک دن مرسی کے وزیر دفاع جنرل سیسی نے مرسی کا تختہ الٹ دیا تحریک چلی ہزاروں اخوانی نوجوان ٹینکوں کے تلے کچل دیے گئے بہرحال مصر کا کانٹا بھی نکل گیا۔ لبنان میں تو ویسے ہی رجیم تبدیل ہوگئی۔ اب ایک ملک شام رہ گیا تھا 2024 میں شامی حکمرانوں کے خلاف بچی کھچی جہادی تنظیموں نے تحریک چلائی اور ایک لکھے ہوئے اسکرپٹ کے مطابق شامی حکمران روس فرار ہوگئے۔ یمن کی سرحد تو اسرائیل سے نہیں ملتی وہ امریکی بحری جہازوں پر میزائل مارتے رہتے ہیں۔ آج کل بھی وہ ایران کی حمایت میں امریکی بحری جہازوں پر میزائل برساتے رہتے ہیں۔ اب اس کا فائدہ اسرائیل کو یہ پہنچ رہا ہے کہ ایرن سے جو میزائل اسرائیل کو مارے جارہے ہیں پہلے مرحلے میں یہ میزائل راستے میں دو تین اسلامی ممالک آتے ہیں وہ اس کو بے اثر کرنے کی کوشش ہوتی ہے وہاں بچ گئے تو اسرائیل پہنچ کر تہہ در تہہ حفاظتی بند کو توڑتے ہوئے آئرن ڈوم کو چکمہ دیتے پھر کوئی عمارت تباہ ہوتی ہے۔
اسرائیل کے ایران پر حملے کے تین مقاصد بتائے جارہے ہیں پہلا ایران کے نیوکلیئر اثاثوں کو تباہ کرنا، دوسرا ایران کی رجیم تبدیل کرنا اور تیسرا ایران کو مذاکرات کی میز پر لے کر آنا اب درج بالا طویل تمہید تناظر میں آپ خود انداز لگا سکتے ہیں اسرائیل اور امریکا کی ترجیح اوّل ایرانی رجیم کی تبدیلی ہے یہ خبریں بھی سنی ہوں گی کہ اس درمیان میں سابق شہنشاہ ایران کے صاحبزادے نے دوران جنگ نیتن یاہو سے دو ملاقاتیں کی ہیں۔ ایران کا اپنا اندرون ملک جو انٹیلی جنس نظام ہے وہ نہایت کمزور ہے یہ جنگ سے کئی ماہ پہلے اسرائیل کے اندر موساد کے ایجنٹوں نے مہینوں کی کوششوں اور کاشوں سے ڈرونز کا اسٹوریج ایران میں بنارکھا تھا پھر کئی موساد کے ایجنٹس پکڑے گئے۔ اس کمزور نظام کے باعث کئی اہم جنگی شخصیات، سائنسدان اور حکومت کے اہم عہدیدار کی موساد کے ایجنٹوں نے ٹارگٹ کلنگ کردی جس کی وجہ سے ایران کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس وقت ایران کو اندر غداروں سے اور باہر اسرائیل سے جنگ کرنا پڑ رہی ہے۔ اسی لیے اسرائیل کی طرف سے یہ دھمکی بھی آرہی ہے کہ وہ آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کردے گا۔ اسرائیل نے ایرانی عوام سے اپنی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی، ان موساد کے ایجنٹوں میں وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو سابق شہنشاہ ایران کے وفادار ہوں اور کچھ حکومت مخالف بھی ہو سکتے ہیں ان کمزوریوں کے باوجود ایران نے اسرائیل پر جو بھر پور بیلسٹک میزائل سے تابڑ توڑ حملے کیے ہیں اس نے پورے اسرائیل میں خوف کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔ نیتن یاہو سمیت پوری قوم کئی دنوں سے بنکروں میں رہ رہی ہے ایسے میں اسرائیل چاہتا ہے کہ امریکا اس جنگ میں اعلانیہ کود پڑے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جو بیانات آئے ہیں ان سے اس کی نیت کا ٹھیک سے اندازہ لگانا مشکل ہے کبھی تو وہ کہتے ہیں اسرائیلی حملے سے امریکا کا کوئی تعلق نہیں ہے کبھی وہ کہتے ہیں کہ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کروایا ایران اور اسرائیل کے درمیان بھی سیز فائر کرا سکتے ہیں۔ G-7 ممالک کی منافقت اور جی حضوری دیکھیے کہ انہوں نے ظالم اور ننگی جارحیت کا ارتکاب کرنے والے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ایران اسرائیل کی اس جنگ میں پاکستان بہت ٹھیک پوزیشن پر کھڑا ہے۔ جب اسرائیل نے حملہ کیا تو پاکستان کے دونوں ایوانوں میں ایران کے حق میں اور اسرائیل کی مذمت میں قراردادیں منظور کی گئیں۔ پاکستان نے کھل کے ایران کی حمایت کا اعلان کیا یہی وجہ ہے کہ ایرانی اسمبلی کے اجلاس میں تشکر تشکر۔ پاکستان پاکستان کے نعرے لگائے گئے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن کچھ فیک نیوز اور کچھ سوشل میڈیا کے ایکٹوسٹ جوش و جذبات میں جو خبریں دے رہے ہیں اس نازک موقع پر بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ میں کسی کا ویلاگ میں سن رہا تھا کہ برطانیہ کا ایک اخبار ڈیلی میل ہے جس میں خبر شائع ہوئی ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران پر ایٹم بم استعمال کیا تو جواب میں پاکستان اسرائیل پر ایٹمی حملہ کرسکتا ہے۔ ایسے حساس اور نازک موقع پر خبریں سوچ سمجھ کر دینی چاہئیں۔
ڈونل ٹرمپ G-7 کا اجلاس چھوڑ کر چلے گئے اور انہوں نے ایران کو دھمکی دی ہے کہ مذاکرات کے پردے میں ہم نے جو ڈکٹیشن دی ہے اس پر ایران دستخط کردے ورنہ پھر جو کچھ ہوگا ایران اس کا سوچ بھی نہیں سکتا جواب میں ایران نے جرأت مندانہ موقف اختیار کیا ہے کہ پہلے بمباری بند کی جائے پھر ہم مذاکرات میں شریک ہوں گے۔ بمباری کے سائے میں کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ دراصل اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ امریکا اس جنگ میں شامل ہوجائے اگر امریکا اس جنگ میں برا ہ راست شریک ہوگیا تو پھر روس اور چین بھی ایران کی حمایت میں سامنے آجائیں گے اور اس طرح تیسری عالمی جنگ کے خدشات بڑھ جائیں گے۔ اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ ایران کے جو زیر زمین ایٹمی پلانٹ ہے اسے صرف امریکا تباہ کرسکتا ہے اس لیے کہ امریکا کے پاس ہی ایسا جہاز اور بم موجود ہے جس سے یہ کام ہوسکتا ہے لیکن اس کے ما بعد اثرات کیا ہوں گے کسی نے کچھ سوچا کہ اگر تابکاری اثرات پھیل گئے تو کتنی تباہی ہوگی اب یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے عقل و شعور کا امتحان ہے۔
اب اس سوال پر بات کریں کہ جنگ بڑھتی ہے تو پاکستان کہاں کھڑا ہوگا اس کو جواب وزیر دفاع خواجہ آصف نے بہت اچھا بیان دیا ہے کہ اگر اسرائیل کامیاب ہوگیا تو اس کا اگلا نشانہ پاکستان ہوگا بالکل اسی طرح کہ جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو پوری دنیا یہ کہہ رہی تھی روس افغانستان میں کامیاب ہوگیا تو اگلا نشانہ پاکستان ہوگا پھر اس کے بعد پاکستان نے جو کچھ کیا وہ ہماری تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ روس افغانستان سے پاکستان کی طرف آنے کے بجائے واپس چلا گیا بس اسی تاریخ کو دہرانے کی ضرورت ہے فرق صرف یہ ہوگا کہ پہلے والی تاریخ میں امریکا کی حمایت حاصل تھی اس والی میں چین کی ہوگی۔ باقی اللہ تعالیٰ تو ہمارا محافظ ہے ہی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور اسرائیل چاہتا ہے کہ اسرائیل کی اسرائیل کے اسرائیل نے کہ امریکا امریکا کی ایران کی موساد کے سکتے ہیں کی حمایت ایران کو ایران اس ایران کے ہیں اس اور اس ایک دن
پڑھیں:
غزہ، عالمی ضمیرکا کڑا امتحان
غزہ میں انسانی المیے کے خدشات بڑھ گئے ہیں، یونیسیف نے خبردارکیا ہے کہ غزہ ’’ پیاس سے موت‘‘ کے قریب ہے۔ غزہ پر صہیونی جارحیت جاری ہے جس کے نتیجے میں مزید 61 فلسطینی شہید کردیے گئے، اسکول پر حملے میں متعدد بچے نشانہ بنے، بے گھر افراد غزہ سٹی سے پیدل نکلنے پر مجبور ہیں جب کہ دوسری جانب امریکا نے اسرائیل کو6 ارب ڈالر کا اسلحے دینے کی تیاری کرلی ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر 10 ملک فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کریں گے۔
غزہ اس وقت انسانی تاریخ کے بدترین سانحات میں سے ایک سے گزر رہا ہے۔ اسرائیلی جارحیت نے ظلم و بربریت کی نئی داستان رقم کی ہے۔ اسکول، اسپتال، پناہ گاہیں حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام مقامات بھی حملوں کی زد میں آ چکے ہیں۔ اسکول پر حملے میں ایسے طلبہ نشانہ بنے جو پہلے ہی جنگ زدہ ماحول میں تعلیم کے خواب بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔
اب وہ خواب ہمیشہ کے لیے مٹی ہوگئے۔ صورتحال کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ ہزاروں بے گھر افراد غزہ سٹی سے پیدل نکلنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایک طرف جانیں لی جا رہی ہیں، دوسری جانب بیانیہ اور منظرنامہ تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ عالمی میڈیا کا کردار جانبدار نظر آ رہا ہے اور اسرائیلی ریاست کی دہشت گردی کو ’’دفاع‘‘ کے پردے میں چھپایا جا رہا ہے۔
اس وقت دنیا ایک ایسی نازک صورتحال سے دوچار ہے جس میں اخلاقی اصول، بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور عالمی ضمیر سب کچھ سیاست، طاقت اور مفادات کی بھینٹ چڑھتے نظر آرہے ہیں۔ خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی صورتحال، فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع اور اس میں امریکا کا کردار عالمی ضمیر کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکا ہے۔
یہ حقیقت اب کسی پردے میں نہیں رہی کہ اسرائیل کو عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکا کی کھلی اور مسلسل حمایت حاصل ہے، چاہے وہ فوجی امداد کی صورت میں ہو، مالی مدد کی شکل میں یا اقوام متحدہ میں سفارتی تحفظ کی صورت میں۔ادھر امریکا کی جانب سے اسرائیل کو چھ ارب ڈالر کے اسلحے کی فراہمی کی تیاری ہو رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کانگریس سے منظوری حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے، جس کا واضح مطلب ہے کہ اسرائیلی جنگی مشینری کو مزید طاقت ملنے والی ہے۔
یہ امداد کوئی روایتی مالی مدد نہیں بلکہ غزہ میں انسانی المیے کو بڑھانے کا ایک راستہ ہے، جب عالمی ضمیر گونگا ہو جائے، تو اسلحہ ہی زبان بن جاتا ہے اور خون ہی پیغام۔ اس صورتحال پر تائیوان میں ایک مختلف اور قابل تقلید ردعمل دیکھنے میں آیا جہاں دفاعی ٹیکنالوجی کی نمائش کے موقع پر سیکڑوں مظاہرین نے احتجاج کیا اور درجنوں اسلحہ کمپنیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیل کی جنگ سے مالی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
یہ مظاہرہ اس بات کی علامت ہے کہ دنیا کے مختلف گوشوں میں شعور بیدار ہو رہا ہے اور سرمایہ دارانہ مفادات کے خلاف عوامی آواز بلند ہونے لگی ہے۔ ایسے میں پرتگال کی جانب سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا ایک مثبت پیش رفت ہے۔
اس دوران نیتن یاہو نے کھل کر ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کے استعماری منصوبے کو اپنا ہدف قرار دیا ہے۔ یہ ایک مذہبی صہیونی منصوبہ ہے جو سرزمین فلسطین سے باہر کے خطوں کو بھی اپنے اندر شامل کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف سیاسی نہیں بلکہ مذہبی اور توسیع پسندانہ جنگ کا اعلان ہے جو خطے کو لامحدود جنگ کی آگ میں جھونک سکتا ہے۔ نیتن یاہو کی یہ سوچ دراصل اس بات کا اقرار ہے کہ قابض اسرائیل کی سیاسی کہانیاں ناکام ہو چکی ہیں اور اب وہ مذہب کو ہتھیار بنا کر اپنے وجود کو دوام دینا چاہتے ہیں۔
آج اسرائیل بہ ظاہر فوجی طاقت سے غزہ کو روند رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ اس کے وجود کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ اندرون ملک فوج اور معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، بیرون ملک عالمی سطح پر تنہائی بڑھ رہی ہے اور نظریاتی سطح پر وہ گریٹر اسرائیل کے خونی خواب میں ڈوب رہا ہے۔ یہ محض ایک جنگ نہیں بلکہ ایک فیصلہ کن موڑ ہے جو قابض اسرائیل کے چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر رہا ہے۔
ایک ایسا کینسر جو طاقت رکھتا ہے مگر اخلاقی جواز سے محروم ہے، تباہی مچاتا ہے مگر سیاسی طور پر شکست کھاتا ہے اور اپنے وجود کو بچانے کے نام پر اپنی فنا کی بنیاد رکھ رہا ہے۔غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو اب دو سال مکمل ہونے والے ہیں۔ اس عرصے میں اب تک کم ازکم 65 ہزار فلسطینیوں کی جانیں گئی ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں۔ شہید ہونے والوں میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ دو سال کے عرصے میں ایسا کون سا ظلم ہے جو غزہ پر نہ ڈھایا ہو، یہاں تک کہ مظلوم فلسطینیوں کے لیے دنیا بھر سے بھیجی گئی ریلیف بھی نہیں پہنچنے دی جس کے نتیجے میں غزہ میں ایک اور دردناک سلسلہ شروع ہوا۔ 100سے زیادہ صحافیوں کو ٹارگٹ کرکے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
پوری دنیا اس آخری درجہ کے ظلم و بربریت اور درندگی کے خلاف آواز اٹھاتی رہی مگر اسرائیل نے کسی کی نہیں سنی۔ بدترین فضائی حملوں کے بعد اب اسرائیل نے وہاں اپنی فوج اتار دی ہے۔ غزہ کی بیس لاکھ آبادی کسمپرسی کے آخری دور میں ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’غزہ کے شہری میری بات غور سے سنیں، میں آپ کو موقع دے رہا ہوں فوراً علاقہ خالی کردیں۔‘‘ دنیا کے کسی ملک کے باشندوں کے ساتھ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہوکہ انھیں پہلے بدترین نسل کشی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ان کو یہ دھمکی ملی کہ وہ علاقہ پوری طرح خالی کردیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگل کا راج قائم کردیا ہے۔ فضا سے پمفلٹ برسا کر غزہ کے ان باشندوں کو جو وہاں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور جوان ہوئے یہ دھمکیاں مل رہی ہیں، مگر غزہ کے باشندے جس مٹی کے بنے ہوئے ہیں، اس میں فرار کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ غزہ کے لوگ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ڈٹے رہیں گے اور شکست اسرائیل کا مقدر ہوگی۔
اقوام متحدہ نے ایک بار پھر فلسطین کے دو ریاستی حل کی قرارداد منظور کی ہے، دوسری جانب امریکا جو خود کو انسانی حقوق، جمہوریت اور انصاف کا علمبردار کہتا ہے، وہ اسرائیل کی کھلی جارحیت پر سوال اٹھانے کے بجائے اسے مزید طاقتور بنانے میں مصروف ہے۔ امریکی کانگریس میں بار بار اربوں ڈالر کی فوجی امداد کے بل پاس کیے جاتے ہیں، وہ بھی ایسے وقت میں جب غزہ میں بچے بھوک، پیاس، بمباری اور دواؤں کی کمی کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں۔ امریکا نہ صرف اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتا ہے بلکہ اس کی کارروائیوں کو بین الاقوامی سطح پر تحفظ بھی دیتا ہے۔ اقوام متحدہ میں جب بھی فلسطینیوں کے حق میں کوئی قرارداد پیش کی جاتی ہے، امریکا اسے ویٹو کر دیتا ہے۔
یہ طرز عمل عالمی قانون کی روح کے خلاف ہے اور دنیا میں انصاف کے نظام پر ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔اب سوال یہ نہیں کہ اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ ان خلاف ورزیوں کے باوجود کیوں سزا سے بچ نکلتا ہے۔
کیا انسانی حقوق کی خلاف ورزی صرف اسی وقت جرم سمجھی جاتی ہے جب وہ کسی کمزور ملک سے سرزد ہو؟ کیا بین الاقوامی قانون صرف انھی پر لاگو ہوتا ہے جن کے پاس بڑی طاقتوں کی حمایت نہ ہو؟ اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں جن میں اسپتالوں پر حملے، بچوں اور خواتین کی ہلاکتیں، بنیادی انسانی سہولیات کی بندش، اور امدادی کارکنوں کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ بین الاقوامی قانون کے واضح طور پر خلاف ہیں، لیکن امریکا کی خاموشی یا مشروط تحفظ نے ان جرائم کو معمول بنا دیا ہے۔
اگر اسرائیل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور امریکا اس کی نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ اس پر عالمی سطح پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی کرتا ہے، تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ امریکا خود بھی ان خلاف ورزیوں میں شریک ہے، اگرچہ براہِ راست نہیں تو بالواسطہ طور پر ضرور۔ جب ایک ریاست کسی دوسرے ملک کو ہتھیار فراہم کرتی ہے، مالی امداد دیتی ہے اور اس کے اقدامات پر کوئی جوابدہی نہیں لیتی، تو یہ تعلق محض سفارتی یا دفاعی تعاون تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کی اخلاقی اور قانونی ذمے داریاں بھی بنتی ہیں۔
اس وقت دنیا کو ایک واضح مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ صرف مذمتی بیانات، روایتی اقوام متحدہ کی قراردادیں اور انسانی حقوق کے نام نہاد اداروں کی رپورٹس کافی نہیں۔ اگر عالمی برادری واقعی ایک منصفانہ اور پائیدار عالمی نظام چاہتی ہے تو اسے طاقتور ممالک اور ان کے اتحادیوں کو بھی اسی معیار پر پرکھنا ہوگا جس پر باقی دنیا کو پرکھا جاتا ہے، اگر امریکا واقعی انصاف، امن اور قانون کی حکمرانی کا علمبردار ہے تو اسے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت ترک کرنا ہوگی اور اس کی کارروائیوں کا غیر جانبدارانہ جائزہ لینا ہوگا۔